پراپرٹی ایجنٹ یا رشتوں کا میچ میکر دونوں کا ایک ہی کام ہے جتنی جلد ہو ڈیل مکمل کر کے اپنا کمیشن کھرا کرنا بعد میں جو بھی ہو گا خریدار یا بیچنے والا بھگتے گا۔یقیناً رشتے یا پراپرٹی ڈیل میں کوئی رُکاوٹ کام خراب کرے گی۔ بروکر کو کمیشن نہیں ملے گا۔
دوسری طرف اگر بیچنے والے کے پاس اچھی کوالٹی کا مال ہے تو اچھے گاہک ہی کو اچھی قیمت پر بیچے گا لیکن اگر اسے اپنے مال کی کوالٹی پر شک ہو یا زائد المعیاد ہونے کا خدشہ ہو اسکی کوشش بھی جتنی جلدی ڈیل مکمل کر کے اطمینان کا سانس لینا ہوتا ہے۔
حقیقی دوکاندار یا خریدار جسے اپنے مال کی کوالٹی پر اعتماد ہو کی کوشش جلدی میں سودا مکمل کرنے کی بجائے بہتر سے بہتر معاملہ کرنے کی ہوتی ہے چاہے اس میں ایک دو سودے بگڑ بھی جائیں۔۔
آجکل لوگ رشتہ طے ہونے کے بعد کسی ممکنہ رُکاوٹ کے ڈر سے جلد از جلد بوجھ سر سے اُتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پچیوں کو بوجھ نہ سمجھیں، انہیں پیار دیں اعتماد دیں انہیں اپنی استطاعت کی حدتک اعلی ترین تعلیم دلوائیں اور ساتھ میں اخلاقی اقدار کا شعور دینے کی پوری کوشش کریں۔
اس فقیر نے بچّیوں پر تعلیم کے علاوہ سوائے شادیوں کے پوری زندگی کوئی بڑا خرچہ نہیں کیا۔ میری زندگی کا سب بڑا کام ایک تو جتنا فارغ وقت تھا ان پر خرچ کیا دوسرے گھر میں گفتگو کا ایک ایسا کھُلا ڈالا ماحول رکھا جہاں بچّے بغیر ڈر وجھجھک کے ساتھ بات کرسکتے تھے۔
اس بلا جھجھک بات کرنے میں بچّوں کے ساتھ مباحثوں نے ان میں ہمارے اخلاقی معیار کا بھی شعور دیا۔ اسی وجہ سے ان سے شادیوں کے معاملے میں بات کرنا آسان بھی رہا پھر وہ میرا اثاثہ بن گئیں۔ شادی بھی استطاعت کے باوجود گھر میں جہیز کا نظام ختم کرنے کا اعلان کیا۔۔ اسکے بعد بیٹیوں کی شادی باہمی مرضی اور اپنی شرائط پر عزت سے کی۔ سسرال میں شوہروں نے انہیں پلکوں پر بٹھایا۔۔ شوہروں نے جو پیار دیا ۔۔ اب تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں جب ہماری بہو آئی تب ہم نے اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جب بیٹیوں کے لئے جہیز ختم کیا تو بہو کے لئے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ مشکل تو آئی لیکن وہ بھی مان ہی گئے۔ بہو کے ساتھ وہی رویہ رکھا جو ہمارے داماد ہماری بیٹیوں کے ساتھ رکھتے ہیں۔ آج الحمدللّٰہ بہو ہو یا بیٹی سب ہی خوش ہیں۔
سبق صرف اتنا ہے کہ بچیوں کو بوجھ نہ بنائیں اعلی ترین تعلیم دیں۔ ان کی اخلاقی و کردار کی تربیت کریں۔ بروقت رشتے تلاش کریں۔۔ وقت پر رشتے تلاش کرنے سے آپکے پاس اچھی طرح چھان پھٹک کر انکار کرنے کا موقع ہوگا۔ تاخیر کی وجہ سے گھبراہٹ میں غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر بچیوں کو تعلیم و شعور دیا ہے تو انکی رائے کا بھی احترام کریں ان پر اعتماد کریں۔آپکے تربیت ان سے غلط کام نہیں کرائے گی ان شاء اللہ۔
بس ایسا بھی نہ ہو کہ انہیں بہت زیادہ پھسلواں زمین پر لڑہکنے کے لئے تنہا چھوڑ دیں۔یہ معاملات اعتماد اور احتیاط کے درمیان ہی اچھّے لگتے ہیں۔ غلطی ہم سے بھی ہو سکتی ہے اور ان سے بھی مل جُل کر فیصلہ کریں تو غلطی کا امکان کم سے کم ہوگا۔ پھر بھی اگر خدانخواستہ کوئی فیصلہ غلط نکل آئے تو آپ کو یہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ اس غلطی میں آپ تنہا نہیں تھے۔تمام تر کوششوں کے باوجود نصیب سے لڑنا ممکن نہیں ہوتا ۔بدترین حالات کے مقابلے کے لئے اونٹ کی رسّی باندھنے کے لئے بچیوں کو اعلی ترین تعلیم اور پروفیشنل کیرئیر کے لئے حوصلہ افزائی کریں ۔تاکہ اگر کبھی ضرورت پیش آئے تو خود کو سنبھال بھی سکیں۔
لڑکیوں کی ملازمتوں کے بارے میں ایک اور بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ۔ شادی کے تصورات مختلف socio economic بیک گراؤنڈ کے مطابق ہوتے ہیں۔
عموماً اوسط درجہ کے گھرانے سلیقہ مند ، امور خانہ داری کی ماہر لڑکیاں جو درحقیقت گھر کے کام کو سنبھال سکیں اور بڑی حد تک اپنی ساس اور نندوں کے گھر کے کام کے دباؤکو کم یا ختم کرسکیں لانا چاہتے ہیں جبکہ تعلیم یافتہ پروفیشنل نوجوان جو کہ نسبتا بہتر کیرئیر کے راستے میں ہیں وہ بیوی کو نرا ہاؤس کیپر اور بچّوں کی آیا سے زیادہ دوست و پارٹنر کے طور پر چاہتے ہیں۔ انکے لئے امور خانہ داری کی مہارت اہمیت نہیں رکھتی لیکن میاں بیوی کی ذہنی و جذباتی ہم آہنگی زیادہ اہم ہے۔
اس لئے پروفیشنل لڑکا کسی ایسی لڑکی جو تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ پروفیشنل دنیا کو سمجھتی ہو تاکہ وہ اپنی چیزیں اپنے مسائل اسکے ساتھ باآسانی شیئر کرسکے کے ساتھ زیادہ آسانی محسوس کرتا ہے۔ آج کی مخلوط سوسائیٹی میں میاں بیوی کی ذہنی ہم آہنگی انتہائی اہم ہے، ورنہ شوہر کے بہکنے کے امکانات قوی ہوتے ہیں۔ آفس رومانس کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ آپ اپنی پروفیشنل معاملات بیوی سے شیئر نہیں کرسکتے نتیجہ آفس کوئی “ہمدرد” خاتون جو کام و دفتر کے معاملات کو سمجھتی اور مشورے بھی دے سکتی ہو آہستہ آہستہ دل میں جگہ گھیرنے لگتی ہے۔
کسی مصیبت کی صورت میں والدین تو ساتھ دیتے ہی ہیں لیکن انہوں نے کون سا ہمیشہ رہنا ہے اور وہ بھی عموماً اس وقت اپنی زندگی کا productive اور قابل آمدنی وقت گذار کر بڑی حدتک بچّوں (بیٹوں) کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ عموماً بیٹے اور بہو والدین (ساس سُسر) کو سنبھالنے کو خوش دلی یا مجبوری سے قبول کرتے ہی ہیں لیکن کسی مشکل کی صورت میں اگر بہن کو لمبے عرصے تک سنبھالنا پڑ جائے بالخصوص مڈل کلاس فیملی میں تو کم آمدنی نہیں اضافی بوجھ پر بہوئیں یا بھابھیاں ہی زندگی اجیرن کردیتی ہیں۔ زندگی بہت طویل ہے اپنے قدموں پر کھڑے ہونے میں ہی عزت ہوتی ہے۔ بجائے بارش کے دوران مجبوری و لاچارگی کی حالت میں چھتری تلاش کرنے کی بجائےبچّیوں کو بارش کے لئے تیار رکھنا ہی بہتر ہے۔
اللہ ساری بچیوں کے نصیب اچھے کرے۔۔