کورونا ویکسین ٹیکنالوجی اور انٹلیکچول پراپرٹی کے بارے میں WTO کا تازہ فیصلہ
جنیوا میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے وزارتی اجلاس کے اختتام کے ساتھ جو خبریں سامنے آئی ہیں ان میں ڈبلیو ٹی او کے تحت 1994 میں ہونے والے انٹلیکچول پراپرٹی کے معاہدے (ٹرپس اگریمنٹ) سے متعلقہ ایک نیا فیصلہ بھی شامل ہے۔ بنیادی طور اس فیصلے کا تعلق انڈیا اور جنوبی افریقہ کی اس تجویز سے ہے جو اکتوبر 2019 میں دونوں ممالک نے کوویڈ-19 کے علاج و تشخیص سے متعلقہ ٹیکنالوجی کو پیٹنٹس اور دیگر انٹلیکچول پراپرٹی رائٹس سے مستثنٰی قرار دینے کے لئے دی گئی تھی۔ اس تجویز کا پس منظر یہ تھا کہ کوویڈ-19 کے علاج کے لئے بہت سی نئی دریافت شدہ ویکسینز اور ادوایات کے جملہ حقوق فارماسوٹیکل کمپنیاں اپنے لئے رجسٹر کروا کر محفوظ کر رہی تھیں۔ وبا سے نبرد آزما ملکوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ کمپنیوں کے ان حقوق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صحت عامہ کی مفاد میں ان ٹیکنالوجیز کو وسیع پیمانے پر بروئے لانے کے اقدامات کرتے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈبلیو ٹی او کا ٹرپس اگریمنٹ تھا جس کی رو سے تمام ممبر ممالک پر انٹلیکچول پراپرٹی رائیٹس کا تحفظ و پاسداری لازمی ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
انڈیا اور جنوبی افریقہ نے اسی مشکل کے پیش نظر یہ تجویز دی کہ کوویڈ-19 کے خطرات کے پیش نظر اس سے جڑی تمام ٹیکنالوجی کو انٹلیکچول پراپرٹی رائیٹس سے مستثنٰی قرار دیا جائے۔ اس تجویز کو دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک اور مفاد عامہ میں کام کرنے والی تنظیموں میں پذیرائی حاصل ہوئی اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے اس کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ حسب سابق فارماسوٹیکل لابی کے ذیر اثر ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت نے اس تجویز پر کئی طرح کے اعتراضات کرنے شروع کر دیئے جس کے نتیجے میں یورپ کی طرف سے ایک متبادل تجویز سامنے آئی جس نے بنیادی طور پر استثناء پر مبنی تجویز کا ستیاناس کر دیا۔
اس انتہائی محدود نوعیت کی یورپی تجویز کی بنیاد پر ہی تقریبا تین سال کی گفت و شنید کے بعد اب ڈبلیو ٹی او کے وزارتی اجلاس میں چار دنوں کی گرما گرم بحث کے بعد ایک ایسا فیصلہ سامنے آیا ہے جو متفقہ تو ہے مگر ان مقاصد کے حصول سے کوسوں دور ہے جن کے لئے یہ تجویز دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈالر اور عمران خان، دونوں کی اڑان کیسے رکے گی؟ حل نکل آیا
پروفیسر سبین یونس: جن کی شاعری ان کی سوانح عمری ہے
لڑکیاں گھر سے کب بھاگتی ہیں، دعا زہرا کا مسئلہ کیا تھا؟
جنیوا سے موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس فیصلے میں چند اہم نکات شامل ہیں۔ ان میں سے ایک نکتہ تو یہ ہے کہ اس فیصلے کا اطلاق سردست صرف ویکسینز پر ہوگا اور اس کے دائرہ کار میں ویکسین کے علاوہ دوسری ٹیکنالوجیز (مثلا تشخیص کی ٹیکنالوجی یا علاج کی ادوایات) شامل نہیں ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک بہت بڑی خامی ہے کیونکہ ویکسین ٹیکنالوجی کی اہمیت اپنی جگہ مگر دنیا کے کتنے ترقی پذیر ممالک ویکسین بنانے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ اس وقت ریسرچ کے نتیجے میں بہت سی موثر ادویات کوکےرونا وائرس کے علاج کے لئے مارکیٹ میں آ رہی ہیں جن میں سے بعض کے پیٹنٹس بہت سے ترقی پذیر ممالک میں موجود ہیں۔ ان پیٹنٹس کی وجہ سے ان ادویات تک حکومت اور عام لوگوں کی رسائی مشکل بن سکتی ہے۔ اس فیصلے کے دائرہ کار سے اس طرح کی ادویات کو نکالنا کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔ فیصلے میں اتنا ضرور کہا گیا ہے کہ ادویات اور تشخیص سے متعلقہ ٹیکنالوجی کو شامل کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ ممبر ممالک چھ ماہ کے دوران کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگلے چھ ماہ میں اگر ممبر ممالک زور دیں تو اس فیصلے کو زیادہ مفید اور کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔
فیصلے کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ویکسین کی نئی ٹیکنالوجی بشمول mRNA technology کے تمام پیٹنٹس کو نظرانداز کر کے ٹیکنالوجی میں استعداد رکھنے والے ترقی پذیر ممالک استعمال میں لا سکیں گے جو بہرحال اپنی جگہ ایک کامیابی ہے۔ گو کہ اس فیصلے میں ویکسین بنانے والے ترقی پذیر ممالک کو زور دے (قانونی طور پر لازم نہیں ہے) کر کہا گیا ہے کہ وہ باقی ماندہ ترقی پذیر ممالک کے برعکس اس فیصلے سے مستفید نہ ہونے کا از خود اعلان کریں۔ اس نکتے کا براہ راست نشانہ چین ہے جو دنیا بھر میں ویکسین بنانے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ امریکہ نے ہر ممکنہ کوشش کی کہ چین کو باقاعدہ اس فیصلے سے باہر رکھا جائے مگر آخری وقت پر مفاہمت کے لئے از خود فیصلے کو اختیار نہ کرنے کی شق کو شامل کیا گیا۔
پاکستان نے گو کہ اس پورے قضیہ میں ترقی پذیر ممالک کا ساتھ دیا مگر ہمارے ہاں ویکسین بنانے کی استعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس وقت بعض ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارمز کے ذریعے کوشش ہورہی ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کی ویکسین بنانے کی استعداد بڑھائی جائے مگر ظاہر ہے یہ کوششیں ابھی بالکل ابتدائی سطح کی ہیں۔ پاکستان کے تحقیقی اداروں اور فارماسوٹیکل انڈسٹری کے لئے موقع بن سکتا ہے کہ وہ بین الاقوامی پارٹنرز کے ساتھ مل کر ویکسین اور ادویات کی تیاری کے تحقیقی مراحل میں شریک ہونا شروع ہوجائیں۔