یقیناً دعا زہرا نے جو کچھ بھی کیا یا اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس کا کسی صورت میں جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا ، اب تک کی عدالتی کاروائیوں اور بعد کے انٹرویوز سے یہ بات واضع ہوتئ ہے۔ چاہے برین واشنگ کہیں یا بچپن کی نادانی لیکن کم از کم اس وقت تک تو وہ اپنے عمل کی پوری ذمہ داری قبول کررہی ہے۔
اس لحاظ سے کم از کم مجرمانہ اغوا کا مقدمہ نہیں بن پایا، اب سارا سوال صرف اتنا رہ گیا ہے اب والدین کے لئے صرف اتنا ہی راستہ رہ گیا ہے اس کی عمر اور عدم بلوغت کے سھارے اس کے مبینہ نکاح کو nil and void یعنی منسوخ قرار دیا جائے۔اس میں بھی سندھ اور پنجاب کے قوانین کے فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکنہ فیصلہ کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں ہے۔
اگر بادی النظر شواہد کی روشنی میں یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی تھی، تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسے عوامل تھے جن کی وجہ سے بچّی نے اتنا انتہائی قدم اُٹھانے کا حوصلہ کرسکی ۔ا نسانی نفسیات بڑی ہی پیچیدہ چیز ہوتی ہے۔
یقیناً بچّی کو تیسری جماعت سے اسکول سے اُٹھا لینا بذات خود غیرمعمولی حالات کا اشارہ ہے، وہاں پر اور نہ جانے کون کون سے استخوان چھُپے ہوں گے اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
کسی 14 کہو یا 18 سالہ لڑکی کے لیے اپنے گھر سے ہزار کلو میٹر سے زائد سفر کرکے اجنبی شھر میں جانا مذاق نہیں ہے۔ممکن ہے۔۔۔
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
اس کے باوجود میرا تجربہ و مشائدہ یہ ہےُکہ انسانی دماغ اتنا پیچیدہ ہوتا ہےُکہ اس کسی بھی غیر معمولی حرکت کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
میرے ایک دوست جن کا تعلق تھوڑا سا اپر مڈل کلاس سیمی کنزرویٹو گھرانے سے ہے جہاں نہ تو بہت زیادہ سختی کہ بچّوں کو مکمل بند کردیا جائے اور نہ ہی اتنی نرمی کہ بچّے مکمل طور پر مغربیت میں ملوث ہوجائیں ۔ دوسری طرف والدین اور بچّوں میں تعلق بھی بڑی حدتک دوستانہ تھا۔ بلکہ بچّوں اور بچّیوں کو واضع طور پر اجازت تھی کہ وہ کسی بھی لڑکی یا لڑکے کو پسند کریں اگر وہ 60 فیصد بھی گھر والوں کے معیار پر پورے اتریں گے تو رد نہیں کیا جائے گا۔
چونکہ ان کے ہاں بچّوں کی شادیاں باہمی رضامندی کے ساتھ ہی ہوتی ہیں اس لحاظ سے بچّوں کو بھی کسی پسند یا ناپسند کی صورت میں خود ہی اپنے والد صاحب سے گفتگو کرکے معاملہ حل کرنا آسان لگتا ہے اگر والدین و بچّوں کے موقف میں اختلاف بھی ہو تو ضد و انا کی بجائے دونوں فریق دلائل کے ذریعے ایک دوسرے کو قائل کرتے ہیں اور کسی انتہائی اقدام کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
یہ بھی پڑھئے:
پاکستان کا وہ شہر جو کبھی لٹل پیرس کہلاتا تھا
دھرنے اور لانگ مارچ کامیاب بنانے والے چند جادو گر
اس کے باوجود ان کے گھر کی ایک بچّی کو کسی وجہ سے ماہر نفسیات سے چند سیشن کرانے کی ضرورت پیش آئی تو اس کی رپورٹ میں چونکانے والی بات یہ تھی کہ اس بچّی نے یہ بتایا کہ کبھی کبھی اس کا گھر چھوڑ کر بھاگ جانے کو جی چاہتا ہے۔
حالانکہ اسوقت نہ تو اس کا کسی جنس مخالف سے افیئر اور کوئی ایسامعاملہ تھا، گھر کا ماحول بھی خاصا خوشگوار ہی رہتا تھا سوائے تعلیمی دباؤ کے کوئی ایسا ذہنی دباؤ بھی نہیں پھر بھی وہ ڈپریشن کی ایک کیفیت کا شکار تھی، وہ تو والدین اور بچّوں کے تعلقات اتنے مضبوط تھے کہ وہ ان خیالات کو جھٹکنے کے قابل ہوگئی۔
دعا کے معاملے میں یقیناً کچھ نہ کچھ ایسا ہوا ہے جس نے اس کے والدین کے درمیان رشتے کو اتنا کمزور کردیا کہ وہ یہ انتہائی اقدام اُٹھانے کی ہمت کرسکی ۔
یہ تمام والدین کے لئے ایک سبق ہے۔ بچّوں کے درمیان رعب و داب والے تعلقات کا زمانہ گذرچُکا۔ اب آپکو بچوں کی زندگی میں جھانکنے کے لیے درمیان کی احترام و جھجک کی دیوار گرانی ہوگی۔
تاکہ وہ اپنے دل کی بات کھلے دل سے کر سکیں۔ اگر ان کی بات ناگوار بھی گذرے تو سختی سے انکار کی بجائے اسے نرمی سمجھائیں۔۔ اور ایک بار نہیں بارہا سمجھاتے رہیں چہ جائیکہ یا تو وہ آپکو قائل کردیں ورنہ وہ آپ کی بات سمجھ جائیں۔
ایسا بھی ہوا ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ بچّے غلطی کررہے ہیں، لیکن معاملے کو ہمدردانہ نظر سے بے جاضد سے بچتے ہوئے ٹھنڈے دل سے ان کے سامنے اپنا موقف دلیل کے ساتھ پیش کریں اور ان کی جوابی دلیلوں کے لئے دل و دماغ کھول کر رکھیں تو اُمید ہے رفتہ رفتہ دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے کو قائل کرنے میں کامیاب ہو ہی جائیں گا۔
جب تک وہ آپ سے بلا خوف و جھجک بات کرسکتے ہوں گے، اسوقت تک وہ انتہائی قدم نہیں اُٹھائیں گے۔اس لئے گفتگو کے راستے کسی بھی صورت میں بھی بند نہیں کئے جائیں ۔
دعا کے والدین کے لئے بھی یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ جیسا بھی ہے دونوں بچّے نوجوان ہیں ضروری نہیں کہ یہ فیصلہ درست ثابت ہو۔ لیکن بچّی کے اس اقدام کے بعد بڑی حدتک کشتیاں جل چُکی ہیں، اس وقت ناگواری کے باوجود اس فیصلے کو بچّوں کے حق میں خیر بنانے کی دعا کے ساتھ بھرپور مدد بھی کریں کہ اگر یہ نکاح فسق کرانے کے بعد اگر بچّی واپس آبھی گئی اس کی دوبارہ شادی کرنا ایک مشکل امر ہوگا۔
اس وقت بچی کے مفاد کا تقاضہ یہی ہے اگر وہ لڑکا مناسب طور پر بھی مخلص ہے تو اس رشتے کو مستحکم کرنے کے لئے بھرپور مدد و تعاون کرکے بچی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جائے۔
لیکن اولاد سے کوئی بھی غلطی ہو لیکن ان کی فکردل میں رہے گی ہی، اس لئے اگر خدانخواستہ واقعئ بدترین خدشات درست ثابت ہوں اس صورت میں بھی پس منظر میں رہتے ہوئے اس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے رابطے و دروازے کھلے رکھنا ہی بہتر ہے ۔
اللہ پاک تمام والدین کو اس قسم کے امتحان سے محفوظ رکھے۔ آمین