1986 تا 1995 کے آٹھ نو برسوں کے دوران ڈاکٹر برہان صاحب کے قدموں میں بیٹھنے اور ان کی باتیں سننے کہ سینکڑوں موقعے آئے۔ اس دوران کسی روز خیال آیا کہ اس نادر روزگار شخصیت کی آواز اور باتیں ریکارڈ کی جانی چاہییں۔ ان کے سامنے کئ دفعہ اس کا اظہار کیا عام طور پر وہ مان جاتے۔ لیکن اکثر ایسا ہوا کہ ٹیپ ریکاڈر دیکھتے ہی کہتے کہ
“اچھا اس دفعہ نہیں آئندہ کبھی ریکارڈ کرلینا”
میرے پاس خاموشی کے سوا چارہ نہ ہوتا۔ ہفتے عشرے میں ایک آدھ بار ان کے گھر جانا ہوتا رہتا تھا۔ ان کے گھر والی یہ نشت ادارہ ثقافت اسلامیہ والی کم و بیش روز کی ان ملاقاتوں کے علاوہ ہوتی تھی جہاں برہان صاحب اکثر و بیشتر تشریف لایا کرتے تھے۔
ایک روز شام کو اسی طرح ان سے طے کئے بغیر اچانک ان کے گھر واقع صلاح الدین اسٹریٹ، چوبرجی جا پہنچا۔ دل میں سوچا کہ جیبی ریکارڈر ان کے سامنے شروع میں نہ لاؤں گا۔ جب وہ لہر میں آجائیں گے تو خاموشی سے سے ریکارڈ کرنا شروع کر دوں گا۔ مگر میں چھپانے میں ناکام رہا۔ جیسے ہی ٹیپ پر ان کی نظر پڑی خاموش سے ہوگئے بولے کہ
“میں کسی وقت کوئی مضامین آپ کو ریکارڈ کروا دوں گا اس وقت اسے چھوڑ دیں”!
عرض کیا “ڈاکٹر صاحب آج میں نے آپ سے کوئی علمی باتیں نہیں کرنی صرف آپ کی ذاتی زندگی کے بارے میں جاننا اور اسے محفوظ کرنا چاہوں گا”۔ محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب کے لیے یہ مرحلہ خاصا مشکل ہے۔ شخصی باتیں تو گویا ان کے پاس تھی ہی نہیں۔ بولتے بولتے دو چار منٹ کے بعد پھر اپنے مخصوص ” علم بالوحی اور انسانی علم کے امتیازات” اور اس کے متعلقہ مسائل پر آجاتے۔ میں ٹوکتا کہ
“نہیں ڈاکٹر صاحب آج تو صرف آپ کی شخصی زندگی کی باتیں ہوں گی”۔
یوں کوشش کرکے ڈاکٹر برہان کی شخصی زندگی پر بہت سی باتیں ان کی اپنی زبانی ریکارڈ کرلیں۔ 1992 کی دو مختلف نشستوں کی دو اڑھائی گھنٹے کی گفتگو میں سے یہ حصہ جو شعر و ادب سے ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی کے بارے میں ہے آج ڈاکٹر صاحب سے محبت کرنے والوں کے لیے پیش ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت، طرزِ گفتگو اور ان کے نظریہ شعر و ادب کے بارے میں ایک مختصر سا نوٹ میں دو تین سال پہلے بھی لکھا تھا۔ موقعے کی مناسبت سے اس میں سے کا ایک اقتباس مکرر پیش ہے:
“ان کی باتیں گو سمجھ میں کم آتیں مگر ان کے پاس بیٹھنے والا انکے انداز و اطوار کی سادگی اور بچوں کی سی ہنسی اور قہقہوں سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہتا. اسپر انکا شعری ذوق جو انکے لطافت مزاج کا پتا دیتا تھا انہیں اردو فارسی کے سیکڑوں اشعار یاد تھے. کہا کرتے تھے کہ جب میں نے مجدد الف ثانی پر کام شروع کیا تو حافظے میں شعروں کی جگہ مکتوبات کے اقتباسات جگہ پانے لگے اور میں مکتوبات کا حافظ ہوتا گیا. پھر وہ بڑے مزے میں خواجہ باقی باللہ اور مجدد صاحب کے طویل اقتباس سنانے لگتے.
تمام اصلاح پسندوں کی طرح انکا بھی یہ خیال تھا کہ ہماری شاعری ہمارے دور زوال کی پیداوار ہے جسمیں زوال کہ اذیت کو لذت کوشی سے قابل برداشت بنانے کی کوشش کی گئ ہے.غالب کا شعر
نیند اُس کی ہے، دماغ اُس کا ہے، راتیں اُس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
سناکر کہا کرتے اس شعر کا محبوب تو کوئ بازاری محبوب لگتا ہے جسکی زلفیں ہر ایک کیلیے دستیاب تھیں. اور اسکے ساتھ ہی بچوں کا سا قلقاری نما قہقہہ بلند ہوتا. کچھ ایسی ہی بات فیض کے اس مصرعے پر بھی کہتے تھے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے.
برہان صاحب کو میر بہت پسند تھا میر کے شعر
دور بیٹھا غبار میرؔ اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
کو وہ تصور عشق کی معراج بتایا کرتے تھے. ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب نے میر کے اس شعر کی روشنی میں عشق اور ہوس کے اشتراکات اور امتیاز پر ایسی بات کہی جسنے ذہن کے بہت سے جالے صاف کر دیے.
کہا کہ عشق اور ہوس میں بہت سی باتیں مشترک ہیں مگر صرف ایک بات مختلف ہے وہ ہے محبوب کا احترام جو ہوس میں حرام ہے مگر عشق کی معراج ہے. اور پھر لہک کر پڑھتے
دور بیٹھا غبار میر…. الخ”
,مذکورہ بالا اقتباس میں ڈاکٹر صاحب کے تصور شعر و ادب کے بارے میں جو بات کی گئی ہے وہ گفتگو کے اسی حصے میں ہے جو احباب آج سنیں گے!
(1992 کی ریکاڈڈ کیسٹ کی آواز آج پھر سے جو سنی تو خاصی بدلی بدلی محسوس ہوئی، اپنی آواز بھی نہیں پہچانی جا رہی)
دعا ہے کہ اللہ تعالی علم و انکسار کی مٹی میں گندھے ہوئے ڈاکٹر برہان صاحب جیسے درویش منش کو ہمیشہ اپنے قرب میں رکھے۔