دنیا کی کون سی ریاست ہے جس کا وزیراعظم واشگاف عوام کی بنیادی ضرورت کی فراہمی سے کواپنی ذمہ داری سمجھنے سے انکار کرتا ہے اور پھر بھی ریاست مدینہ کی تشکیل کا دعوی کرتا ہے؟
وہ ریاست مدینہ جس کے تاجدار رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابی نے بھوک کی شکایت کرتے ہوئے اپنے پیٹ پر بندھا ہوا پتھر دکھایا اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کپڑا ہٹا کر اپنا پیٹ دکھایا جہا دوپتھر بندہے ہوئے تھے۔ وہ ریاست مدینہ جس کے والی حضرت عمر فاروق صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کُتّا بھی بھوک سے نر گیا تو اس کی ذمہ داری عمر رض پر ہوگی ۔
جب اس نام نہاد ریاست مدینہ کے وزیراعظم یہ فرماتے ہیں کہ میں آلو ٹماٹر کی قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے وزیراعظم نہیں بنا تو وہ بڑی حدتک عام آدمی کی حالت زار کو بہتر بنانے کی ذمہ داری سے ہاتھ اُٹھانے کا اعلان کر چُکے ہیں۔
یقیناً عام آدمی جذباتی نعروں کا کچھ نہ کچھ اثر قبول کرتا ہے لیکن اس کے لیے اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی، صحت و تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔
یہ عدم اعتماد ناکام ہو یا کامیاب عوام کےلیے دونوں بھان متی کے کنبوں کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہاں حکمران یا چورن فروش ہی بدلتے ہیں لوگ بھوک کے مارے خودکشی بھی کرلیں تب بھی حکمرانوں و اشرافیہ کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینکتی۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
حزب اختلاف کی جانب سے قومئ اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے فورا بعد ہی وزیراعظم عمران خان کے پے درپے کامیاب جلسوں جن کا نقطہ انتہا آج اسلام آباد میں ہونے والا جلسہ ہے کا مقصد بڑی حدتک ایک تو تحریک انصاف کا کارکنان میں گذشتہ تقریباً چار سال کے کارکردگی کے بوجھ تلے پیدا ہونے والے اضمحال کو دور کرکے آئندہ آنے والے مشکل حالات کے لئے نئی روح پھونکنا۔
دوسری طرف اس حکومت کی سرپرست اعلی سمجھی جانے والی اسٹیبلشمنٹ جس نے اس حمایت میں اپنے وقار کو بھی داؤ پر لگادیا بھی گذشتہ چند سالوں کی مایوس کن کارکردگی کی بنا پر اپنے خلاف عوامی ردعمل کی وجہ ان سے فاصلہ کرکے “نیوٹرل” ہونے کا اعلان کر چُکی تھی کو اپنی حمایت جاری رکھنے پر رضامند کرنا ہے۔
اب مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس لنگڑی لولی حکومت کی بقا کی ضامن بھی یہی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے اشارہ ابرو یا بے نامی فون کالوں کے ذریعے الیکٹیبلز واتحادیوں کو ان کی ٹوکری میں اکٹھا کیا۔ان کے نیوٹرل ہوتے ہی وہ سب ٹوکری کے مینڈکوں نے چھلانگ لگانی شروع کردی۔خیر زبردستی یا مفاد پرستی والی شادیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔
اس طرح توہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اس ساری مشقت کا مقصد ایک تو اسٹیبلشمنٹ کو یقین دلانا ہے کہ وہ اب بھی عوامی مقبولیت رکھتے ہیں اور ان کی حمایت کی سرمایہ کاری و سرپرستی کے حقدار بھی (کل تک نیوٹرل کو جانور کہتے کہتے اب “قومی” مفاد میں سرپرستی کی درخواستوں پر آگئے ہیں)۔
دوسرے ٹوکری سے چھلانگ پر تیار مینڈکوں کو اب بھی اپنی عوامی حمایت کا یقین دلانا کہ آیندہ انتخابات میں انتخابی میدان میں جیتنے کی منزل تک پہنچنے کے لئے اسی کشتی میں سفر کرنا بہتر ہے ۔ ویسے اگر واقعی انتخابات کے وقت حکومت یا جماعت اپنی مقبولیت کی معراج پر پہنچ سکے تو ان میں سے زیادہ تر مینڈکوں کی منزل انتخابی میدان کی بجائے چیر پھاڑ کے لئے کسی تعلئمی ادارے کی تجربہ گاہ ہی ہوگی۔
موجودہ صورتحال میں اس جارحانہ مہم و جلسوں کے ذریعے حکمران جماعت نے اپنے حامیوں کو جگا کر پرجوش طریقے سے میدان میں اترنے پر کامیابی تو حاصل کی ہے۔ یقیناً اس کا کچھ نہ کچھ اثر عام آدمی پر بھی ہوگا ۔لیکن کس حد تک ؟
کیا گذشتہ ایک ماہ میں مجموعی طور پر دس پندرہ لاکھ افراد کو جلسہ گاہ میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ PTI کے 2018 حاصل کردہ 16 ملین ووٹر اب بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں؟
یہ سوالات ہنوز جواب طلب ہیں لیکن اس کے ابتدائی جوابات 31 مارچ کو ہونے والے خیبر پختون خواہ کے بلدیاتی انتخابات میں دیکھے جاسکتے ہیں، وہاں سے کامیابی یا ناکامی کے اثرات کا اتحادیوں ، پارٹی کے باغیوں، اور اسٹیبلشمنٹ تینوں بغور جائزہ لیکر PTI و عمران خان سے مستقبل کے تعلقات کا بارے میں فیصلہ کریں گے ۔
حکومتی جماعت کے لئے خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی میں کامیابی کے فوائد تو محدود ہو سکتے ہیں لیکن ناکامی کا نتیجہ PTI کی گرتی ہوتئ مقبولیت کے تصورپر مہر تصدیق ثبت کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ اور ٹوکری کے مینڈک دونوں ہی کو اس ڈوبتی ہوئی ناؤ سے چھلانگ لگانے کے فیصلے کو تقویت ملے گی۔
اس صورتحال میں بجا طور پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ حکمران جماعت نے پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پر اجلاس بُلانے میں تاخیر کرکے غلطی تو نہیں کردی؟
چند روز قبل پارلیمان میں اپوزیشن کے 162میں سے 159 افراد موجود تھے، اب سارا معاملہ حکومتی اتحادیوں اور حکومتی جماعت کے باغی اراکین پر معلق ہے ان میں سے کوئی بھی گروہ باقی 13 ووٹ پورے کرکے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کراسکتا ہے۔
“ناراض” اراکین اسمبلی کا معاملہ کچھ یوں ہے،کہ چونکہ اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے میں تقریبا ایک سال باقی رہ گیا ہے اور حکومت کی عدم مقبولیت کے تاثر کی وجہ سے ان کی “ناراضگی” و حمایت کا تعلق ان کے حلقوں میں موجودہ حکومتی جماعت کے ٹکٹ پر دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات سے بھی ہے۔
اگر وہ سمجھتے کہ اس حکومت کی مقبولیت اس درجے پر ہے کہ اس کے ٹکٹ پر اگلا انتخاب جیتنا آسان ہوگا تو کسی صورت میں “ناراض” ہونے کا خطرہ مول لینے کی بجائے موجودہ تنخواہ پر ہی کام کرنا گوارہ کررہے ہوتے ۔
اس وقت زیادہ تر “ناراض” اراکین متبادل جماعتوں کے ٹکٹ کی یقین دہانی کی بنیاد پر علم بغاوت بلند کیے بیٹھے ہیں ۔ کہ اگلی پانچ سالہ مدت کو یقینی بنانے کے لیے ایک سال کی اسمبلی کی ممبر شپ کی قربانی دینا ان کے لیے سستا سودا ہے۔
لیکن اگر حکومت کے سپریم کورٹ میں دائر کردہ ریفرینس کے نتیجے میں سُپریم کورٹ نے پارٹی کے احکامات کے خلاف ووٹ دینے کی سزا زندگی بھر کی نااہلی کا حُکم دیا تو ان میں سے کوئی بھی زندگی بھر کے لیے اپنے سیاسی کیرئیر سے ہاتھ دہونا قبول نہیں کرے گا۔
موجودہ صورتحال میں جب سپریم کورٹ کی جج صاحبان کے تبصرے بھی متضاد پیغامات دے رہے ہیں اس درخواست کا فیصلہ آنے تک بیشتر “ناراض” اراکین اسمبلی زندگی بھر کی نااہلی کا خطرہ مول لینے کی بجائے تحریک عدم اعتماد میں اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق عمل کرنے میں عافیت سمجھیں گے۔
اس لیے ان کے مفاد کا تقاضہ یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جارحانہ عوامی رابطے کی مہم کے تاثر اور سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے کے بارے میں کہ “ناراض” اراکین اسمبلی کے مخمصہ کا فائدہ اُٹھا کر تحریک عدم اعتماد پر سُپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہی رائے شماری کرا دیتے۔
جہاں تک اتحادیوں کا معاملہ ہے جتنا بھی یہ معاملہ معلق ہو گا وہ سودے بازی کے لیے اتنا ہی وقت لیں گے جلد رائے شماری کے نتیجے میں وہ سودے بازی ختم کرکے فوری فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور حکومت کے پاس انہیں دینے کے لیے اپوزیشن کی بہ نسبت میں بہت کچھ ہے۔
ویسے بھی نو نقد نہ تیرا اُدھار کے مصداق زیادہ امکان یہی ہے کہ ان کی ترجیح حکومت سے ملنے والی نقدی ہی ہو گی بہ نسبت اپوزیشن کی آنے والی ممکنہ حکومت کے وعدوں پر جینے کے، کہ آصف علی زرداری کا مشھور جملہ “وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے” اب تک ذہنوں میں تازہ ہے، دوسرے وعدے پورے کرنے کے بارے میں شریفین کا ٹریک ریکارڈ بھی دھبّوں سے خالی نہیں ہے۔
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک