وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری صاحب غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ اگر یہ امریکہ میں ہوتے تو ٹرمپ ٹو بننے کے تمام لوازمات ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ صدر مشرف سے ان کا تعلق عشق کے درجے تک جا پہنچا تھا جس پر موصوف کے وہ سارے کالم گواہ ہیں جو انہوں نے وکالت سے عملی ریٹائرمنٹ کے بعد روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحات پر تحریر کئے تھے۔ وکالت سے ان کی عملی ریٹائرمنٹ کی بھی ایک کہانی ہے کہ جب تک ان کے انکل جسٹس افتخار لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے اس وقت تک پریکٹس کا ہن فواد چودھری پر برستا رہا۔ جونہی موصوف ریٹائر ہوئے ساتھ ہی فواد چودھری کی لیگل پریکٹس اسی طرح بیٹھ گئی جیسے ان کے دور وزارت میں سائنس و ٹیکنالوجی بیٹھ گئی ہے۔
موصوف اور کچھ کریں یا نہ کریں مگر خبروں میں رہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ تماشہ لگانے کے شوقین ہیں سو کل وزیراعظم کے مختلف ہیٹس کا ذکر کر دیا اور اب حسب سابق چاند نکالنے چل پڑے ہیں۔ اس بار چونکہ مفتی منیب صاحب موجود نہیں سو فواد چودھری صاحب نے ان کی چٹکی نہیں کاٹی ورنہ وہ اپنا یہ محبوب مشغلہ کبھی نہیں بھولتے۔ یہی چٹکی کاٹنے کی عادت انہیں کابینہ میں بھی خراب کر گئی ہے اور ہر دفعہ کابینہ کی تبدیلی میں موصوف دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں اور ان کی من چاہی وزارت کوئی اور لے اڑتا ہے۔
جس طرح فواد چودھری صاحب کو چاند نہیں بھولتا اسی طرح ہمیں ان کے وینٹیلیٹرز بنانے اور ایکسپورٹ کرنے کے دعوے نہیں بھولتے۔ اس سوال کا جواب ہنوز باقی ہے کہ فواد صاحب کی وزارت کے ماتحت سائنس و ٹیکنالوجی کے جو درجنوں ادارے کروڑوں روپوں کے بجٹ سے چلتے ہیں انہوں نے نمائشی وینٹیلیٹرز کے علاوہ دراصل کتنے وینٹیلیٹرز تیار کر کے ایکسپورٹ کئے یا مقامی طور پر بڑے اسپتالوں کو فراہم کئے؟ نسٹ جیسے اداروں میں نمائشی وینٹیلیٹرز بنا کر ڈسپلے کرنا تو ایسے ہی ہے جیسے انجینئرنگ کی فیکلٹی کے طلباء کوئی گاڑی یا چھوٹا موٹا جہاز بناتے ہیں اور پھر سب ٹھپ! وینٹیلیٹرز کی ٹیکنالوجی معلوم ہے اور متعلقہ شعبے میں اوسط درجے کی مہارت رکھنے والا شخص بھی ماڈل یا پراجیکٹ بنا کر ہمارے سامنے رکھ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں وینٹیلیٹرز کی مینوفیکچرنگ کے جو دعوے فواد چودھری کی وزارت نے کئے تھے اور اس کام میں ان کے ساتھ ڈاکٹر عطاء الرحمن بھی شامل ہوگئے تھے’ ان سب کا کیا ہوا؟
یادش بخیر فواد چودھری کے دوسرے دعوے بھی یاد آ رہے ہیں کہ جب جب وہ چاند چڑھائیں گے تو ہم ان سے ان کے دعووں کے بارے میں بھی سوالات کریں گے۔ موصوف نے ملک میں کورونا ویکسین کی تیاری بھی کرنی تھی۔ اب تک ملک میں اس حوالے سے ویکسین کی ایک بوند بھی تیار نہیں کی گئی۔ ویکسین کی تیاری تو دور کی بات پاکستان میں حکومت نے چین کی فراہم کردہ مفت ویکسین سے ہٹ کر باہر سے قیمتا ویکسین خریدنے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جو ملک کی آبادی کی ضرورت کو پورا کرسکیں۔ فواد چودھری صاحب نے ہائیبرڈ گاڑیوں کی تیاری کے مقامی پلانٹس’ ٹیکنالوجی ٹرانسفر’ ڈرونز کی کمرشل تیاری’ سمارٹ فونز کی مقامی مینوفیکچرنگ وغیرہ سمیت نہ جانے کتنے دعوے کر رکھے ہیں۔ اگر چاند نکالنے کے ٹویٹس سے انہیں فرصت ملے تو کچھ حقائق وہ اپنے دعووں کے بارے میں بھی قوم کے سامنے پیش کریں۔
ہم سراپا منتظر ہیں چودھری صاحب!