صحیح بخاری میں ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ میری اُمت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا وہ بخش دیا جائے گا۔ مسند امام احمد بن حنبل میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرلوگے۔ وہ فاتح فوج بھی خوب ہے اور اس کا امیربھی خوب ہے۔‘
ارشادنبوی ﷺ میں موعودہ مغفرت کے پیش نظر آٹھ سو سال تک مسلمانوں کی آرزو رہی ہے کہ قسطنطنیہ فتح ہو اور وہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والی فوج میں شامل ہوکر مغفرت کے حقدار ہوجائیں۔
قسطنطنیہ محل وقوع اور تاریخی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل رہاہے۔ یہ بازنطینی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ فان کرامر کے مطابق قسطنطنیہ پر ۹۲ حملے ہوئے ہیں۔ مسلم مورخین کے مطابق مسلمانوں نے اس شہر پر نوبار حملے کئے ہیں۔
مسلمانوں نے سب سے پہلا حملہ حضرت معاویہ ؓکے دور خلافت میں سفیان بن عوف اور یزیدکی سربراہی میں بحری اور بری راستے سے ۸۴ھ / ۸۶۶ ء میں کیا۔ مغفرت کے وعدے کے پیش نظر کبار صحابہ میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاری ؓ، حضرت عبادہ بن صامت ؓ، حضرت ابو الدرداء ؓ، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ، حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ، حضرت حسین ؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ بھی جہاد میں شریک ہوئے۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ نے جہاد کے دوران ہی وفات پائی۔
وفات کے وقت انہوں نے لشکر کے امیر یزید بن معاویہ ؓ کو بلوایا اور انہیں وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میری نعش تابوت میں رکھ کر کندھوں پر اُٹھانا اور فوج کے آگے رکھ کر جہاں تک ممکن ہو آگے بڑھتے ہوئے دشمن کے علاقے میں گھس جانا۔ جب آگے بڑھنانا ممکن ہو تو مجھے وہیں دفن کرنا۔ یزید نے اس حکم کی پوری تعمیل کی۔ مسلمانوں نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے جنازے کو فوج کے آگے رکھا اور لڑتے بھڑتے قسطنطنیہ کی دیوار تک پہنچے۔ جب آگے بڑھنا ممکن نہ رہا تو جنازے کو روک کر زمین پر رکھا۔ یزید نے نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین عمل میں آئی۔یزید نے قیصر کو پیغام بھیجا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ایک محترم صحابی کو یہاں دفن کردیا ہے اگر تم نے قبر کی ذرا بھی بے حرمتی کی تو شام میں ناقوس نہیں بچے گا۔ جتنے گرجے ہیں انہیں زمین کے برابر کردوں گا۔
قسطنطنیہ پر مسلمانوں کا آخری حملہ ۷۵۸ھ / ۳۵۴۱ ء میں ہوا سلطان محمد فاتح موسم بہار میں پچاس ہزار سوار اور بیس ہزار فوج لیکر ۶۲ ربیع الاول ۷۵۸ ھ / ۶ اپریل ۳۵۴۱ ء کو قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے پہنچ گیا اور شہر کا محاصرہ کرلیا۔ عیسائیوں نے بھی زبردست تیاری کی تھی۔ محاصرہ کے دوران بھی یورپ کے ملکوں سے قسطنطنیہ کی مدافعت کے لئے جنگجو، معمار، انجینیر اور کاریگر آرہے تھے۔ سامان رسد سے لدی کشتیاں تھمنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ اس دوران دو مرتبہ جہاز سامان رسد اور گولہ بارود لیکر عیسائیوں کی مدد کو پہنچے۔ سلطان ان حالات کا مشاہدہ کررہا تھا۔
۹۱ جمادی الاول ۷۵۸ ھ / ۸۲ مئی ۳۵۴۱ ء کو سلطان نے اعلان کروایا کہ کل صبح کے وقت شہر پر ہر طرف سے حملہ کیا جائے گا۔ سلطان کے ساتھ علماء و صلحاء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ان کے علاوہ سلطان نے اپنے مرشد کو بھی ساتھ رکھا تھا۔ مرشد نے اپنے لئے ایک چھولداری نصب کروائی اور دعائیں کرنے لگے۔ فوج میں پوری رات چراغاں رہا۔ علماء اور صلحاء کے ساتھ ساتھ فوج بھی رات بھر عبادت میں مصروف رہی۔ ۰۲ جمادی الاول ۷۵۸ ھ / ۹۲ مئی ۳۵۴۱ ء کو نماز فجر ادا کی گئی۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد حملہ کیا گیا۔ عیسائیوں نے زبردست مدافعت کی۔ متعدد بار مسلمان فصیل پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئے مگر عیسائیوں کی مزاحمت سے واپس لوٹنا پڑا۔ مسلمانوں نے اس محاصرے میں بڑی توپوں کا استعمال کیا۔ ان کے ایک ایک گولے کا وزن دو سو ستر کلو گرام اور بعض بیانات کے مطابق چار سو کلوگرام تھا۔ ایسے ہی ایک گولے نے وینس کے جہاز کے دوٹکڑے کردئے۔ دوپہر کے وقت جنگ میں شدت آگئی تو سلطان نے اپنے مرشد کے پاس قاصد بھیجا کہ خصوصی دعا کا وقت ہے۔ چھولداری کے باہر بیٹھے دربان نے پہلے قاصد کو روکا مگر جب قاصد نے کہا کہ مجھے سلطان نے بھیجا ہے تو اسے اندر جانے دیا۔ قاصد اندر گیا تو دیکھا کہ مرشد سر بسجود ہوکر دعا کررہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا اور کہا جاؤسلطان سے کہو کہ شہر قسطنطنیہ فتح ہوگیا۔ جس وقت مرشد کی زبان سے یہ الفاظ نکل رہے تھے۔ عین اسی وقت سلطان کے سامنے فصیل کا ایک حصہ خود بخود آکر گرا۔ اسی وقت بحری فوج نے ایک برج پر قبضہ کرکے سلطانی علَم بلند کردیا۔ مسلمان شہرمیں داخل ہوگئے۔ سلطان نے اذان دلوائی اور ایاصوفیہ کے گرجے میں ظہر کی نماز ادا کی۔ فتح قسطنطنیہ میں چالیس ہزار عیسائی فوجی مارے گئے۔ اور ساٹھ ہزار گرفتار ہوئے۔ فتح قسطنطنیہ پر پورے عالم اسلام میں خوشیاں منائی گئیں۔ قرآنی آیت کے ٹکڑے ’بلدۃ طیبہ‘ سے تاریخ نکالی گئی سلطان نے قسطنطنیہ کو اسی وقت دارالخلافہ قرار دیا۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر پر جامعہ مسجد تعمیر کرانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد سلاطین کی تاجپوشی کی رسم یہیں ادا کی جاتی تھی۔ قسطنطنیہ کی فتح ۹۲ مئی۳۵۴۱ء کو ہوئی تھی۔