1577ءمیں برطانوی شہر برسٹل سے تعلق رکھنے والے فرانسس راؤلی اور اس کا بیٹا سیمسن راؤلی سویلو نامی بحری جہاز پر سفر کر رہے تھے جب اس جہاز پر ترک بحری قزاقوں نے قبضہ کر لیا اور جہاز کے مسافروں اور عملے کو غلام بنا کر الجزائر پہنچا دیا گیا۔ الجزائر سولہویں صدی میں ترکوں کے زیر حکومت تھا۔
1580ء میں جب انگلستان اور عثمانی ترکوں کے مابین با ضابطہ سفارتی تعلقات کا آغاز ہو تو انگریز ملکہ ایلزبتھ نے ولیم ہاربرن (1543ء۔1617ء) کو استنبول میں اپنا پہلا سفیر مقرر کر کے بھیجا۔ انگلستان کی ترکوں کی طرف نظر التفات کی ایک بڑی وجہ 1570ء میں کیتھولک پوپ پائس خامس کی جانب سے ایلزبتھ کو گمراہ قرار دے کر دائرہ عیسائیت سے خارج کرنا تھا۔ کیتھولک چرچ کا حصہ ہوتے ہوئے ایک غیر مسیحی ریاست کے ساتھ تجارت کرنا ناممکن تھا لیکن جب ملکہ ایلزبیتھ کو گمراہ قرار دے دیا گیا تو انگلستان کے پاس ترکوں کے ساتھ تجارت اور سفارتی تعلقات کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔
ولیم ہاربرن کی ذمہ داریوں میں انگریز تاجروں کے لیے عثمانی سلطنت میں کاروباری سرگرمیوں کے لیے اجازت کے حصول کے علاوہ عثمانی بحری قزاقوں کی کاروائیوں کے دوران گرفتار ہونے والے انگریز باشندوں کی آزادی بھی تھا۔ اس سلسلے میں ہاربرن نے ترک سلطان کی خدمت میں کئی عرض داشتیں پیش کیں اور بہت سے انگریز غلاموں کو آزادی دلوانے میں کامیاب ہوا۔
ہاربرن کی سفارتی ذمہ داریوں کے دوران لکھے گئے خطوط سولہویں صدی کے آخری سالوں میں انگریز مسافروں کی داستانیں مرتب کرنے والے مشہور مصنف رچرڈ ہیکلیُوٹ (1553ء-1616ء) نے اپنی کتاب میں شائع کیا۔ 1585ء میں لکھا گیا ایک خط الجزائر میں مقیم انگریز قونصل جان ٹپٹون کے نام ہے جس میں ہاربرن اسے نصیحت کرتا ہے کہ 1577ءمیں سویلو نامی بحری جہاز سے گرفتار کیے جانے والے تین انگریزوں کی رہائی کے لیے کوشش کرے۔
اگلے سال ہاربرن ایک اور خط لکھتا ہے جو جان ٹپٹون کے نام نہیں بلکہ آغا حسن کے نام ہے جو کہ الجزائر کے گورنر کا قریبی ساتھی اور خزانچی ہے۔ آغا حسن دراصل برسٹل سے تعلق رکھنے والا سیمسن راؤلی ہے جو کہ بحری قزاقی کے نتیجے میں ایک غلام بن کر الجزائر پہنچا۔ راؤلی نے الجزائر میں اسلام قبول کیا، آختہ کیا گیا اور 9سال کے مختصر عرصے میں الجزائر میں اہم حکومتی منصب پر فائز ہو گیا۔ خواجہ سرا ہونے کا مطلب یہ بھی تھا کہ اس کی بادشاہ کے حرم تک رسائی تھی۔
ہاربرن جو کہ انگلستان میں خود بھی راؤلی یا آغا حسن کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا نے اسے براہ راست خط لکھتے ہوئے یہ سوچا ہو گا کہ اگرچہ راؤلی نے اپنا دین اور جنس تبدیل کر لی ہے لیکن وہ کسی صورت اپنی ابتدائی شناخت سے جان نہیں چھڑا سکتا اور اگرچہ اس کا انگلستان جانے کا کوئی ارادہ نہ ہو مگر دوسرے انگریز جو الجزائر میں غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے وہ ان کی آزادی کے لیے یقینا کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہو گا۔
اس ساری کہانی سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سولہویں اور سترہویں صدی میں اسلام اور انگلستان کے تعلقات میں طاقت کا توازن مسلمانوں کے حق میں تھا۔ عثمانی،صفوی اور مغل سلطنتوں میں جو انگریز اور یورپی تاجر، سیاح اور سفرا آئے، اگر ہم ان کی تحریروں کا جائزہ لیں تو مسلمان سلطنتوں کی شان وشوکت اور سطوت وعظمت دیکھ کر وہ انگشت بدنداں رہ جاتے تھے اور خاص طرح کا احساس کمتری ان کی تحریروں سے عیاں ہے۔ لیکن چند سو سالوں میں طاقت کا یہ توازن درہم برہم ہوگیا اور انگریز ایشیا اور افریقہ کے ایک بڑے حصے پر استعمار کی صورت میں حکمران بن گئے۔