جب کار حکومت چلانے میں پے درپے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو ہر طرف شورشوں نے سر اٹھایا۔ طوائف الملوکی اس حد تک بڑھی کہ فیض الدولہ اور قمر الدولہ زیروپت کے مقام پر لشکروں سمیت لڑ پڑے۔ اس لڑائی میں سپاہ نسل پنجم کام آئی اور یوں ہرزہ سرائی و دشنام طرازی کے ایک زریں باب کا خاتمہ ہوا۔
راوی لکھتا ہے کہ جس رات زیروپت کے میدان میں دونوں اطراف سے لشکر کشی کی گئی تو وہاں ایک عجیب سماں تھا۔ تا حد نگاہ ایستادہ سپاہ کے خیموں میں سے چھن چھن کر موبائل فونوں کی روشنیاں باہر آ رہیں تھیں۔ ٹرینڈز’ ہیش ٹیگز اور وی لاگز کے کشتوں کے پشتے لگا دیئے گئے تھے۔ کئی آئی ڈیز بس اسی رات ابھریں اور دم توڑ گئیں۔ یہ اس جنگ سرعت اقتدار کے گمنام سپاہی تھے۔ رات کے پچھلے پہر یکایک مارگلہ کی پہاڑیوں کے بیچوں بیچ قطب دوراں آغا گلوریا مقبول جینز نمودار ہوئے۔ ان کے دائیں بائیں روشنیوں کے ہالے ہی ہالے تھے جن میں کراچی سے خیبر تک پھیلے ہوئے روحانی نیٹ ورک کے سارے سجادہ نشین سر جھکائے مراقبے میں مشغول تھے۔ آغائے گلوریا نے کچھ دیر سامنے میدان میں خیمہ زن لشکروں کی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں موندھ لیں۔ سب دم سادھے کھڑے تھے۔ آغا حالت استغراق سے حالت التفات کی طرف آئے تو کچھ دیر توقف کیا اور پھر بولے کہ مجھے تو سب کچھ بھسم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سب یہاں سے کوچ کریں اور پڑوس میں جو خراسانی جھنڈے بلند ہوئے ہیں اس کی حفاظت اب ہماری ذمہ داری ہے۔ ان کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ مجوزہ ریاست مدینہ کے گرد جو روحانی تحفظ کا ہالہ تھا وہ یکدم سرک گیا۔ روشنی ختم اور ظلمتوں کا دور شروع ۔۔۔ ہائے ہائے!
آئے روز کی اس خفت سے تنگ آکر سلطان بھنگ نیازیم نے ملکہ عالیہ سے استخارے کی استدعا کردی۔ ملکہ پورے ساڑھے گیارہ منٹ مراقبے میں رہنے کے بعد عالم رویا سے عالم حقیقی میں واپس آئیں تو آنکھوں میں خون ہی خون تھا۔ گویا ہوئیں کہ تیاگ کا وقت آن پہنچا ہے۔
فضول الدولہ سلطان نیازیم نے ملکہ عالیہ کے مشورے پر عملدرآمد کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ کوڑے دان کی تاریخ میں لکھا ہے کہ 16 اکتوبر عیسوی سنہ 2021 کو سلطان نے پٹرول چھڑک کر پوری قوم کو آگ لگا کر فنا کر دیا۔یہ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی بلی تھی جو ایک سلطان نے اپنی ملکہ کے لئے چڑھائی!