ایک انتہائی سیلف سرونگ تقریر سے کیا ہوگا؟؟؟ صرف اس بات کا اظہار ہے کہ میاں صاحب الطاف حسین کی طرح پاکستان میں اپنے سیاسی مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اس لئے ہرچہ ہرچہ باداباد کے مصداق انقلابی جھنڈا بلند کردیا ۔ لیکن یاد رہے اگر کامیاب ہو گئے تو پھر وہی دن اور راتیں ہوں گی۔
جو کل تک آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے لئے ووٹ دے رہا تھا اور اپنے نمائندے اسکے پاس بھیج رہا تھا آج چی گویرا بننے کی کوشش کررہا ہے۔ میاں صاحب کی پوری تاریخ ہے (وہ ہمیشہ ڈیل ہی کرتے ہیں)۔
بدقسمتی سے اس تقریر نے اس نااہل وزیراعظم کو نئی زندگی دے دی ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ چاہے بھی تو اسے عارضی طور پر ditch نہیں کرسکتی۔
پنجاب میں واقعتاً جنرلوں کی سیاست میں معاملات سے نفرے احساسات پھیلنے لگے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان واقعتاً بدل رہاہے۔اور پاکستان میں فوج کو اسکے مقام اصلی پر بھیجنے کا عمل شروع ہو گیا۔
لیکن پنجاب کے سیاسی خانوادے صرف پاور پولیٹکس کرتے ہیں اسکے لئے عموماً اقتدار سے قریب ہی رہنا پسند کرتے ہیں اور ان سے انقلابی طرز عمل کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ میاں صاحب بھی چی گویرا لندن کے محفوظ بنکر میں جمع ہونے کے بعد بنے ہیں۔ ورنہ انکے دل کے دورے اور پلیٹلیٹس کی دُہائیاں مریخ تک جارہی تھیں۔
زیادہ امکان یہ بھی ہے دو چار دن میں شاید کچھ لوگوں کے “سافٹوئیر اپ ڈیٹ “ہو کران تقاریر کے ساتھ لاتعلقی کا اظہار کریں۔۔ ممکن ہے کہ ۱۱ جماعتوں کے اس اتحاد میں پھوٹ پڑ سکتی ہے کہ کچھ لوگ میاں صاحب کی اس پوزیشن کے ساتھ کھڑا نہ ہونا پسند کریں۔
ممکن ہے کہ میاں صاحب کی اس تقریر سے پی ڈی ایم میں دراڑوں کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ جس کی قیادت مولانا فضل الرحمن کو دیکر بھی آخر میں میاں صاحب اپنا کھیل کھیل گئے۔ میاں صاحب کی تقریر کے بعد خالی ہونے والے اسٹیڈیم نے مولانا فضل الرحمن کو پیغام تو دیا ہوگا کہ ۔۔ بارات کا دولہا کوئی اور ہے۔۔۔ سھرا پہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ پیا وہی جسکا نکاح پڑہایا جائے۔۔۔
آج کراچی میں ہونے والا جلسہ جس میں میزبان پیپلز پارٹئ ہوگی، جبکہ کراچی اور اہل کراچی سے پیپلزپارٹی کا اینٹ و کتّے کا رشتہ ہے۔ اس کا مطلب یہ کے کہ اس جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے پیپلز پارٹی کو باہر سے حاضرین امپورٹ کرنے پڑیں گے یا مولانا کے مدارس سے “تیکنکی امداد “ حاصل کرنی ہو گی ۔ عام شھری تو لاتعلق ہی ہوگا۔اگر باہر سے لاکر اور مدارس کی “فنّی امداد” کے ذریعے نمبر بناکر جلسہ گاہ بھر بھی لی تو ایسا جلسہ جس سے مقامی شھریوں کو دلچسپی نہ ہو سے کیا فائیدہ ہو گا؟؟؟
نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنوں میں جنرل ظہیر الاسلام کے بارے میں ہشکارنے کا الزام لگایا گیا، بلکہ کسی نے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اسوقت حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کررہا تھا۔ ویسے دلچسپ بات ہے کہ اس کہانی میں جنرل ظہیر کی انٹری نئی ہے ورنہ اس سے پہلے سارا ملبہ جنرل پاشا پر ہی گرتا تھا۔
لیکن اس کہانی کے خالقین یہ بھول جاتے ہیں کہ ڈی جی آیس آئی کے کاندھے پر تین ستارے تو ہوتے ہیں لیکن اس کے زیر کمان کور تو کیا ایک بریگیڈ بھی نہیں ہوتا۔ پھر وہ کس طرح coup کرسکتا تھا۔
یاد رہے جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کے بعد اسکی عزت سادات بھی گئی تھی، باجوہ کی ایکسٹینشن پر فوج کے جرنیلوں میں (جو خود اس عہدے کے اُمیدوار تھے) سرسراہٹ کی افواہیں تھیں۔
آخری امکان یہ بھی ہے کہ یہ پوری کہانی جرنیلوں کا گروپ باجوہ اینڈ کمپنی سے جلد جان چھُڑانے کے لئے اپوزیشن کو ہشکار کر سامنے لارہا ہے لیکن۔۔ فوجی جنرل ہو یا کپتان اوّل و آخر فوجی ہی ہوتا ہے، وہ پیچھے سے آنکھ مار سکتا ہے لیکن اپنی کمان کے خلاف کھلے بندوں کھڑا نہیں ہوسکتا۔
پاکستانی افواج انتہائی ڈسپلن فوج ہے اس میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن کمان کے خلاف بغاوت بڑی حدتک ناقابل تصور ہے۔
جیسا بھی ہو، اب وقت آگیا ہے کہ شائد ملک و قوم کو اپنی ترجیحات کا یکسر نو تعین کرنا پڑے گا۔ سولین حکمرانی کا راگ بڑا دل خوش کن تو ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں سولین حکمرانی کا مطلب بھی اشرافیہ راج ہوتا ہے جو عوام کے گردنوں پر پیر تسمہ پا کی طرح مسلط ہوتے ہیں۔
جہاں تک عوام کا مسئلہ ہے انہیں صدارتی پارلیمانی و مارشل لا سے کوئی بھی مطلب نہیں ہے ، انہیں ایسے حکمران چاہیں جو انکی زندگیوں میں آسانیاں لا سکے۔
اس ملک کی مختصر تاریخ میں جمھوری و فوجی حکمرانی دونوں تجربات ہی ناکام رہے ہیں۔ ویسے کہنے کو تو یقیناً نواز شریف ہو یا زرادری سب نے کچھ نہ کچھ کام کیے ہوں گے۔ اسی طرح کچھ نہ کچھ کارنامے مشرف، ضیاء و ایوب کے بھی ہوں گے۔
ہمیں بطور قوم اپنے حکمران طبقوں کی اخلاقیات کا تعین کرنا ہوگا۔
دنیا میں شاز ہوتا ہے کہ کوئی سڑک سے اُٹھ کر حکمران بن جائے، وہ بھی کسی نہ کسی درجے میں اشرافیہ ہی سے آتے ہیں۔
لیکن انکے code of conduct کو قانونی ہی نہیں اخلاقی چیک بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ہیں قانون کو لپ سروس دیتے ضرور ہیں عمل ہوتا نہیں ہے۔ پہلے تو کسی جُرم کی تحقیق کے لئے اختیار بھی سرکاری اداروں کا ہے جو کہ مکمل طورپر مقتدرہ کے غلام اور خادم ہیں۔ پھر عدالتیں ڈرائی کلیننگ فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ اسکی بڑی وجہ کمزور پراسیکیوشن اور تحقیق کا نظام بھی ہے۔
اس صورتحال میں کونسا چیک اور بلینس باقی بچا؟؟؟ جب تک معاشرے میں چیک اور بیلنس بحال نہیں ہوگا یہاں جنگل یا جنرل کا قانون ہی چلے گا۔
اللہ پاک ہمارے وطن پر رحم فرمائے۔