Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اس وقت ملک میں تحریک عدم اعتماد کا غلغلہ مچا ہوا ہے۔ دوسری طرف گذشتہ چند دنوں سے وزیراعظم عمران خان کے اقدامات بظاہر اس بات کا اظہار کررہے کہ وہ ذہنی طور پر ازخود اسمبلیاں توڑنے کے لئے تیار ہیں یا ان کے خیال میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔
جنگوں میں شکست خوردہ افواج پیچھے ہٹنے سے پہلے عموماً تمام عمارات و تنصیبات تباہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ دشمن کے لیے مشکلات پیدا کی جاسکیں ۔ بظاہر ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ فوج بھی جنگ مغلوبہ لڑتے ہوئے مال و اسباب کی تباہی کا عمل شروع کرچُکی ہے۔
بظاہر وزیراعظم عمران خان نے شکست یا تزویراتی پست قدمی کے طور پر اقتدار سے باہر آنے سے پہلے آئندہ حکومت کے راستے میں بارودی سُرنگیں بچھانے کا کام شروع کردیا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
پہلی بارودی سُرنگ ۔تیل کی قیمتوں میں نہ صرف کمی بلکہ آئندہ تین ماہ تک کے لیے منجمد کرنے کا اعلان ۔
موجودہ صورتحال میں جب بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کےرجحان کے برخلاف اچانک ہی وزیراعظم نے نہ صرف تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا کیا بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ ان قیمتوں کو جون تک برقرار رکھّا جائے گا۔
جب کہ وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 92 ڈالر سے بڑھ کر (تادم تحریر ) 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چُکی ہیں یعنی 40 فیصد اضافہ ہو چُکا ہے، جسے سبسیڈائیز کرنا دینا کی کسی بھی حکومت کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔
بین الاقوامی بینک جے پی مورگن کے اندازے کے مطابق اگر روس و یوکرائن کی یہ صورتحال جاری رہی تو تیل کی قیمتیں 185 ڈالر فی بیرل تک جاسکتی ہے۔اس صورتحال میں موجودہ حکومت ہو یا کوئی اور تیل کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر جون تک منجمد رکھنا ناممکن ہوگا۔اگرحکومت اسمبلی تحلیل نہیں کرتی یا عدم اعتماد سے بچ گئی تو یقیناً وزیراعظم بھی اس پر یوٹرن کی روایت نبھائیں گے۔
صدر رفیق تارڑ کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
چونکہ وزیراعظم کے اسمبلی تحلیل یا حزب اختلاف کی مجوزہ تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں کامیابی کی صورت میں آیندہ آنے والی حکومت پیٹرول کی بین القوامی قیمتوں کی وجہ سے مقامی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں قیمتوں بڑہانے پر مجبور ہوگی اور اس کے سیاسی نتائج بھی بھگتنے پر مجبور ہوگی۔اور اس کے خلاف احتجاج کی قیادت عمران ہی کریں گے۔
یہی وجہ سے کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے پیڑول کی قیمتوں میں کمی یا منجمد کرنے کے اقدام پر اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن حکمران جماعت اور ان کے حامی شوشل میڈیا سیل نے اسے حسب روایت تضحیک کا نشانہ کرکے رد کردیا۔
دوسری بارودی سُرنگ -مجوزہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم
چند دنوں قبل وفاقی کابینہ نے تیسری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظور دی ہے ۔ اس تفصیلات میں جائے بغیر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ،کیا مجوزہ ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم کا مطلب آئی ایم ایف سے کئے ہوئے معاہدوں کو کوڑے دان میں پھینکنا ہے؟
یہ بھی پڑھئے:
وہ ملاقات جس میں صدر تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
عمران خان کس منصوبے پر عمل کر رہے ہیں؟
اے پشاور! آخری کوشش ہے یہ، اسحٰق وردگ کی شاعری پر ایک نظر
یادرہے کہ غالباُ سعودی عرب سے بھی وصول شدہ ڈالروں کے بارے میں شنید ہے کہ معاہدے میں شامل ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں ڈیفالٹ کی صورت میں سعودی عرب کو 48 گھنٹوں میں ساری رقوم واپس کرنی پڑے گی ورنہ ہو حکومت پاکستان کے بیرون ملک رہن شدہ اثاثے ضبط کرنے کا مجاز ہوگا۔
اس سوال پر سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ٹیکس ایمنسٹی کی اسکیم کے IMF یا سعودی عرب سے دستخط کردہ معاہدے پر کیا اثرات ہوں گے؟
تیسری بارودی سُرنگ ۔ یورپی یونین کو للکارنا
آج وزیراعظم نے میلسی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے چند باتیں کیں۔ ان میں زیادہ تر ملکی سیاست و سیاستدانوں کے بارے میں ان کی زبان و بیان نہ تو نئی چیز ہے اور نہ ہی ان کے کوئی دورس اثرات رونما ہونے کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
لیکن دوسری طرف انہوں نے امریکہ و یوروپین یونین کے بارے میں (بالخصوص یورپین یونین کے روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے کے مطالبے ) جس قسم کی زبان استعمال کی وہ مجھ سمیت ہم سب کے دل سے قریب تھی اور یقیناً انتہائی مقبول ہوگی کہ عوام خارجہ کے لیے تعلقات کی بارکیوں کی بہ نسبتا مولاجٹ کی بڑکیں زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پر بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں، یہاں پر میگافون ڈپلومیسی نہیں چلتی، وزیراعظم ہوں یا حکومتی عمال حساس ملکی و بین القوامی معاملات میں شدید اشتعال کے عالم میں بھی ان سے محتاظ زبان کا استعمال ان کے عہدے کا تقاضہ ہے۔
اس تقریر سے ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے آخری دنوں میں کی جانے والی وہ تقریر یاد آگئی۔اگر میری یادداشت غلط نہیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے دو تقاریر کی تھیں ایک قومی اسمبلی جس میں انہوں نے امریکہ پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگایا تھا، اور دوسری راولپنڈی کے راجہ بازار میں۔
واضح رہے کہ اس حکمران و حکومت کو ناپسند کرنے کے باوجود میں ان کے دورہ روس اور اس سلسلے میں موجودہ پوزیشن کا حامی ہوں۔ ایک لحاظ سے پاکستان نے سرد جنگ کی برعکس جب روس کے خلاف مغربی بلاک کے ساتھ شامل ہوئے اور اس کے ناقابل تلافی نقصانات بھی بھگتے، اس مرتبہ خود کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
2019 میں وزیر اعظم نے ملکی مفاد میں نہ چاہتے ہوئے بھی ملائشیا کی زیر میزبانی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی کہ ملکی مفاد کا تقاضہ تھا اور اسوقت کے ملائشیا کے وزیراعظم مہاترے محمد سے ذاتی تعلقات کے باوجود و سعودی عرب کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔
یہاں بھی ایک باوقار خاموشی یا سفارتی زبان میں مناسب سا جواب دینا ہی کافی تھا لیکن وزیراعظم کا اہم بیرونی طاقتوں کو جلسہ عام میں للکارنا میں سفارتی نہیں عوامی سستی سیاست سے زیادہ کچھ نہیں۔
پاکستان کئی سالوں سے یورپین یونین کے GSP Plus اسٹیٹس کا حامل ہے جن کی وجہ سے پاکستان برآمدات کو یورپین یونین میں کسٹم ڈیوٹی سے استثناء ہے گذشتہ سال پاکستان کے مجموعی برآمدات میں سے 31 فیصد یورپین یونین کو بھیجی گئی۔
کسی بھی ڈپلومیٹک تعلقات میں منفی روئیے کے اثرات ہمارے GSP Plus کے اسٹیٹس پر آنے کے صورت میں ہماری برآمدات کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ گذشتہ ہفتے گورنر پنجاب نے گزشتہ ہفتے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں یہ کہا تھا کہ وہ GSP Plus کے اسٹیٹس کی معیاد میں اضافے کے لئے یورپین یونین سے رابطے میں ہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک اس اسٹیٹس سے اب تک پاکستان کو 20 بلیں ڈالر سے زیادہ کا فائدہ ہوا ہے۔
ان تمام چیزوں کے باوجود یہ تقریر ۔۔۔۔کیا یہ سب کسی پلان کا حصہ ہے؟
بظاہر معاملات کا تسلسل کسی سوچے سمجھے منصوبے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد (جس کے بارےمیں مبصرین کا خیال ہے کامیابی کے امکانات کم ہیں) کامیاب ہوتی بھی ہے تو فوری انتخابات کی کوئی ضمانت نہیں ہے، دوسری طرف ان مشکل حالات میں :-
1. پیٹرول کی قیمتیوں میں کمی ہی نہیں منجمد کرنے کا اعلان۔
2. نئی ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم (جس کے آئی ایم ایف پروگرام پر تو محدود اثر پڑے گا لیکن اگر سعودی عرب نے اسے ڈیفالٹ پر تشبیہ دی تو تقریباً تین بلین ڈالر فوری طور پر واپسی اور ناکامی کی صورت میں پاکستان کے رہن شدہ بین القوامی اثاثوں کی ضبطگی کا خطرہ)۔
3. اور آخری یورپین یونین کو جلسہ عام میں للکار (جو بہرحال عوام میں مقبول ہو گا) لیکن اگر ہمارے GSP Plus کے اسٹیٹس پر اثرانداز ہونے کی صورت میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات پر شدید اثرات ۔
کسی بھی آنے والی حکومت کے لئے جاتے جاتے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش سمجھی جاسکتی ہے۔ سوال یہ بھی اگر یہ تینوں بارودی سُرنگیں پھٹ گئیں تو پاکستان کی معاشی حالت کیا ہوگی ؟
یہ تمام اقدامات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان خاموشی سے اگلے انتخابات کی مہم شروع کرچُکے ہیں۔ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم اسوقت ذہنی طور پر سیاسی شھادت کے لیے تیار ہو چُکے ہیں۔ ان کی ترجیح ازخود اسمبلی توڑ کر راہ فرار اختیار کرنے کی بہ نسبت اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں شھادت ہے۔
اس لئے حکومتی حامیوں کے ذریعے گذشتہ چند دنوں سے امریکہ انہیں ہٹانا چاہتا ہے کا بیانیہ پیش کیا جارہا ہےاور پھر یورپین یونین بھی شریک ملزم بنا کر اس کے خلاف اشتعال انگیز تقریر بھی اسی سیاسی شھادت کے لئے جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
یاد رہے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کا بیانیہ کہ امریکہ ان کی حکومت کے خاتمے کے درپے ہے اب تک اس وقت کی اپوزیشن کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن کر لگا ہوا ہے۔
اسی شھادت کے حصول کے لئے انہوں نے آج میلسی کے جلسہ عام میں اپوزیشن اور “اُن” کو بعد از تحریک عدم اعتماد انتقامی اقدامات کی دہمکی دیکر اشتعال دلا کر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر وزیر اعظم ہی اپوزیشن کے ہاتھوں سیاسی شھادت کی تلاش کررہے ہیں تو کیا ضروری ہے کہ اپوزیشن ان کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسے؟ کیا بہتر نہیں ہو گا کہ اپوزیشن ان کا کھیل ان ہی پراُلٹ کر فی الوقت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ پیش کرنے کا اعلان کرے تو کیا ہوگا؟
اس صورت میں یا تو وزیراعظم خود ہی اسمبلی تحلیل کرکے شھادت سے محروم ہو جاہیں گے، بلکہ راہ فرار اختیار کرتے نظر آئیں گے، ورنہ انہیں اپنی پھیلائی ہوئی بارودی سُرنگیں خود ہی صاف کرنا پڑے گی ۔
موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کے لئے بہتر یہی ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر ملکی حالات کے تناظر میں تحریک عدم اعتماد نہ لانے کا اعلان کریں۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ فی الوقت وزیراعظم کا بیانیہ کہ اپوزیشن بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے ناکام ہو جائے گا۔ اس کے بعد اگر وہ خود راہ فرار اختیار کرکے اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو اس کے نتائج انہیں ہی بھگتنے پڑیں گے۔
یقیناً تحریک عدم اعتماد کا اتنا مبالغہ آمیز شور کردیا گیا ہے کہ اس وقت اپوزیشن کے لئے قدم پیچھے ہٹانا مشکل تو ہے، لیکن یہی حزب اختلاف کی سیاسی ذہانت و شعور کا امتحان ہے۔
اس وقت ملک میں تحریک عدم اعتماد کا غلغلہ مچا ہوا ہے۔ دوسری طرف گذشتہ چند دنوں سے وزیراعظم عمران خان کے اقدامات بظاہر اس بات کا اظہار کررہے کہ وہ ذہنی طور پر ازخود اسمبلیاں توڑنے کے لئے تیار ہیں یا ان کے خیال میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔
جنگوں میں شکست خوردہ افواج پیچھے ہٹنے سے پہلے عموماً تمام عمارات و تنصیبات تباہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ دشمن کے لیے مشکلات پیدا کی جاسکیں ۔ بظاہر ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ فوج بھی جنگ مغلوبہ لڑتے ہوئے مال و اسباب کی تباہی کا عمل شروع کرچُکی ہے۔
بظاہر وزیراعظم عمران خان نے شکست یا تزویراتی پست قدمی کے طور پر اقتدار سے باہر آنے سے پہلے آئندہ حکومت کے راستے میں بارودی سُرنگیں بچھانے کا کام شروع کردیا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
پہلی بارودی سُرنگ ۔تیل کی قیمتوں میں نہ صرف کمی بلکہ آئندہ تین ماہ تک کے لیے منجمد کرنے کا اعلان ۔
موجودہ صورتحال میں جب بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کےرجحان کے برخلاف اچانک ہی وزیراعظم نے نہ صرف تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا کیا بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ ان قیمتوں کو جون تک برقرار رکھّا جائے گا۔
جب کہ وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 92 ڈالر سے بڑھ کر (تادم تحریر ) 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چُکی ہیں یعنی 40 فیصد اضافہ ہو چُکا ہے، جسے سبسیڈائیز کرنا دینا کی کسی بھی حکومت کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔
بین الاقوامی بینک جے پی مورگن کے اندازے کے مطابق اگر روس و یوکرائن کی یہ صورتحال جاری رہی تو تیل کی قیمتیں 185 ڈالر فی بیرل تک جاسکتی ہے۔اس صورتحال میں موجودہ حکومت ہو یا کوئی اور تیل کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر جون تک منجمد رکھنا ناممکن ہوگا۔اگرحکومت اسمبلی تحلیل نہیں کرتی یا عدم اعتماد سے بچ گئی تو یقیناً وزیراعظم بھی اس پر یوٹرن کی روایت نبھائیں گے۔
صدر رفیق تارڑ کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
چونکہ وزیراعظم کے اسمبلی تحلیل یا حزب اختلاف کی مجوزہ تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں کامیابی کی صورت میں آیندہ آنے والی حکومت پیٹرول کی بین القوامی قیمتوں کی وجہ سے مقامی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں قیمتوں بڑہانے پر مجبور ہوگی اور اس کے سیاسی نتائج بھی بھگتنے پر مجبور ہوگی۔اور اس کے خلاف احتجاج کی قیادت عمران ہی کریں گے۔
یہی وجہ سے کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے پیڑول کی قیمتوں میں کمی یا منجمد کرنے کے اقدام پر اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن حکمران جماعت اور ان کے حامی شوشل میڈیا سیل نے اسے حسب روایت تضحیک کا نشانہ کرکے رد کردیا۔
دوسری بارودی سُرنگ -مجوزہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم
چند دنوں قبل وفاقی کابینہ نے تیسری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظور دی ہے ۔ اس تفصیلات میں جائے بغیر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ،کیا مجوزہ ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم کا مطلب آئی ایم ایف سے کئے ہوئے معاہدوں کو کوڑے دان میں پھینکنا ہے؟
یہ بھی پڑھئے:
وہ ملاقات جس میں صدر تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
عمران خان کس منصوبے پر عمل کر رہے ہیں؟
اے پشاور! آخری کوشش ہے یہ، اسحٰق وردگ کی شاعری پر ایک نظر
یادرہے کہ غالباُ سعودی عرب سے بھی وصول شدہ ڈالروں کے بارے میں شنید ہے کہ معاہدے میں شامل ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں ڈیفالٹ کی صورت میں سعودی عرب کو 48 گھنٹوں میں ساری رقوم واپس کرنی پڑے گی ورنہ ہو حکومت پاکستان کے بیرون ملک رہن شدہ اثاثے ضبط کرنے کا مجاز ہوگا۔
اس سوال پر سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ٹیکس ایمنسٹی کی اسکیم کے IMF یا سعودی عرب سے دستخط کردہ معاہدے پر کیا اثرات ہوں گے؟
تیسری بارودی سُرنگ ۔ یورپی یونین کو للکارنا
آج وزیراعظم نے میلسی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے چند باتیں کیں۔ ان میں زیادہ تر ملکی سیاست و سیاستدانوں کے بارے میں ان کی زبان و بیان نہ تو نئی چیز ہے اور نہ ہی ان کے کوئی دورس اثرات رونما ہونے کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
لیکن دوسری طرف انہوں نے امریکہ و یوروپین یونین کے بارے میں (بالخصوص یورپین یونین کے روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے کے مطالبے ) جس قسم کی زبان استعمال کی وہ مجھ سمیت ہم سب کے دل سے قریب تھی اور یقیناً انتہائی مقبول ہوگی کہ عوام خارجہ کے لیے تعلقات کی بارکیوں کی بہ نسبتا مولاجٹ کی بڑکیں زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پر بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں، یہاں پر میگافون ڈپلومیسی نہیں چلتی، وزیراعظم ہوں یا حکومتی عمال حساس ملکی و بین القوامی معاملات میں شدید اشتعال کے عالم میں بھی ان سے محتاظ زبان کا استعمال ان کے عہدے کا تقاضہ ہے۔
اس تقریر سے ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے آخری دنوں میں کی جانے والی وہ تقریر یاد آگئی۔اگر میری یادداشت غلط نہیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے دو تقاریر کی تھیں ایک قومی اسمبلی جس میں انہوں نے امریکہ پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگایا تھا، اور دوسری راولپنڈی کے راجہ بازار میں۔
واضح رہے کہ اس حکمران و حکومت کو ناپسند کرنے کے باوجود میں ان کے دورہ روس اور اس سلسلے میں موجودہ پوزیشن کا حامی ہوں۔ ایک لحاظ سے پاکستان نے سرد جنگ کی برعکس جب روس کے خلاف مغربی بلاک کے ساتھ شامل ہوئے اور اس کے ناقابل تلافی نقصانات بھی بھگتے، اس مرتبہ خود کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
2019 میں وزیر اعظم نے ملکی مفاد میں نہ چاہتے ہوئے بھی ملائشیا کی زیر میزبانی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی کہ ملکی مفاد کا تقاضہ تھا اور اسوقت کے ملائشیا کے وزیراعظم مہاترے محمد سے ذاتی تعلقات کے باوجود و سعودی عرب کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔
یہاں بھی ایک باوقار خاموشی یا سفارتی زبان میں مناسب سا جواب دینا ہی کافی تھا لیکن وزیراعظم کا اہم بیرونی طاقتوں کو جلسہ عام میں للکارنا میں سفارتی نہیں عوامی سستی سیاست سے زیادہ کچھ نہیں۔
پاکستان کئی سالوں سے یورپین یونین کے GSP Plus اسٹیٹس کا حامل ہے جن کی وجہ سے پاکستان برآمدات کو یورپین یونین میں کسٹم ڈیوٹی سے استثناء ہے گذشتہ سال پاکستان کے مجموعی برآمدات میں سے 31 فیصد یورپین یونین کو بھیجی گئی۔
کسی بھی ڈپلومیٹک تعلقات میں منفی روئیے کے اثرات ہمارے GSP Plus کے اسٹیٹس پر آنے کے صورت میں ہماری برآمدات کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ گذشتہ ہفتے گورنر پنجاب نے گزشتہ ہفتے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں یہ کہا تھا کہ وہ GSP Plus کے اسٹیٹس کی معیاد میں اضافے کے لئے یورپین یونین سے رابطے میں ہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک اس اسٹیٹس سے اب تک پاکستان کو 20 بلیں ڈالر سے زیادہ کا فائدہ ہوا ہے۔
ان تمام چیزوں کے باوجود یہ تقریر ۔۔۔۔کیا یہ سب کسی پلان کا حصہ ہے؟
بظاہر معاملات کا تسلسل کسی سوچے سمجھے منصوبے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد (جس کے بارےمیں مبصرین کا خیال ہے کامیابی کے امکانات کم ہیں) کامیاب ہوتی بھی ہے تو فوری انتخابات کی کوئی ضمانت نہیں ہے، دوسری طرف ان مشکل حالات میں :-
1. پیٹرول کی قیمتیوں میں کمی ہی نہیں منجمد کرنے کا اعلان۔
2. نئی ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم (جس کے آئی ایم ایف پروگرام پر تو محدود اثر پڑے گا لیکن اگر سعودی عرب نے اسے ڈیفالٹ پر تشبیہ دی تو تقریباً تین بلین ڈالر فوری طور پر واپسی اور ناکامی کی صورت میں پاکستان کے رہن شدہ بین القوامی اثاثوں کی ضبطگی کا خطرہ)۔
3. اور آخری یورپین یونین کو جلسہ عام میں للکار (جو بہرحال عوام میں مقبول ہو گا) لیکن اگر ہمارے GSP Plus کے اسٹیٹس پر اثرانداز ہونے کی صورت میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات پر شدید اثرات ۔
کسی بھی آنے والی حکومت کے لئے جاتے جاتے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش سمجھی جاسکتی ہے۔ سوال یہ بھی اگر یہ تینوں بارودی سُرنگیں پھٹ گئیں تو پاکستان کی معاشی حالت کیا ہوگی ؟
یہ تمام اقدامات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان خاموشی سے اگلے انتخابات کی مہم شروع کرچُکے ہیں۔ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم اسوقت ذہنی طور پر سیاسی شھادت کے لیے تیار ہو چُکے ہیں۔ ان کی ترجیح ازخود اسمبلی توڑ کر راہ فرار اختیار کرنے کی بہ نسبت اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں شھادت ہے۔
اس لئے حکومتی حامیوں کے ذریعے گذشتہ چند دنوں سے امریکہ انہیں ہٹانا چاہتا ہے کا بیانیہ پیش کیا جارہا ہےاور پھر یورپین یونین بھی شریک ملزم بنا کر اس کے خلاف اشتعال انگیز تقریر بھی اسی سیاسی شھادت کے لئے جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
یاد رہے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کا بیانیہ کہ امریکہ ان کی حکومت کے خاتمے کے درپے ہے اب تک اس وقت کی اپوزیشن کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن کر لگا ہوا ہے۔
اسی شھادت کے حصول کے لئے انہوں نے آج میلسی کے جلسہ عام میں اپوزیشن اور “اُن” کو بعد از تحریک عدم اعتماد انتقامی اقدامات کی دہمکی دیکر اشتعال دلا کر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر وزیر اعظم ہی اپوزیشن کے ہاتھوں سیاسی شھادت کی تلاش کررہے ہیں تو کیا ضروری ہے کہ اپوزیشن ان کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسے؟ کیا بہتر نہیں ہو گا کہ اپوزیشن ان کا کھیل ان ہی پراُلٹ کر فی الوقت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ پیش کرنے کا اعلان کرے تو کیا ہوگا؟
اس صورت میں یا تو وزیراعظم خود ہی اسمبلی تحلیل کرکے شھادت سے محروم ہو جاہیں گے، بلکہ راہ فرار اختیار کرتے نظر آئیں گے، ورنہ انہیں اپنی پھیلائی ہوئی بارودی سُرنگیں خود ہی صاف کرنا پڑے گی ۔
موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کے لئے بہتر یہی ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر ملکی حالات کے تناظر میں تحریک عدم اعتماد نہ لانے کا اعلان کریں۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ فی الوقت وزیراعظم کا بیانیہ کہ اپوزیشن بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے ناکام ہو جائے گا۔ اس کے بعد اگر وہ خود راہ فرار اختیار کرکے اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو اس کے نتائج انہیں ہی بھگتنے پڑیں گے۔
یقیناً تحریک عدم اعتماد کا اتنا مبالغہ آمیز شور کردیا گیا ہے کہ اس وقت اپوزیشن کے لئے قدم پیچھے ہٹانا مشکل تو ہے، لیکن یہی حزب اختلاف کی سیاسی ذہانت و شعور کا امتحان ہے۔
اس وقت ملک میں تحریک عدم اعتماد کا غلغلہ مچا ہوا ہے۔ دوسری طرف گذشتہ چند دنوں سے وزیراعظم عمران خان کے اقدامات بظاہر اس بات کا اظہار کررہے کہ وہ ذہنی طور پر ازخود اسمبلیاں توڑنے کے لئے تیار ہیں یا ان کے خیال میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔
جنگوں میں شکست خوردہ افواج پیچھے ہٹنے سے پہلے عموماً تمام عمارات و تنصیبات تباہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ دشمن کے لیے مشکلات پیدا کی جاسکیں ۔ بظاہر ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ فوج بھی جنگ مغلوبہ لڑتے ہوئے مال و اسباب کی تباہی کا عمل شروع کرچُکی ہے۔
بظاہر وزیراعظم عمران خان نے شکست یا تزویراتی پست قدمی کے طور پر اقتدار سے باہر آنے سے پہلے آئندہ حکومت کے راستے میں بارودی سُرنگیں بچھانے کا کام شروع کردیا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
پہلی بارودی سُرنگ ۔تیل کی قیمتوں میں نہ صرف کمی بلکہ آئندہ تین ماہ تک کے لیے منجمد کرنے کا اعلان ۔
موجودہ صورتحال میں جب بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کےرجحان کے برخلاف اچانک ہی وزیراعظم نے نہ صرف تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا کیا بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ ان قیمتوں کو جون تک برقرار رکھّا جائے گا۔
جب کہ وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 92 ڈالر سے بڑھ کر (تادم تحریر ) 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چُکی ہیں یعنی 40 فیصد اضافہ ہو چُکا ہے، جسے سبسیڈائیز کرنا دینا کی کسی بھی حکومت کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔
بین الاقوامی بینک جے پی مورگن کے اندازے کے مطابق اگر روس و یوکرائن کی یہ صورتحال جاری رہی تو تیل کی قیمتیں 185 ڈالر فی بیرل تک جاسکتی ہے۔اس صورتحال میں موجودہ حکومت ہو یا کوئی اور تیل کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر جون تک منجمد رکھنا ناممکن ہوگا۔اگرحکومت اسمبلی تحلیل نہیں کرتی یا عدم اعتماد سے بچ گئی تو یقیناً وزیراعظم بھی اس پر یوٹرن کی روایت نبھائیں گے۔
صدر رفیق تارڑ کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
چونکہ وزیراعظم کے اسمبلی تحلیل یا حزب اختلاف کی مجوزہ تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں کامیابی کی صورت میں آیندہ آنے والی حکومت پیٹرول کی بین القوامی قیمتوں کی وجہ سے مقامی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں قیمتوں بڑہانے پر مجبور ہوگی اور اس کے سیاسی نتائج بھی بھگتنے پر مجبور ہوگی۔اور اس کے خلاف احتجاج کی قیادت عمران ہی کریں گے۔
یہی وجہ سے کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے پیڑول کی قیمتوں میں کمی یا منجمد کرنے کے اقدام پر اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن حکمران جماعت اور ان کے حامی شوشل میڈیا سیل نے اسے حسب روایت تضحیک کا نشانہ کرکے رد کردیا۔
دوسری بارودی سُرنگ -مجوزہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم
چند دنوں قبل وفاقی کابینہ نے تیسری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظور دی ہے ۔ اس تفصیلات میں جائے بغیر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ،کیا مجوزہ ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم کا مطلب آئی ایم ایف سے کئے ہوئے معاہدوں کو کوڑے دان میں پھینکنا ہے؟
یہ بھی پڑھئے:
وہ ملاقات جس میں صدر تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
عمران خان کس منصوبے پر عمل کر رہے ہیں؟
اے پشاور! آخری کوشش ہے یہ، اسحٰق وردگ کی شاعری پر ایک نظر
یادرہے کہ غالباُ سعودی عرب سے بھی وصول شدہ ڈالروں کے بارے میں شنید ہے کہ معاہدے میں شامل ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں ڈیفالٹ کی صورت میں سعودی عرب کو 48 گھنٹوں میں ساری رقوم واپس کرنی پڑے گی ورنہ ہو حکومت پاکستان کے بیرون ملک رہن شدہ اثاثے ضبط کرنے کا مجاز ہوگا۔
اس سوال پر سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ٹیکس ایمنسٹی کی اسکیم کے IMF یا سعودی عرب سے دستخط کردہ معاہدے پر کیا اثرات ہوں گے؟
تیسری بارودی سُرنگ ۔ یورپی یونین کو للکارنا
آج وزیراعظم نے میلسی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے چند باتیں کیں۔ ان میں زیادہ تر ملکی سیاست و سیاستدانوں کے بارے میں ان کی زبان و بیان نہ تو نئی چیز ہے اور نہ ہی ان کے کوئی دورس اثرات رونما ہونے کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
لیکن دوسری طرف انہوں نے امریکہ و یوروپین یونین کے بارے میں (بالخصوص یورپین یونین کے روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے کے مطالبے ) جس قسم کی زبان استعمال کی وہ مجھ سمیت ہم سب کے دل سے قریب تھی اور یقیناً انتہائی مقبول ہوگی کہ عوام خارجہ کے لیے تعلقات کی بارکیوں کی بہ نسبتا مولاجٹ کی بڑکیں زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پر بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں، یہاں پر میگافون ڈپلومیسی نہیں چلتی، وزیراعظم ہوں یا حکومتی عمال حساس ملکی و بین القوامی معاملات میں شدید اشتعال کے عالم میں بھی ان سے محتاظ زبان کا استعمال ان کے عہدے کا تقاضہ ہے۔
اس تقریر سے ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے آخری دنوں میں کی جانے والی وہ تقریر یاد آگئی۔اگر میری یادداشت غلط نہیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے دو تقاریر کی تھیں ایک قومی اسمبلی جس میں انہوں نے امریکہ پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگایا تھا، اور دوسری راولپنڈی کے راجہ بازار میں۔
واضح رہے کہ اس حکمران و حکومت کو ناپسند کرنے کے باوجود میں ان کے دورہ روس اور اس سلسلے میں موجودہ پوزیشن کا حامی ہوں۔ ایک لحاظ سے پاکستان نے سرد جنگ کی برعکس جب روس کے خلاف مغربی بلاک کے ساتھ شامل ہوئے اور اس کے ناقابل تلافی نقصانات بھی بھگتے، اس مرتبہ خود کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
2019 میں وزیر اعظم نے ملکی مفاد میں نہ چاہتے ہوئے بھی ملائشیا کی زیر میزبانی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی کہ ملکی مفاد کا تقاضہ تھا اور اسوقت کے ملائشیا کے وزیراعظم مہاترے محمد سے ذاتی تعلقات کے باوجود و سعودی عرب کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔
یہاں بھی ایک باوقار خاموشی یا سفارتی زبان میں مناسب سا جواب دینا ہی کافی تھا لیکن وزیراعظم کا اہم بیرونی طاقتوں کو جلسہ عام میں للکارنا میں سفارتی نہیں عوامی سستی سیاست سے زیادہ کچھ نہیں۔
پاکستان کئی سالوں سے یورپین یونین کے GSP Plus اسٹیٹس کا حامل ہے جن کی وجہ سے پاکستان برآمدات کو یورپین یونین میں کسٹم ڈیوٹی سے استثناء ہے گذشتہ سال پاکستان کے مجموعی برآمدات میں سے 31 فیصد یورپین یونین کو بھیجی گئی۔
کسی بھی ڈپلومیٹک تعلقات میں منفی روئیے کے اثرات ہمارے GSP Plus کے اسٹیٹس پر آنے کے صورت میں ہماری برآمدات کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ گذشتہ ہفتے گورنر پنجاب نے گزشتہ ہفتے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں یہ کہا تھا کہ وہ GSP Plus کے اسٹیٹس کی معیاد میں اضافے کے لئے یورپین یونین سے رابطے میں ہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک اس اسٹیٹس سے اب تک پاکستان کو 20 بلیں ڈالر سے زیادہ کا فائدہ ہوا ہے۔
ان تمام چیزوں کے باوجود یہ تقریر ۔۔۔۔کیا یہ سب کسی پلان کا حصہ ہے؟
بظاہر معاملات کا تسلسل کسی سوچے سمجھے منصوبے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد (جس کے بارےمیں مبصرین کا خیال ہے کامیابی کے امکانات کم ہیں) کامیاب ہوتی بھی ہے تو فوری انتخابات کی کوئی ضمانت نہیں ہے، دوسری طرف ان مشکل حالات میں :-
1. پیٹرول کی قیمتیوں میں کمی ہی نہیں منجمد کرنے کا اعلان۔
2. نئی ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم (جس کے آئی ایم ایف پروگرام پر تو محدود اثر پڑے گا لیکن اگر سعودی عرب نے اسے ڈیفالٹ پر تشبیہ دی تو تقریباً تین بلین ڈالر فوری طور پر واپسی اور ناکامی کی صورت میں پاکستان کے رہن شدہ بین القوامی اثاثوں کی ضبطگی کا خطرہ)۔
3. اور آخری یورپین یونین کو جلسہ عام میں للکار (جو بہرحال عوام میں مقبول ہو گا) لیکن اگر ہمارے GSP Plus کے اسٹیٹس پر اثرانداز ہونے کی صورت میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات پر شدید اثرات ۔
کسی بھی آنے والی حکومت کے لئے جاتے جاتے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش سمجھی جاسکتی ہے۔ سوال یہ بھی اگر یہ تینوں بارودی سُرنگیں پھٹ گئیں تو پاکستان کی معاشی حالت کیا ہوگی ؟
یہ تمام اقدامات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان خاموشی سے اگلے انتخابات کی مہم شروع کرچُکے ہیں۔ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم اسوقت ذہنی طور پر سیاسی شھادت کے لیے تیار ہو چُکے ہیں۔ ان کی ترجیح ازخود اسمبلی توڑ کر راہ فرار اختیار کرنے کی بہ نسبت اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں شھادت ہے۔
اس لئے حکومتی حامیوں کے ذریعے گذشتہ چند دنوں سے امریکہ انہیں ہٹانا چاہتا ہے کا بیانیہ پیش کیا جارہا ہےاور پھر یورپین یونین بھی شریک ملزم بنا کر اس کے خلاف اشتعال انگیز تقریر بھی اسی سیاسی شھادت کے لئے جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
یاد رہے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کا بیانیہ کہ امریکہ ان کی حکومت کے خاتمے کے درپے ہے اب تک اس وقت کی اپوزیشن کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن کر لگا ہوا ہے۔
اسی شھادت کے حصول کے لئے انہوں نے آج میلسی کے جلسہ عام میں اپوزیشن اور “اُن” کو بعد از تحریک عدم اعتماد انتقامی اقدامات کی دہمکی دیکر اشتعال دلا کر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر وزیر اعظم ہی اپوزیشن کے ہاتھوں سیاسی شھادت کی تلاش کررہے ہیں تو کیا ضروری ہے کہ اپوزیشن ان کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسے؟ کیا بہتر نہیں ہو گا کہ اپوزیشن ان کا کھیل ان ہی پراُلٹ کر فی الوقت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ پیش کرنے کا اعلان کرے تو کیا ہوگا؟
اس صورت میں یا تو وزیراعظم خود ہی اسمبلی تحلیل کرکے شھادت سے محروم ہو جاہیں گے، بلکہ راہ فرار اختیار کرتے نظر آئیں گے، ورنہ انہیں اپنی پھیلائی ہوئی بارودی سُرنگیں خود ہی صاف کرنا پڑے گی ۔
موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کے لئے بہتر یہی ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر ملکی حالات کے تناظر میں تحریک عدم اعتماد نہ لانے کا اعلان کریں۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ فی الوقت وزیراعظم کا بیانیہ کہ اپوزیشن بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے ناکام ہو جائے گا۔ اس کے بعد اگر وہ خود راہ فرار اختیار کرکے اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو اس کے نتائج انہیں ہی بھگتنے پڑیں گے۔
یقیناً تحریک عدم اعتماد کا اتنا مبالغہ آمیز شور کردیا گیا ہے کہ اس وقت اپوزیشن کے لئے قدم پیچھے ہٹانا مشکل تو ہے، لیکن یہی حزب اختلاف کی سیاسی ذہانت و شعور کا امتحان ہے۔
اس وقت ملک میں تحریک عدم اعتماد کا غلغلہ مچا ہوا ہے۔ دوسری طرف گذشتہ چند دنوں سے وزیراعظم عمران خان کے اقدامات بظاہر اس بات کا اظہار کررہے کہ وہ ذہنی طور پر ازخود اسمبلیاں توڑنے کے لئے تیار ہیں یا ان کے خیال میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔
جنگوں میں شکست خوردہ افواج پیچھے ہٹنے سے پہلے عموماً تمام عمارات و تنصیبات تباہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ دشمن کے لیے مشکلات پیدا کی جاسکیں ۔ بظاہر ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ فوج بھی جنگ مغلوبہ لڑتے ہوئے مال و اسباب کی تباہی کا عمل شروع کرچُکی ہے۔
بظاہر وزیراعظم عمران خان نے شکست یا تزویراتی پست قدمی کے طور پر اقتدار سے باہر آنے سے پہلے آئندہ حکومت کے راستے میں بارودی سُرنگیں بچھانے کا کام شروع کردیا ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
پہلی بارودی سُرنگ ۔تیل کی قیمتوں میں نہ صرف کمی بلکہ آئندہ تین ماہ تک کے لیے منجمد کرنے کا اعلان ۔
موجودہ صورتحال میں جب بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کےرجحان کے برخلاف اچانک ہی وزیراعظم نے نہ صرف تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا کیا بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ ان قیمتوں کو جون تک برقرار رکھّا جائے گا۔
جب کہ وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 92 ڈالر سے بڑھ کر (تادم تحریر ) 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چُکی ہیں یعنی 40 فیصد اضافہ ہو چُکا ہے، جسے سبسیڈائیز کرنا دینا کی کسی بھی حکومت کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔
بین الاقوامی بینک جے پی مورگن کے اندازے کے مطابق اگر روس و یوکرائن کی یہ صورتحال جاری رہی تو تیل کی قیمتیں 185 ڈالر فی بیرل تک جاسکتی ہے۔اس صورتحال میں موجودہ حکومت ہو یا کوئی اور تیل کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر جون تک منجمد رکھنا ناممکن ہوگا۔اگرحکومت اسمبلی تحلیل نہیں کرتی یا عدم اعتماد سے بچ گئی تو یقیناً وزیراعظم بھی اس پر یوٹرن کی روایت نبھائیں گے۔
صدر رفیق تارڑ کے بارے میں یہ بھی دیکھئے:
چونکہ وزیراعظم کے اسمبلی تحلیل یا حزب اختلاف کی مجوزہ تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں کامیابی کی صورت میں آیندہ آنے والی حکومت پیٹرول کی بین القوامی قیمتوں کی وجہ سے مقامی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں قیمتوں بڑہانے پر مجبور ہوگی اور اس کے سیاسی نتائج بھی بھگتنے پر مجبور ہوگی۔اور اس کے خلاف احتجاج کی قیادت عمران ہی کریں گے۔
یہی وجہ سے کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے پیڑول کی قیمتوں میں کمی یا منجمد کرنے کے اقدام پر اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن حکمران جماعت اور ان کے حامی شوشل میڈیا سیل نے اسے حسب روایت تضحیک کا نشانہ کرکے رد کردیا۔
دوسری بارودی سُرنگ -مجوزہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم
چند دنوں قبل وفاقی کابینہ نے تیسری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظور دی ہے ۔ اس تفصیلات میں جائے بغیر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ،کیا مجوزہ ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم کا مطلب آئی ایم ایف سے کئے ہوئے معاہدوں کو کوڑے دان میں پھینکنا ہے؟
یہ بھی پڑھئے:
وہ ملاقات جس میں صدر تارڑ کے سامنے جنرل مشرف کو زبان کھولنے کی ہمت نہ ہو سکی
عمران خان کس منصوبے پر عمل کر رہے ہیں؟
اے پشاور! آخری کوشش ہے یہ، اسحٰق وردگ کی شاعری پر ایک نظر
یادرہے کہ غالباُ سعودی عرب سے بھی وصول شدہ ڈالروں کے بارے میں شنید ہے کہ معاہدے میں شامل ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں ڈیفالٹ کی صورت میں سعودی عرب کو 48 گھنٹوں میں ساری رقوم واپس کرنی پڑے گی ورنہ ہو حکومت پاکستان کے بیرون ملک رہن شدہ اثاثے ضبط کرنے کا مجاز ہوگا۔
اس سوال پر سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ٹیکس ایمنسٹی کی اسکیم کے IMF یا سعودی عرب سے دستخط کردہ معاہدے پر کیا اثرات ہوں گے؟
تیسری بارودی سُرنگ ۔ یورپی یونین کو للکارنا
آج وزیراعظم نے میلسی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے چند باتیں کیں۔ ان میں زیادہ تر ملکی سیاست و سیاستدانوں کے بارے میں ان کی زبان و بیان نہ تو نئی چیز ہے اور نہ ہی ان کے کوئی دورس اثرات رونما ہونے کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
لیکن دوسری طرف انہوں نے امریکہ و یوروپین یونین کے بارے میں (بالخصوص یورپین یونین کے روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے کے مطالبے ) جس قسم کی زبان استعمال کی وہ مجھ سمیت ہم سب کے دل سے قریب تھی اور یقیناً انتہائی مقبول ہوگی کہ عوام خارجہ کے لیے تعلقات کی بارکیوں کی بہ نسبتا مولاجٹ کی بڑکیں زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پر بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں، یہاں پر میگافون ڈپلومیسی نہیں چلتی، وزیراعظم ہوں یا حکومتی عمال حساس ملکی و بین القوامی معاملات میں شدید اشتعال کے عالم میں بھی ان سے محتاظ زبان کا استعمال ان کے عہدے کا تقاضہ ہے۔
اس تقریر سے ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے آخری دنوں میں کی جانے والی وہ تقریر یاد آگئی۔اگر میری یادداشت غلط نہیں تو ذوالفقار علی بھٹو نے دو تقاریر کی تھیں ایک قومی اسمبلی جس میں انہوں نے امریکہ پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگایا تھا، اور دوسری راولپنڈی کے راجہ بازار میں۔
واضح رہے کہ اس حکمران و حکومت کو ناپسند کرنے کے باوجود میں ان کے دورہ روس اور اس سلسلے میں موجودہ پوزیشن کا حامی ہوں۔ ایک لحاظ سے پاکستان نے سرد جنگ کی برعکس جب روس کے خلاف مغربی بلاک کے ساتھ شامل ہوئے اور اس کے ناقابل تلافی نقصانات بھی بھگتے، اس مرتبہ خود کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
2019 میں وزیر اعظم نے ملکی مفاد میں نہ چاہتے ہوئے بھی ملائشیا کی زیر میزبانی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی کہ ملکی مفاد کا تقاضہ تھا اور اسوقت کے ملائشیا کے وزیراعظم مہاترے محمد سے ذاتی تعلقات کے باوجود و سعودی عرب کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔
یہاں بھی ایک باوقار خاموشی یا سفارتی زبان میں مناسب سا جواب دینا ہی کافی تھا لیکن وزیراعظم کا اہم بیرونی طاقتوں کو جلسہ عام میں للکارنا میں سفارتی نہیں عوامی سستی سیاست سے زیادہ کچھ نہیں۔
پاکستان کئی سالوں سے یورپین یونین کے GSP Plus اسٹیٹس کا حامل ہے جن کی وجہ سے پاکستان برآمدات کو یورپین یونین میں کسٹم ڈیوٹی سے استثناء ہے گذشتہ سال پاکستان کے مجموعی برآمدات میں سے 31 فیصد یورپین یونین کو بھیجی گئی۔
کسی بھی ڈپلومیٹک تعلقات میں منفی روئیے کے اثرات ہمارے GSP Plus کے اسٹیٹس پر آنے کے صورت میں ہماری برآمدات کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ گذشتہ ہفتے گورنر پنجاب نے گزشتہ ہفتے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں یہ کہا تھا کہ وہ GSP Plus کے اسٹیٹس کی معیاد میں اضافے کے لئے یورپین یونین سے رابطے میں ہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک اس اسٹیٹس سے اب تک پاکستان کو 20 بلیں ڈالر سے زیادہ کا فائدہ ہوا ہے۔
ان تمام چیزوں کے باوجود یہ تقریر ۔۔۔۔کیا یہ سب کسی پلان کا حصہ ہے؟
بظاہر معاملات کا تسلسل کسی سوچے سمجھے منصوبے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد (جس کے بارےمیں مبصرین کا خیال ہے کامیابی کے امکانات کم ہیں) کامیاب ہوتی بھی ہے تو فوری انتخابات کی کوئی ضمانت نہیں ہے، دوسری طرف ان مشکل حالات میں :-
1. پیٹرول کی قیمتیوں میں کمی ہی نہیں منجمد کرنے کا اعلان۔
2. نئی ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم (جس کے آئی ایم ایف پروگرام پر تو محدود اثر پڑے گا لیکن اگر سعودی عرب نے اسے ڈیفالٹ پر تشبیہ دی تو تقریباً تین بلین ڈالر فوری طور پر واپسی اور ناکامی کی صورت میں پاکستان کے رہن شدہ بین القوامی اثاثوں کی ضبطگی کا خطرہ)۔
3. اور آخری یورپین یونین کو جلسہ عام میں للکار (جو بہرحال عوام میں مقبول ہو گا) لیکن اگر ہمارے GSP Plus کے اسٹیٹس پر اثرانداز ہونے کی صورت میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات پر شدید اثرات ۔
کسی بھی آنے والی حکومت کے لئے جاتے جاتے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش سمجھی جاسکتی ہے۔ سوال یہ بھی اگر یہ تینوں بارودی سُرنگیں پھٹ گئیں تو پاکستان کی معاشی حالت کیا ہوگی ؟
یہ تمام اقدامات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان خاموشی سے اگلے انتخابات کی مہم شروع کرچُکے ہیں۔ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم اسوقت ذہنی طور پر سیاسی شھادت کے لیے تیار ہو چُکے ہیں۔ ان کی ترجیح ازخود اسمبلی توڑ کر راہ فرار اختیار کرنے کی بہ نسبت اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں شھادت ہے۔
اس لئے حکومتی حامیوں کے ذریعے گذشتہ چند دنوں سے امریکہ انہیں ہٹانا چاہتا ہے کا بیانیہ پیش کیا جارہا ہےاور پھر یورپین یونین بھی شریک ملزم بنا کر اس کے خلاف اشتعال انگیز تقریر بھی اسی سیاسی شھادت کے لئے جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔
یاد رہے 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کا بیانیہ کہ امریکہ ان کی حکومت کے خاتمے کے درپے ہے اب تک اس وقت کی اپوزیشن کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن کر لگا ہوا ہے۔
اسی شھادت کے حصول کے لئے انہوں نے آج میلسی کے جلسہ عام میں اپوزیشن اور “اُن” کو بعد از تحریک عدم اعتماد انتقامی اقدامات کی دہمکی دیکر اشتعال دلا کر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر وزیر اعظم ہی اپوزیشن کے ہاتھوں سیاسی شھادت کی تلاش کررہے ہیں تو کیا ضروری ہے کہ اپوزیشن ان کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنسے؟ کیا بہتر نہیں ہو گا کہ اپوزیشن ان کا کھیل ان ہی پراُلٹ کر فی الوقت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ پیش کرنے کا اعلان کرے تو کیا ہوگا؟
اس صورت میں یا تو وزیراعظم خود ہی اسمبلی تحلیل کرکے شھادت سے محروم ہو جاہیں گے، بلکہ راہ فرار اختیار کرتے نظر آئیں گے، ورنہ انہیں اپنی پھیلائی ہوئی بارودی سُرنگیں خود ہی صاف کرنا پڑے گی ۔
موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کے لئے بہتر یہی ہے کہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر ملکی حالات کے تناظر میں تحریک عدم اعتماد نہ لانے کا اعلان کریں۔ اس سے سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ فی الوقت وزیراعظم کا بیانیہ کہ اپوزیشن بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر ان کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے ناکام ہو جائے گا۔ اس کے بعد اگر وہ خود راہ فرار اختیار کرکے اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو اس کے نتائج انہیں ہی بھگتنے پڑیں گے۔
یقیناً تحریک عدم اعتماد کا اتنا مبالغہ آمیز شور کردیا گیا ہے کہ اس وقت اپوزیشن کے لئے قدم پیچھے ہٹانا مشکل تو ہے، لیکن یہی حزب اختلاف کی سیاسی ذہانت و شعور کا امتحان ہے۔