Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
صحت کارڈ کی شرعی حیثیت کے بارے میں غور کر رہا ہوں اور حتمی رائے بنانے سے پہلے مندرجہ ذیل نکات زیر مطالعہ ہیں:
1۔ حکومت نے اس کارڈ کے اجراء کے لئے اسٹیٹ لائف کی خدمات لے رکھی ہیں جو پر سود اور غرر پر مبنی انشورنس ماڈل پر کام کرنے والا ادارہ ہے۔ دستیاب معلومات کی حد تک اس صحت کارڈ میں تکافل ( چاہے متنازعہ ہی سہی) ماڈل بھی زیر استعمال نہیں ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
صحت کارڈ اسکیم میں حکومت پریمیم ادا کرتی ہے جو اسٹیٹ لائف کے ذریعے ایڈمنسٹر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسٹیٹ لائف اور حکومت کا اس سلسلے میں باہمی ارینجمنٹ کیا ہے؟ کیا اسٹیٹ لائف محض انڈمنسٹر ہے کہ حکومت سے رقم لے کر وہ کلیم کنندہ کو ایک پراسس کے ذریعے ادائیگی کر دیتا ہے۔ یا پھر حکومت اسٹیٹ لائف کو ادائیگیاں کرتی ہے جو یہ کمپنی دیگر انشورنس اسکیموں کی طرح مختلف جگہوں پر سرمایہ کاری کی صورت میں لگاتی ہے۔ اور اس میں سے ایک مخصوص حصہ کلیمز پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر تو اسٹیٹ لائف محض ایڈمنسٹریٹر ہے تو صورتحال مختلف ہے اور اگر اسٹیٹ لائف ان معنوں میں فنانشل پارٹنر بھی ہے کہ وہ رقم حاصل کر کے اسے انوسٹ بھی کرتا ہے تو صورتحال مختلف ہے. گمان یہی ہے کہ اسٹیٹ لائف اس میں فنانشل پارٹنر بھی ہے۔ اس لیے کہ محض ایڈمنسٹریٹر والی خدمات کے لئے انشورنس کمپنی کو پارٹنر بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پچیس جنوری: آج استاد شوکت حسین طبلہ نواز کی برسی ہے
جماعت اسلامی کا دھرنا کراچی کے لیے
جب بھارت نے پنجاب کا 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کیا
شہزاد اکبر کے بعد کس کس کا استعفیٰ آنے والا ہے؟
2۔ یہ کارڈ بہرحال سوشل انشورنس ہی کی ایک صورت ہے جس کے بارے میں عمومی فتاویٰ جات جواز کی طرف مائل ہیں اور عرب علماء اور اکیڈیمیوں کی یہی رائے چلی آتی ہے۔ مگر صحت کارڈ کے ماڈل میں تفصیلات اہم ہیں کہ اس میں استعمال کنندہ سے کوئی کٹوتی نہیں ہوتی جسے بنیاد بنا کر اکثر سماجی انشورنس کی اسکیموں کو جواز بخشا جاتا ہے۔ یہاں حکومت براہ راست اسٹیٹ لائف کو رقم ادا کرتی ہے۔ اور کارڈ ہولڈر بنیفشری ہوتا ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں استعمال کنندہ بھی رقم دیتا ہے۔ مگر وہ براہ راست نہیں ہوتی بلکہ حکومت کو دیئے گئے ٹیکس میں سے ہی حکومت ادائیگی کرتی ہے۔ سو یہ استعمال کنندہ کی ہی کنٹریبیوشن ہے۔ یہ امر بہر حال محل نزاع ہے کہ ٹیکس کون اور کتنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں مجہول و مخلوط ادائیگی (عمومی عوامی ٹیکس) کی بنیاد پر معلوم ادائیگی (صحت کارڈ کی انشورنس کی رقم) کے جواز کی رائے دی جا سکتی ہے کہ نہیں۔
3۔ جواز کے بارے میں ایک اور دلیل یہ بھی دی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ کمرشل انشورنس یا پرائیویٹ انشورنس ماڈل سے یہ ماڈل مختلف ہے۔ وہ اس طرح کہ وہاں انشورنس کمپنی کا اصل ہدف منافع کمانا ہوتا ہے۔ جبکہ سماجی انشورنس میں حکومت رقم ڈالتی ہے۔ یوں اصل مقصد سماجی مدد ہے نہ کہ منافع۔ اس دلیل کا عرب علماء کے ہاںبہت ذکر ہے۔ یہ دلیل بھی غور طلب ہے کہ صحت کارڈ جیسی اسکیموں کا بزنس ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ یا خودمختار حکومتی بزنس ادارہ (مثلا اسٹیٹ لائف) بھی شامل ہوتا ہے۔ اب حکومت چاہے اس سے منافع نہ کمانا چاہتی ہو مگر اسٹیٹ لائف تو اس سارے کو ایک بزنس کے طور پر ہی لیتی ہے۔ چاہے اس میں اس کی شرح منافع دوسرے بزنس سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ جانتے بوجھتے ہوئے ایک سودی و غیر شرعی ماڈل کو محض اس وجہ سے قبول کر لینا کہ اس میں ادائیگی کرنے والا فریق حکومت ہے۔ یہ بھی ایک غور طلب مسئلہ ہے۔
4۔ جواز کی ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ حکومت کے تو سارے ہی مالیاتی معاملات کسی نہ کسی شکل میں سودی آمیزش کے حامل ہوتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ہمہ وقت کمرشل بینکوں سے قرضے اور سودی اسکیموں میں سرمایہ کاری ہی حکومتی مالیاتی حکمت عملی کی بنیاد ہے۔ سو اگر تنخواہوں اور دیگر حکومتی خدمات کو قبول کیا جاتا ہے (جو اس طرح کے ناجائز و مشکوک ذرائع سے حاصل شدہ رقم سے ادا کی جاتی ہیں) تو صحت کارڈ کو بھی ایک اور حکومتی خدمت سمجھ کر قبول کیا جاسکتا ہے۔ یہ دلیل بھی مزید تجزیے کی متقاضی ہے۔ اس لیے کہ عمومی حکومتی خدمات میں جائز و ناجائز کا اختلاط ہوتا ہے اور جواز کی دلیل میں جائز کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ مثلا یہ پتا لگانا کہ فلاں شخص کی تنخواہ یا فلاں حکومتی خدمت کا خرچ کہاں سے آیا ہے، جاننا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ حکومت کے ذرائع آمدن متعدد ہوتے ہیں جن میں جائز و ناجائز دونوں صورتیں شامل ہیں۔ اس کے برعکس صحت کارڈ میں جو ادائیگی علاج کی صورت میں کی جاتی ہے اس کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اسٹیٹ لائف کی طرف سے ہے جس کا بزنس ماڈل معلوم و معروف ہے۔ سو ان دو صورتوں کو یکساں قرار دینا بھی محل نظر ہے اور اس بارے میں مزید غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کارڈ ایک انشورنس کمپنی کے کاروبار کا نتیجہ ہے جس کا ذریعہ آمدنی سود ہے، اس لیے صحات کارڈ کی سہولت کو جائز قرار دینا مشکل ہے
صحت کارڈ کی شرعی حیثیت کے بارے میں غور کر رہا ہوں اور حتمی رائے بنانے سے پہلے مندرجہ ذیل نکات زیر مطالعہ ہیں:
1۔ حکومت نے اس کارڈ کے اجراء کے لئے اسٹیٹ لائف کی خدمات لے رکھی ہیں جو پر سود اور غرر پر مبنی انشورنس ماڈل پر کام کرنے والا ادارہ ہے۔ دستیاب معلومات کی حد تک اس صحت کارڈ میں تکافل ( چاہے متنازعہ ہی سہی) ماڈل بھی زیر استعمال نہیں ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
صحت کارڈ اسکیم میں حکومت پریمیم ادا کرتی ہے جو اسٹیٹ لائف کے ذریعے ایڈمنسٹر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسٹیٹ لائف اور حکومت کا اس سلسلے میں باہمی ارینجمنٹ کیا ہے؟ کیا اسٹیٹ لائف محض انڈمنسٹر ہے کہ حکومت سے رقم لے کر وہ کلیم کنندہ کو ایک پراسس کے ذریعے ادائیگی کر دیتا ہے۔ یا پھر حکومت اسٹیٹ لائف کو ادائیگیاں کرتی ہے جو یہ کمپنی دیگر انشورنس اسکیموں کی طرح مختلف جگہوں پر سرمایہ کاری کی صورت میں لگاتی ہے۔ اور اس میں سے ایک مخصوص حصہ کلیمز پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر تو اسٹیٹ لائف محض ایڈمنسٹریٹر ہے تو صورتحال مختلف ہے اور اگر اسٹیٹ لائف ان معنوں میں فنانشل پارٹنر بھی ہے کہ وہ رقم حاصل کر کے اسے انوسٹ بھی کرتا ہے تو صورتحال مختلف ہے. گمان یہی ہے کہ اسٹیٹ لائف اس میں فنانشل پارٹنر بھی ہے۔ اس لیے کہ محض ایڈمنسٹریٹر والی خدمات کے لئے انشورنس کمپنی کو پارٹنر بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پچیس جنوری: آج استاد شوکت حسین طبلہ نواز کی برسی ہے
جماعت اسلامی کا دھرنا کراچی کے لیے
جب بھارت نے پنجاب کا 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کیا
شہزاد اکبر کے بعد کس کس کا استعفیٰ آنے والا ہے؟
2۔ یہ کارڈ بہرحال سوشل انشورنس ہی کی ایک صورت ہے جس کے بارے میں عمومی فتاویٰ جات جواز کی طرف مائل ہیں اور عرب علماء اور اکیڈیمیوں کی یہی رائے چلی آتی ہے۔ مگر صحت کارڈ کے ماڈل میں تفصیلات اہم ہیں کہ اس میں استعمال کنندہ سے کوئی کٹوتی نہیں ہوتی جسے بنیاد بنا کر اکثر سماجی انشورنس کی اسکیموں کو جواز بخشا جاتا ہے۔ یہاں حکومت براہ راست اسٹیٹ لائف کو رقم ادا کرتی ہے۔ اور کارڈ ہولڈر بنیفشری ہوتا ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں استعمال کنندہ بھی رقم دیتا ہے۔ مگر وہ براہ راست نہیں ہوتی بلکہ حکومت کو دیئے گئے ٹیکس میں سے ہی حکومت ادائیگی کرتی ہے۔ سو یہ استعمال کنندہ کی ہی کنٹریبیوشن ہے۔ یہ امر بہر حال محل نزاع ہے کہ ٹیکس کون اور کتنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں مجہول و مخلوط ادائیگی (عمومی عوامی ٹیکس) کی بنیاد پر معلوم ادائیگی (صحت کارڈ کی انشورنس کی رقم) کے جواز کی رائے دی جا سکتی ہے کہ نہیں۔
3۔ جواز کے بارے میں ایک اور دلیل یہ بھی دی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ کمرشل انشورنس یا پرائیویٹ انشورنس ماڈل سے یہ ماڈل مختلف ہے۔ وہ اس طرح کہ وہاں انشورنس کمپنی کا اصل ہدف منافع کمانا ہوتا ہے۔ جبکہ سماجی انشورنس میں حکومت رقم ڈالتی ہے۔ یوں اصل مقصد سماجی مدد ہے نہ کہ منافع۔ اس دلیل کا عرب علماء کے ہاںبہت ذکر ہے۔ یہ دلیل بھی غور طلب ہے کہ صحت کارڈ جیسی اسکیموں کا بزنس ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ یا خودمختار حکومتی بزنس ادارہ (مثلا اسٹیٹ لائف) بھی شامل ہوتا ہے۔ اب حکومت چاہے اس سے منافع نہ کمانا چاہتی ہو مگر اسٹیٹ لائف تو اس سارے کو ایک بزنس کے طور پر ہی لیتی ہے۔ چاہے اس میں اس کی شرح منافع دوسرے بزنس سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ جانتے بوجھتے ہوئے ایک سودی و غیر شرعی ماڈل کو محض اس وجہ سے قبول کر لینا کہ اس میں ادائیگی کرنے والا فریق حکومت ہے۔ یہ بھی ایک غور طلب مسئلہ ہے۔
4۔ جواز کی ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ حکومت کے تو سارے ہی مالیاتی معاملات کسی نہ کسی شکل میں سودی آمیزش کے حامل ہوتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ہمہ وقت کمرشل بینکوں سے قرضے اور سودی اسکیموں میں سرمایہ کاری ہی حکومتی مالیاتی حکمت عملی کی بنیاد ہے۔ سو اگر تنخواہوں اور دیگر حکومتی خدمات کو قبول کیا جاتا ہے (جو اس طرح کے ناجائز و مشکوک ذرائع سے حاصل شدہ رقم سے ادا کی جاتی ہیں) تو صحت کارڈ کو بھی ایک اور حکومتی خدمت سمجھ کر قبول کیا جاسکتا ہے۔ یہ دلیل بھی مزید تجزیے کی متقاضی ہے۔ اس لیے کہ عمومی حکومتی خدمات میں جائز و ناجائز کا اختلاط ہوتا ہے اور جواز کی دلیل میں جائز کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ مثلا یہ پتا لگانا کہ فلاں شخص کی تنخواہ یا فلاں حکومتی خدمت کا خرچ کہاں سے آیا ہے، جاننا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ حکومت کے ذرائع آمدن متعدد ہوتے ہیں جن میں جائز و ناجائز دونوں صورتیں شامل ہیں۔ اس کے برعکس صحت کارڈ میں جو ادائیگی علاج کی صورت میں کی جاتی ہے اس کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اسٹیٹ لائف کی طرف سے ہے جس کا بزنس ماڈل معلوم و معروف ہے۔ سو ان دو صورتوں کو یکساں قرار دینا بھی محل نظر ہے اور اس بارے میں مزید غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کارڈ ایک انشورنس کمپنی کے کاروبار کا نتیجہ ہے جس کا ذریعہ آمدنی سود ہے، اس لیے صحات کارڈ کی سہولت کو جائز قرار دینا مشکل ہے
صحت کارڈ کی شرعی حیثیت کے بارے میں غور کر رہا ہوں اور حتمی رائے بنانے سے پہلے مندرجہ ذیل نکات زیر مطالعہ ہیں:
1۔ حکومت نے اس کارڈ کے اجراء کے لئے اسٹیٹ لائف کی خدمات لے رکھی ہیں جو پر سود اور غرر پر مبنی انشورنس ماڈل پر کام کرنے والا ادارہ ہے۔ دستیاب معلومات کی حد تک اس صحت کارڈ میں تکافل ( چاہے متنازعہ ہی سہی) ماڈل بھی زیر استعمال نہیں ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
صحت کارڈ اسکیم میں حکومت پریمیم ادا کرتی ہے جو اسٹیٹ لائف کے ذریعے ایڈمنسٹر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسٹیٹ لائف اور حکومت کا اس سلسلے میں باہمی ارینجمنٹ کیا ہے؟ کیا اسٹیٹ لائف محض انڈمنسٹر ہے کہ حکومت سے رقم لے کر وہ کلیم کنندہ کو ایک پراسس کے ذریعے ادائیگی کر دیتا ہے۔ یا پھر حکومت اسٹیٹ لائف کو ادائیگیاں کرتی ہے جو یہ کمپنی دیگر انشورنس اسکیموں کی طرح مختلف جگہوں پر سرمایہ کاری کی صورت میں لگاتی ہے۔ اور اس میں سے ایک مخصوص حصہ کلیمز پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر تو اسٹیٹ لائف محض ایڈمنسٹریٹر ہے تو صورتحال مختلف ہے اور اگر اسٹیٹ لائف ان معنوں میں فنانشل پارٹنر بھی ہے کہ وہ رقم حاصل کر کے اسے انوسٹ بھی کرتا ہے تو صورتحال مختلف ہے. گمان یہی ہے کہ اسٹیٹ لائف اس میں فنانشل پارٹنر بھی ہے۔ اس لیے کہ محض ایڈمنسٹریٹر والی خدمات کے لئے انشورنس کمپنی کو پارٹنر بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پچیس جنوری: آج استاد شوکت حسین طبلہ نواز کی برسی ہے
جماعت اسلامی کا دھرنا کراچی کے لیے
جب بھارت نے پنجاب کا 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کیا
شہزاد اکبر کے بعد کس کس کا استعفیٰ آنے والا ہے؟
2۔ یہ کارڈ بہرحال سوشل انشورنس ہی کی ایک صورت ہے جس کے بارے میں عمومی فتاویٰ جات جواز کی طرف مائل ہیں اور عرب علماء اور اکیڈیمیوں کی یہی رائے چلی آتی ہے۔ مگر صحت کارڈ کے ماڈل میں تفصیلات اہم ہیں کہ اس میں استعمال کنندہ سے کوئی کٹوتی نہیں ہوتی جسے بنیاد بنا کر اکثر سماجی انشورنس کی اسکیموں کو جواز بخشا جاتا ہے۔ یہاں حکومت براہ راست اسٹیٹ لائف کو رقم ادا کرتی ہے۔ اور کارڈ ہولڈر بنیفشری ہوتا ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں استعمال کنندہ بھی رقم دیتا ہے۔ مگر وہ براہ راست نہیں ہوتی بلکہ حکومت کو دیئے گئے ٹیکس میں سے ہی حکومت ادائیگی کرتی ہے۔ سو یہ استعمال کنندہ کی ہی کنٹریبیوشن ہے۔ یہ امر بہر حال محل نزاع ہے کہ ٹیکس کون اور کتنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں مجہول و مخلوط ادائیگی (عمومی عوامی ٹیکس) کی بنیاد پر معلوم ادائیگی (صحت کارڈ کی انشورنس کی رقم) کے جواز کی رائے دی جا سکتی ہے کہ نہیں۔
3۔ جواز کے بارے میں ایک اور دلیل یہ بھی دی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ کمرشل انشورنس یا پرائیویٹ انشورنس ماڈل سے یہ ماڈل مختلف ہے۔ وہ اس طرح کہ وہاں انشورنس کمپنی کا اصل ہدف منافع کمانا ہوتا ہے۔ جبکہ سماجی انشورنس میں حکومت رقم ڈالتی ہے۔ یوں اصل مقصد سماجی مدد ہے نہ کہ منافع۔ اس دلیل کا عرب علماء کے ہاںبہت ذکر ہے۔ یہ دلیل بھی غور طلب ہے کہ صحت کارڈ جیسی اسکیموں کا بزنس ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ یا خودمختار حکومتی بزنس ادارہ (مثلا اسٹیٹ لائف) بھی شامل ہوتا ہے۔ اب حکومت چاہے اس سے منافع نہ کمانا چاہتی ہو مگر اسٹیٹ لائف تو اس سارے کو ایک بزنس کے طور پر ہی لیتی ہے۔ چاہے اس میں اس کی شرح منافع دوسرے بزنس سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ جانتے بوجھتے ہوئے ایک سودی و غیر شرعی ماڈل کو محض اس وجہ سے قبول کر لینا کہ اس میں ادائیگی کرنے والا فریق حکومت ہے۔ یہ بھی ایک غور طلب مسئلہ ہے۔
4۔ جواز کی ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ حکومت کے تو سارے ہی مالیاتی معاملات کسی نہ کسی شکل میں سودی آمیزش کے حامل ہوتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ہمہ وقت کمرشل بینکوں سے قرضے اور سودی اسکیموں میں سرمایہ کاری ہی حکومتی مالیاتی حکمت عملی کی بنیاد ہے۔ سو اگر تنخواہوں اور دیگر حکومتی خدمات کو قبول کیا جاتا ہے (جو اس طرح کے ناجائز و مشکوک ذرائع سے حاصل شدہ رقم سے ادا کی جاتی ہیں) تو صحت کارڈ کو بھی ایک اور حکومتی خدمت سمجھ کر قبول کیا جاسکتا ہے۔ یہ دلیل بھی مزید تجزیے کی متقاضی ہے۔ اس لیے کہ عمومی حکومتی خدمات میں جائز و ناجائز کا اختلاط ہوتا ہے اور جواز کی دلیل میں جائز کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ مثلا یہ پتا لگانا کہ فلاں شخص کی تنخواہ یا فلاں حکومتی خدمت کا خرچ کہاں سے آیا ہے، جاننا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ حکومت کے ذرائع آمدن متعدد ہوتے ہیں جن میں جائز و ناجائز دونوں صورتیں شامل ہیں۔ اس کے برعکس صحت کارڈ میں جو ادائیگی علاج کی صورت میں کی جاتی ہے اس کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اسٹیٹ لائف کی طرف سے ہے جس کا بزنس ماڈل معلوم و معروف ہے۔ سو ان دو صورتوں کو یکساں قرار دینا بھی محل نظر ہے اور اس بارے میں مزید غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کارڈ ایک انشورنس کمپنی کے کاروبار کا نتیجہ ہے جس کا ذریعہ آمدنی سود ہے، اس لیے صحات کارڈ کی سہولت کو جائز قرار دینا مشکل ہے
صحت کارڈ کی شرعی حیثیت کے بارے میں غور کر رہا ہوں اور حتمی رائے بنانے سے پہلے مندرجہ ذیل نکات زیر مطالعہ ہیں:
1۔ حکومت نے اس کارڈ کے اجراء کے لئے اسٹیٹ لائف کی خدمات لے رکھی ہیں جو پر سود اور غرر پر مبنی انشورنس ماڈل پر کام کرنے والا ادارہ ہے۔ دستیاب معلومات کی حد تک اس صحت کارڈ میں تکافل ( چاہے متنازعہ ہی سہی) ماڈل بھی زیر استعمال نہیں ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
صحت کارڈ اسکیم میں حکومت پریمیم ادا کرتی ہے جو اسٹیٹ لائف کے ذریعے ایڈمنسٹر کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسٹیٹ لائف اور حکومت کا اس سلسلے میں باہمی ارینجمنٹ کیا ہے؟ کیا اسٹیٹ لائف محض انڈمنسٹر ہے کہ حکومت سے رقم لے کر وہ کلیم کنندہ کو ایک پراسس کے ذریعے ادائیگی کر دیتا ہے۔ یا پھر حکومت اسٹیٹ لائف کو ادائیگیاں کرتی ہے جو یہ کمپنی دیگر انشورنس اسکیموں کی طرح مختلف جگہوں پر سرمایہ کاری کی صورت میں لگاتی ہے۔ اور اس میں سے ایک مخصوص حصہ کلیمز پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر تو اسٹیٹ لائف محض ایڈمنسٹریٹر ہے تو صورتحال مختلف ہے اور اگر اسٹیٹ لائف ان معنوں میں فنانشل پارٹنر بھی ہے کہ وہ رقم حاصل کر کے اسے انوسٹ بھی کرتا ہے تو صورتحال مختلف ہے. گمان یہی ہے کہ اسٹیٹ لائف اس میں فنانشل پارٹنر بھی ہے۔ اس لیے کہ محض ایڈمنسٹریٹر والی خدمات کے لئے انشورنس کمپنی کو پارٹنر بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پچیس جنوری: آج استاد شوکت حسین طبلہ نواز کی برسی ہے
جماعت اسلامی کا دھرنا کراچی کے لیے
جب بھارت نے پنجاب کا 84 ہزار ایکڑ رقبہ پاکستان کے حوالے کیا
شہزاد اکبر کے بعد کس کس کا استعفیٰ آنے والا ہے؟
2۔ یہ کارڈ بہرحال سوشل انشورنس ہی کی ایک صورت ہے جس کے بارے میں عمومی فتاویٰ جات جواز کی طرف مائل ہیں اور عرب علماء اور اکیڈیمیوں کی یہی رائے چلی آتی ہے۔ مگر صحت کارڈ کے ماڈل میں تفصیلات اہم ہیں کہ اس میں استعمال کنندہ سے کوئی کٹوتی نہیں ہوتی جسے بنیاد بنا کر اکثر سماجی انشورنس کی اسکیموں کو جواز بخشا جاتا ہے۔ یہاں حکومت براہ راست اسٹیٹ لائف کو رقم ادا کرتی ہے۔ اور کارڈ ہولڈر بنیفشری ہوتا ہے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں استعمال کنندہ بھی رقم دیتا ہے۔ مگر وہ براہ راست نہیں ہوتی بلکہ حکومت کو دیئے گئے ٹیکس میں سے ہی حکومت ادائیگی کرتی ہے۔ سو یہ استعمال کنندہ کی ہی کنٹریبیوشن ہے۔ یہ امر بہر حال محل نزاع ہے کہ ٹیکس کون اور کتنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں مجہول و مخلوط ادائیگی (عمومی عوامی ٹیکس) کی بنیاد پر معلوم ادائیگی (صحت کارڈ کی انشورنس کی رقم) کے جواز کی رائے دی جا سکتی ہے کہ نہیں۔
3۔ جواز کے بارے میں ایک اور دلیل یہ بھی دی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ کمرشل انشورنس یا پرائیویٹ انشورنس ماڈل سے یہ ماڈل مختلف ہے۔ وہ اس طرح کہ وہاں انشورنس کمپنی کا اصل ہدف منافع کمانا ہوتا ہے۔ جبکہ سماجی انشورنس میں حکومت رقم ڈالتی ہے۔ یوں اصل مقصد سماجی مدد ہے نہ کہ منافع۔ اس دلیل کا عرب علماء کے ہاںبہت ذکر ہے۔ یہ دلیل بھی غور طلب ہے کہ صحت کارڈ جیسی اسکیموں کا بزنس ماڈل ہمارے سامنے ہے۔ جس میں حکومت کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ یا خودمختار حکومتی بزنس ادارہ (مثلا اسٹیٹ لائف) بھی شامل ہوتا ہے۔ اب حکومت چاہے اس سے منافع نہ کمانا چاہتی ہو مگر اسٹیٹ لائف تو اس سارے کو ایک بزنس کے طور پر ہی لیتی ہے۔ چاہے اس میں اس کی شرح منافع دوسرے بزنس سے کم ہی کیوں نہ ہو۔ جانتے بوجھتے ہوئے ایک سودی و غیر شرعی ماڈل کو محض اس وجہ سے قبول کر لینا کہ اس میں ادائیگی کرنے والا فریق حکومت ہے۔ یہ بھی ایک غور طلب مسئلہ ہے۔
4۔ جواز کی ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ حکومت کے تو سارے ہی مالیاتی معاملات کسی نہ کسی شکل میں سودی آمیزش کے حامل ہوتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ہمہ وقت کمرشل بینکوں سے قرضے اور سودی اسکیموں میں سرمایہ کاری ہی حکومتی مالیاتی حکمت عملی کی بنیاد ہے۔ سو اگر تنخواہوں اور دیگر حکومتی خدمات کو قبول کیا جاتا ہے (جو اس طرح کے ناجائز و مشکوک ذرائع سے حاصل شدہ رقم سے ادا کی جاتی ہیں) تو صحت کارڈ کو بھی ایک اور حکومتی خدمت سمجھ کر قبول کیا جاسکتا ہے۔ یہ دلیل بھی مزید تجزیے کی متقاضی ہے۔ اس لیے کہ عمومی حکومتی خدمات میں جائز و ناجائز کا اختلاط ہوتا ہے اور جواز کی دلیل میں جائز کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ مثلا یہ پتا لگانا کہ فلاں شخص کی تنخواہ یا فلاں حکومتی خدمت کا خرچ کہاں سے آیا ہے، جاننا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ حکومت کے ذرائع آمدن متعدد ہوتے ہیں جن میں جائز و ناجائز دونوں صورتیں شامل ہیں۔ اس کے برعکس صحت کارڈ میں جو ادائیگی علاج کی صورت میں کی جاتی ہے اس کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اسٹیٹ لائف کی طرف سے ہے جس کا بزنس ماڈل معلوم و معروف ہے۔ سو ان دو صورتوں کو یکساں قرار دینا بھی محل نظر ہے اور اس بارے میں مزید غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کارڈ ایک انشورنس کمپنی کے کاروبار کا نتیجہ ہے جس کا ذریعہ آمدنی سود ہے، اس لیے صحات کارڈ کی سہولت کو جائز قرار دینا مشکل ہے