چند دنوں قبل میں نے ایک تحریر میں ہمارے عمران خان کی ذہنی کیفیت کو ایک خود کش پائیلٹ سے تشبیہ دی تھی۔اور یہ سوال کیا تھا کہ کیا ہمارے ملک کے 22 کروڑ مسافروں سے بھرے جہاز کی کمان واقعی کسی خود کش پائلیٹ کے ہاتھوں میں ہے؟
دنیا میں خود کش پائلٹوں کے ہاتھوں مسافروں سےبھرے ہوائی جہاز کا کریش ہونا کوئی اچھوتی بات نہیں ہے۔ فرق اتنا ہے کہ پائلیٹ کے انتخاب میں مسافروں کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔ لیکن نتیجہ وہ بھی بھگتنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اللہ نہ کرے ایسا ہی انجام ہمارا بھی ہو۔ (اُمید تو کم ہے کہ) کاکپٹ میں ایک سے زائد پائلٹ موجود ہیں اس وجہ سے پائیلٹوں کی کنٹرول کی جنگ کی وجہ پرواز ناہموار ضرور ہے۔ لیکن اس بات کی بھی توقع ہے کہ جہاز کے کریش ہونے کے خطرے پر سارے اکٹھے ہوکر “پاگل پائیلٹ” کی مشکیں کس کر جہاز کو محفوظ لینڈنگ کی کوشش ضرور کریں گے۔
یہ بھی دیکھئے:
اس وقت ملک میں تحریک عدم اعتماد کا غلغلہ مچا ہوا ہے۔ لیکن زیادہ تر سیاسی پنڈتوں کے نزدیک اس کے غبارے سے ہوا نکل چُکی ہے۔ دوسری طرف گذشتہ چند دنوں سے وزیراعظم عمران خان کے اقدامات بظاہر اس بات کا اظہار کررہے کہ آیا وہ ذہنی طور پر ازخود اسمبلیاں توڑنے کے لئے تیار ہیں یا ان کے خیال میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔
جنگوں میں شکست خوردہ افواج پیچھے ہٹنے سے پہلے عموماً تمام عمارات و تنصیبات تباہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاکہ دشمن کے لیے مشکلات پیدا کی جاسکیں۔ بظاہر ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ فوج بھی جنگ مغلوبہ لڑتے ہوئے مال و اسباب کی تباہی کا عمل شروع کرچُکی ہے۔
بظاہر عمران خان نے شکست یا تزویراتی پست قدمی کے طور پر اقتدار سے باہر آنے سے پہلے آئندہ حکومت کے راستے میں بارودی سُرنگیں بچھانے کا کام شروع کردیا ہے۔
پہلی بارودی سُرنگ ۔تیل کی قیمتوں میں نہ صرف کمی بلکہ آئندہ تین ماہ تک کے لیے منجمد کرنے کا اعلان ۔
موجودہ صورتحال میں جب بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کےرجحان کے برخلاف اچانک ہی وزیراعظم نے نہ صرف تیل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا کیا۔ بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ ان قیمتوں کو جون تک برقرار رکھّا جائے گا۔ جب کہ وزیر اعظم کے اس اعلان کے بعد بین القوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں 92 ڈالر سے بڑھ کر 118 ڈالر فی بیرل تک پہنچ چُکی ہیں۔ یعنی 28 فیصد اضافہ جو کہ سبسڈی دینا کسی بھی حکومت کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔
بین الاقوامی بینک جے پی مورگن کے اندازے کے مطابق اگر روس و یوکرائن کی یہ صورتحال جاری رہی تو تیل کی قیمتیں 185 ڈالر فی بیرل تک جاسکتی ہے۔ اس صورتحال میں موجودہ حکومت ہو یا کوئی اور تیل کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر جون تک منجمد رکھنا ناممکن ہوگا۔ اگرحکومت اسمبلی تحلیل نہیں کرتی یا عدم اعتماد سے بچ گئی تو یقیناً وزیراعظم اس پر یوٹرن کی روایت نبھائیں گے۔
چونکہ وزیراعظم کے اسمبلی تحلیل یا حزب اختلاف کی مجوزہ تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں کامیابی کی صورت میں آیندہ آنے والی حکومت پیٹرول کی بین القوامی قیمتوں کی وجہ سے مقامی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں قیمتوں بڑہانے پر مجبور ہوگی اور اس کے سیاسی نتائج بھی بھگتنے پر مجبور ہوگی۔اور اس کے خلاف احتجاج کی قیادت عمران ہی کریں گے۔
یہی وجہ سے کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے پیڑول کی قیمتوں میں کمی یا منجمد کرنے کے اقدام پر اپنی تشویش کا اظہار کیا لیکن حکمران جماعت اور ان کے حامی شوشل میڈیا سیل نے اسے حسب روایت تضحیک کا نشانہ کرکے رد کردیا۔
دوسری بارودی سُرنگ -مجوزہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم
چند دنوں قبل وفاقی کابینہ نے تیسری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظور دی ہے ۔ اس تفصیلات میں جائے بغیر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ،کیا مجوزہ ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم کا مطلب آئی ایم ایف سے کئے ہوئے معاہدوں کو کوڑے دان میں پھینکنا ہے؟
یہ بھی پڑھئے:
اے پشاور! آخری کوشش ہے یہ، اسحٰق وردگ کی شاعری پر ایک نظر
سات مارچ: آج استادِ سخن بیدل حیدری کا یومِ وفات ھے
تھوڑی موسیقی، تھوڑا گانا کیا لیتا ہے تمھارا؟
یادرہے کہ غالباُ سعودی عرب سے بھی وصول شدہ ڈالروں کے بارے میں شنید ہے کہ معاہدے میں شامل ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں ڈیفالٹ کی صورت میں سعودی عرب کو 48 گھنٹوں میں ساری رقوم واپس کرنی پڑے گی ورنہ ہو حکومت پاکستان کے بیرون ملک رہن شدہ اثاثے ضبط کرنے کا مجاز ہوگا۔
اس سوال پر سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ٹیکس ایمنسٹی کی اسکیم کے IMF یا سعودی عرب سے دستخط کردہ معاہدے پر کیا اثرات ہوں گے؟
تیسری بارودی سُرنگ ۔ یورپی یونین کو للکارنا
آج وزیراعظم نے میلسی میں ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے چند باتیں کیں۔ ان میں زیادہ تر ملکی سیاست و سیاستدانوں کے بارے میں ان کی زبان و بیان نہ تو نئی چیز ہے اور نہ ہی ان کے کوئی دورس اثرات رونما ہونے کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
لیکن جس قسم کے زبان انہوں نے یورپین یونین کے روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے کے مطالبے کے لیے استعمال کی وہ کم از کم ان کے عہدے و مقام کو زیبا نہیں دیتی۔ وزیراعظم ہوں یا حکومتی اعمال حساس ملکی و بین القوامی معاملات میں ان سے محتاظ زبان
واضح رہے کہ اس حکمران و حکومت کو ناپسند کرنے کے باوجود میں ان کے دورہ روس اور اس سلسلے میں موجودہ پوزیشن کا حامی ہوں۔
ایک لحاظ سے پاکستان نے سرد جنگ کی برعکس جب روس کے خلاف مغربی بلاک کے ساتھ شامل ہوئے اور اس کے ناقابل تلافی نقصانات بھی بھگتے، اس مرتبہ خود کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اس لحاظ سے وزیراعظم نے یورپین یونین کے اس مطالبے کے بارے میں جوکچھ کہا وہ نہ صرف انکی بلکہ پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی تھی۔ لیکن بین القوامی تعلقات کی نزاکتوں کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔
2019 میں وزیر اعظم نے ملکی مفاد میں نہ چاہتے ہوئے بھی ملائشیا کی زیر میزبانی اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی کہ ملکی مفاد کا تقاضہ تھا اور اسوقت کے ملائشیا کے وزیراعظم مہاترے محمد سے ذاتی تعلقات کے باوجود و سعودی عرب کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔
یہاں بھی ایک باوقار خاموشی یا سفارتی زبان میں مناسب سا جواب ہی کافی تھا لیکن وزیراعظم کو جلسہ عام للکارنے میں کیا مصلحت تھی؟
پاکستان کئی سالوں سے یورپین یونین کے GSP Plus اسٹیٹس کا حامل ہے جن کی وجہ سے پاکستان برآمدات کو یورپین یونین میں کسٹم ڈیوٹی سے استثناء ہے گذشتہ سال پاکستان کے مجموعی برآمدات میں سے 31 فیصد یورپین یونین کو بھیجی گئی۔
کسی بھی ڈپلومیٹک تعلقات میں منفی روئیے کے اثرات ہمارے GSP Plus کے اسٹیٹس پر آنے کے صورت میں ہماری برآمدات کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ گذشتہ ہفتے گورنر پنجاب نے گزشتہ ہفتے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں یہ کہا تھا کہ وہ GSP Plus کے اسٹیٹس کی معیاد میں اضافے کے لئے یورپین یونین سے رابطے میں ہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک اس اسٹیٹس سے اب تک پاکستان کو 20 بلیں ڈالر سے زیادہ کا فائدہ ہوا ہے۔
ان تمام چیزوں کے باوجود یہ تقریر ۔۔۔۔کیا پائلٹ واقعی پاگل ہو گیا ہے یا سب کسی پلان کا حصہ ہے؟
بظاہر معاملات کا تسلسل کسی سوچے سمجھے منصوبے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد (جس کے بارےمیں مبصرین کا خیال ہے کامیابی مشکل ہے) کی صورت میں فوری انتخابات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، دوسری طرف ان مشکل حالات میں :-
1. پیٹرول کی قیمتیوں میں کمی ہی نہیں منجمد کرنے کا اعلان۔
2. نئی ٹیکس ایمنسٹئ اسکیم
3. اور آخری یورپین یونین کو جلسہ عام میں للکار (جو بحرحال عوام میں مقبول ہو گا)۔
سوال یہ بھی اگر یہ تینوں بارودی سُرنگیں پھٹ گئیں تو پاکستان کی معاشی حالت کیا ہوگی ؟
یہ تمام اقدامات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان خاموشی سے اگلے انتخابات کی مہم شروع کرچُکے ہیں۔عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے اپوزیشن کو موجودہ حکومت کے اتحادیوں سے کچھ غیر پسندیدہ سمجھوتے کرنے پڑیں گے۔ دوسری طرف یہی سمجھوتے عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے وزیراعظم کو بھی کرنے پڑیں گے۔
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم اسوقت ذہنی طور پر سیاسی شھادت کے لیے تیار ہو چُکے ہیں، اس لئے ان کے حامیوں کے ذریعے گذشتہ چند دنوں سے امریکہ انہیں ہٹانا چاہتا ہے کا بیانیہ پیش کیا جارہا ہےاور پھر یورپین یونین بھی شریک ملزم بنا کر اس کے خلاف اشتعال انگیز تقریر بھی اسی سیاسی شھادت کے لئے جواز فراہم کرنے کی کوشش ہے۔جو کہ اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں حاصل نہیں ہوسکے گی۔
اسی شھادت کے حصول کے لئے انہوں نے آج میلسی کے جلسہ عام میں اپوزیشن اور “اُن” کو بعد ازں انتقامی اقدامات کی دہمکی دیکر اشتعال دلا کر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی ہے۔دلچسپ صورتحال اس وقت ہو سکتی ہے جب اپوزیشن ان کا کھیل ان ہی پراُلٹ کر فی الوقت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ پیش کرنے کا اعلان کرے تو کیا ہوگا؟
اس صورت میں یا تو وزیراعظم خود ہی اسمبلی تحلیل کرکے شھادت سے محروم ہو جاہیں گے، ورنہ انہیں اپنی پھیلائی ہوئی بارودی سُرنگیں خود ہی صاف کرنا پڑے گی ۔جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا معاملہ اسے ہفتوں کے لئے اس وقت تک موخر کردیا جائے جب بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں سے مجبور ہوکر حکومت قیمتوں میں اضافے پر مجبور ہو جائے۔
جہاں تک خود کش پائلیٹ کا معاملہ ہے، خود قسمتی سے کاکپٹ میں وہ تنہا نہیں ہے۔ اب کاکپٹ کے دیگر عملے اور اس پائلٹ کو یہ ذمہ داری دینے والوں کا بھی فرض ہے کہ جہاز کی محفوظ لینڈنگ یقینی بنائی جائے۔