بھونپو بتایا کرتے تھے کہ پہلے والے چور تھے اور جھوٹ بھی بہت بولتے ہیں۔ آج والے نے اپنے زمانہ کنوارگی میں اقتدار میں کبھی جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کیا تھا۔ اور وہ بھی لاکھوں کروڑوں لوگوں کے سامنے ایاک نعبد وایاک نستعین کہہ کر
پھر یہ یہی آج والا تھا جس نے پینتیس پنکچر کے الزام کو سیاسی بیان قرار دے کر جھوٹ کا اقرار بھی کیا۔ یاد ہو گا نا جب اس نے عدالت میں ایسا کہا تھا۔ یہ سب کر کے بھی وہ صادق اور امین قرار پایا۔
یہ بھی پڑھئے:
جامع محمدی شریف کے بانی،گوہرِ نایاب مِلتا ہے مٹی کے گھروندوں میں
دو دسمبر: تینتیس سال قبل، بے نظیر بھٹو آج کے دن پہلی بار وزیر اعظم بنیں
غلطیِ فہم یقیناً ہر شخص سے ہوتی ہے۔ سچّی اور دیانتدارانہ رائے رکھنے والے فرد میں ایک اندرونی درستگی کا نظام ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ اپنی رائے پر نظرثانی کرکے رائے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ کام ان سے تھوڑے تھوڑے کچھ وقت کے بعد ان کے تجربات و مشاہدات کراتے ہیں۔
مریضان محبت، ذلیلان محبت
ہاں میں بھی عاشق رہا ہوں۔۔ “عاشق بوٹاں “ اس عشق کا ڈنکے کی چوٹ پر اظہار کیا۔ وہ عشق تھا پر اندھا نہیں تھا۔ اب بھی دل کے بعض گوشوں میں اس عشق کی ہلکی ہلکی کسک باقی ہے۔ پھر “پاسبان عقل” غالب آنے ہی لگا ۔ اب ان سے بس یہی التجا رہی؎
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو سر میرا جھک جائے گا
پر یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ خوبصورت پر زہریلے عشق چاہے شیروانی پوش ہو۔ وردی پوش یا “صرف روپوش “۔ پیار موت کی نوید (Kiss of death) ہی ہوتا ہے۔ اور موجودہ و سابق مریضان محبت کی قسمت میں تھا، ذلیلان محبت ہونا ۔۔۔۔۔خیر، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
بھونپو: پروفیشنل اور فی سبیل اللی
اس وقت سوشل و الیکٹرونک میڈیا پر بھونپوؤں کا راج ہے۔ ساری چھوٹی بڑی جماعتوں نے حسب توفیق وگنجائش بھونپو پالے ہوئے ہیں۔ چونکہ سابقہ و موجودہ حکمرانوں کی جیبیں گہری ہیں۔ اس لیے یقیناً ان کے بھونپوؤں کا راج رہتا ہے۔ باقی دینی جماعتیں فی سبیل اللہ خدمات پر یقین رکھتی ہیں۔ انہیں بھی کچھ نہ کچھ فی سبیل اللہ بجنے والے بھونپو مل ہی جاتے ہیں۔
عشق معدہ
بھونپوؤں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہیں دل ،ضمیر، عقل و دلیل سے سروکار کم ہوتا ہے۔ عشق معدہ میں سب کچھ جائز ہے۔ اس لئے عموماً اپنے محبوب و آقا کے مخالفین کے خلاف چیزیں تلاش کرتے ہیں، ورنہ تصنیف کرتے ہیں۔ آدھے سچ کو مذہب کی مدد ثابت کرتے ہیں۔ ناکام رہیں تو فیصل آبادی میراثیوں کی طرح جگتوں کی مار مارتے ہیں۔
حالانکہ سارے بھونپو دعوی تو فی سییل اللہ “قومی خدمت” کاکرتے ہیں۔ چونکہ دنیا میں مفت لنچ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ جب ایک بھونپو حالات و واقعات سے لاتعلق ہو کر ایک ہی راگ بجاتا رہے تو پر سچّی بات ہے، یقین کوئی نہیں کرتا۔ اس عاشقی یا بھونپو پنے میں عزت سادات بھی چلی جاتی ہے۔
راگوں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
زیادہ تر بھونپو اپنے مخالفین کی کمزوریوں و خامیوں کی چیخم دھاڑ کے ذریعے تشہیرکرتے ہیں۔ نہ کہ اپنے ممدوحین کی خوبیوں کو اُجاگر کر کے۔ ممکن ہے ان کا بھی وہ خانہ خالی ہو۔ ورنہ ان کی اچھائیاں و کارنامے ہی ان کی تشہیر کے لئے کافی ہوتے۔ منفی و نفرت انگیز بھونپو کی چیخم دھاڑ سے احتراز قوم کی ذہنی و نفسیاتی صحت کے لیے بھی بہتر ہوتا۔
کسی بھی بھونپو کے کلام کو واہ واہ صرف ان کے اپنے شریکان طائفہ ہی سے ملتی ہے۔ حالانکہ بھونپو کے بجانے کا مقصد دوسرے لاتعلق افراد کو شامل بارات کرنا ہوتا ہے۔ لیکن وہ بیچارے اپنے بھوکے بچّوں اور خالی جیب وپیٹ کسی بھی راگ پر تھرکنے کی توانائی سے بھی محروم ہو چکے ہیں ۔
حمام میں سب ننگے
قوم کو پیٹ، پٹیرول ،پانی و بجلی سے مار کر اس وطن کو قبرستان میں تبدیل کرنے والے بھی شادمان ہیں۔ کہ اب کراہوں و چیخوں آوازیں انکی سمع خراشی نہیں کررہی۔ چلیں اس بہانے بھونپوؤں کی بھی روٹی روزی لگی رہتی ہے اپنا کیا ہے قوم کا نہیں تو ان کے بچّوں کے پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا ہوتا ہےنا۔
ویسے کیا جھوٹ بولنے، پھیلانے، اس پر یقین کرنے، اور اس کی تاویل کرنے والا کیا صرف ایک ہی ٹولہ ہے؟؟ اس حمّام میں سب ننگے ہیں۔ معذرت کے ساتھ ہم سب ہی گروہی تعصبات کے شکار ہو کر۔۔۔اسی ذہنیت کا شکار ہو چُکے ہیں۔
پُرانوں کے جھوٹے و چور ہونے پر ذرّہ برابر شک نہیں۔ اور موجودہ والے کے جھوٹے ، اور اپنے گرد چوروں کو اکٹھا کرکے علی بابا بننے میں بھی کوئی شک نہیں۔ یقیناً چوروں کی سرداری کا کچھ نہ کچھ “ثواب” تو حضرت علی بابا کو پہنچتا ہو گا۔ لیکن فی الحال صرف قیاس ہی کیا جاسکتا ہے۔
وہ کفن چور کا قصہ تو یاد ہو گاہی نا۔۔۔
کہتے ہیں کسی قبرستان کا کوئی گورکن تھا وہ لوگوں کے کفن چوری کیا کرتا تھا، جب انتقال کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹے کو بلایا اور وصیت کی کہ؛ “بیٹا! دیکھ تیرے باپ نے ساری زندگی لوگوں کے کفن چوری کیے ہیں۔ میرے دنیا سے چلے جانے کے بعد کوئی کام ضرور ایسا کرنا کہ لوگ تیرے باپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں”۔
بیٹے نے باپ کی وصیت کو پلے باندھ لیا۔ باپ کے انتقال کے بعد بیٹے نے بھی کفن چوری کرنا شروع کر دیے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اب وہ مردوں کی بے حرمتی بھی کرنے لگا۔ لوگ تنگ آگئے اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ “تجھ سے اچھا تو تیرا باپ تھا۔ کم ازکم کفن ہی چوری کیا کرتا تھا۔ مردوں کی بے حرمتی تو نہیں کرتا تھا”۔ اس طرح اس نے اپنے باپ کو اچھے الفاظ میں یاد کروا لیا”۔
کیا عوام ان نئے کفن چوروں کے “کارناموں” کی وجہ سے پُرانے کفن چوروں کو یاد نہیں کرنے لگے ہیں ؟ اور علی بابا کے بھونپو اپنی نااہلی کی تاویل تین سالوں کے بعد بھی سارقان قدیم کو الزام دیکر نہیں کر رہے؟ اپنے اہل طائفہ ہی کو خوش کرسکتے ہیں۔۔ سڑکوں پر تو بچّے تو بچّے اب بڑے بھی چیخ پڑے ہیں کہ “بادشاہ ننگا” ہے۔
وہ سب سنتے ہیں، وہ سب جانتے ہیں
ویسے علی بابا اور اس کے چالیس چور اتنے احمق نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ “کہتی ہے خلق خدا ان کو غائبانہ کیا”۔ لاھور کے حلقہ NA133 کے ضمنی انتخاب سے فرار۔پارٹی تو صرف ٹکٹ ہی جاری کرتی ہے۔ خرچہ تو اُمیدوار ہی نے کرنا ہوتا ہے۔ وہ بھی ہواؤں کے مخالف کشتی چلا کر۔ اپنا پیسہ و توانائی کیوں ضائع کرے۔ پھر وہی ہوا جو سب نے دیکھا۔
خیبر پختون خواہ جو کہ 2018 میں ان کا مضبوط ترین قلعہ ہے۔ صوبہ کے بلدیاتی انتخابات میں معقول تعداد میں اپوزیشن کے اُمیدواروں کی بلامقابلہ کامیابی آنے والے وقت کی نشانی ہے۔
پر بھونپوؤں کو کیا۔ “نوکری کی تو نخرہ کی”۔ ویسے بھی بھونپو بننے کی والین شرط ہی دل دماغ و ضمیر کلائنٹ کے ہاتھوں فروخت کرنا ہے۔ اور گاہک کی حسب منشاء ساز بجانا ہے۔ اب سوال اس قوم اور قوم کے بھونپوؤں سے ہے۔
1. کیاواقعی ان کے نصیب میں کفن چوروں کی وکالت رہ گئی ہے؟
2. کیا ہم تمام کفن چوروں سے برات کا اعلان نہیں کرسکتے ؟
3. کیا ہمیں اپنے رویوں کے بارے میں خود احتسابی کی ضرورت نہیں ہے؟
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا