پاکستانی افغانستان کو اپنی دفاعی گہرائی میں بدلنے کے نظریات بھول کر خود کو نئے حالات کے ساتھ ہم آہنگ کر رہے تھے لیکن وادیِ پنج شیر کی جنگ کے دوران بھارتی میڈٰیا اور سابق جرنیلوں کے احمقانہ پروپیگنڈے سے صورت حال بدلتی دکھائی دیتی ہے اور لگتا ہے کہ افغانستان کو پاکستان کی دفاعی گہرائی میں بدلنے کا خواب ایک بار پھر شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے۔ ممتاز تجزیہ کار جناب اعظم علی نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں جاری پروپیگنڈے کی روشنی میں اس صورت حال کا چشم کشا جائزہ لیا ہے۔ ادارہ
۲۰۱۰ کے دوران بعض امریکی مقتدر حلقوں میں یہ بات چل رہی تھی کہ جب بھی امریکہ افغانستان سے جائے گا تو جنوبی افغانستان کے پشتون علاقے طالبان ہی کے زیرنگین ہوں گے۔ لیکن اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ شمالی و مغربی افغانستان ان کی جہادی انتہا پسندی کا شکار نہ بن جائیں افغانستان (غیر رسمی طور پر عملی طور پر ) تقسیم پر غور کیا جاسکتا ہے (شنید ہے کہ پنجشیر کے احمد مسعود کے مطالبات بھی اس سے ملتے جُلتے تھے جن میں مرکز میں بڑے حصے کے ساتھ پنجشیر میں مکمل خود مختاری وغیرہ شامل تھی)۔
اس وقت کے بھارت میں متعین امریکی سفیر رابرٹ بلیک ویل (جو بھارت نوازی کے لیے مشھور تھے) بھی اس رائے کے حامی تھے۔اُنہوں نے اپنے 2010 کے فائنینشل ٹائمز کے مضمون میں لکھا “کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ طالبان اس ڈھیلی ڈھالی تقسیم کو قبول نہیں کریں گے اور پورے ملک پر قبضہ کرنے کے کوشش کریں گے۔
اس کے لئے امریکی ،اتحادی مل کر افغان فوج کو اس قابل کریں کہ وہ اسے روک سکیں، لیکن اس کے لئے امریکی فوج کا طویل عرصے قیام ضروری ہے، جو کہ ناممکن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ (افغانستان کی) تقسیم کی وجہ سے پاکستان آرمی بھی افغان طالبان کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرلے، جس میں اب تک کئی امریکی حکومتیں ناکام رہی ہیں”۔
اب پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکاہے، امریکی و اتحادی افواج افغانستان کی تقسیم کے خواب کو عملی جامہ پہنچائے بغیر گھر چلی گئیں اور افغان فوج امریکہ کا 85 بلین ڈالر کا ٹیکہ لگنے کے باوجود ہوا میں تحلیل ہو گئی۔
گذشتہ چند دنوں سےافغانستان میں طالبان کے برق رفتار قبضے، جس میں انہیں صرف پنجشیر میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، پنجشیر کی جنگ کے دوران بھارتی میڈیا کے روئیے نے یہ سوال کھڑا کردیا ہے کہ کیا بھارت رابرٹ بلیک ویل کے اس خواب کی تعبیر کے لئے امریکہ کی بجائے خود کو بطور متبادل اس خطّے کے پولیس مین کے طور پر کھڑا کرنے کی کو شش کررہا ہے؟
بھارتی پروپیگنڈہ ماہرین جنگ میں ہٹلر کے پروپیگنڈا چیف جوزف گوئیبلز کے اس اصول “جھوٹ مسلسل دُھراتے رہنے سے اسے سچ تسلیم کرلیا جاتا ہے” پر ایمان رکھتے ہیں (صرف بھارتی ہی نہیں کچھ ہمارے ہاں بھی گوئیبلز کے پیروکار کم نہیں خیر وہ ایک الگ موضوع ہے)۔
۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان میں بھارتی جارحیت سے پہلے بھی بھارت نے میڈیا کے زور پر پہلے زمین تیار کرنے کے لیے معصوم بنگالیوں پر پاکستانی افواج کے ظلم و ستم کی داستانوں کو دنیا بھر میں مشتہر کیا۔ اس کے بعد ان کی امداد کے بہانے بھارتی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا۔ اس کے بعد جو ہوا تاریخ کا حصہ ہے۔
اس وقت بھارتی و پنجشیری مزاحمت کے حامی میڈیا کے سامنے پاکستانی فوج و ایئرفورس کو طالبان کی پنجشیر میں حاصل کردہ فتح کا مکمل ذمہ دار قرار دے کر افغانستان میں فوجی مداخلت کا الزام عائد کررہے ہیں۔
اس سلسلے میں انتہائی مضحکہ خیر پروپیگنڈے کا سیلاب آگیا ہے جس میں مشھور شو بزنس کی شخصیت و ممبر قومی اسمبلی عامر لیاقت کی کمانڈو کی وردی میں فوٹو شاپ شدہ لاش کو پاکستانی کمانڈو کی لاش کی تصویر کے طور پر پھیلایا جارہا ہے۔
اسی طرح مختلف طیاروں و ہیلی کاپٹروں کی پُرانی تصاویر کو انٹرنیٹ سے اُٹھا کر پنجشیرمیں تباہ شدہ یا حملہ آور پاکستانی جہاز کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، ایک جہاز کو مبینہ طور پنجشیر کی وادی میں نچلی پرواز کرتی ہوئی ویڈیو اس لحاظ سے مضحکہ خیز تھی کہ ویڈیو میں جو طیارہ دکھایا گیا وہ F-15 تھا جو کہ پاکستان ایئرفورس کے پاس ہے ہی نہیں۔ مزید تحقیق سے پتہ چلا یہ وہ امریکی F-15 اوو ویڈیو برطانیہ کی فوجی مشقوں کے دوران بنائی گئی۔انتہا یہ ہے کہ ایک مبینہ ویڈیو جس کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ وہ پاکستانی طیارے سے فائر ہونے والے راکٹوں کی ہے بھی آخر میں ایک ویڈیو گیم کا ٹوٹا نکلی ۔
اگر یہ سب کچھ صرف سوشل میڈیا کے کارنامے ہوتے تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن بھارتی الیکٹرونک میڈیا و ٹیلیویژن بھی ان تصاویر و ویڈیوز کو پاکستان کے خلاف ثبوت کے طور پر پیش کررہا ہے۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ بھارتی میڈیا کم از کم بین القوامی معاملات میں عموماً سرکاری لائن کے مطابق ہی چلتا ہے، اس لئے اچانک افغانستان میں پاکستانی فوج پر الزام کی ابتدا بھارتی میڈیا کے غیر سنجیدہ کردار ریٹائرڈ میجر جنرل بخشی نے شروع کی اور وہی الزامات تقریباً تمام بھارتی چینلوں نے اور پنجشیری مزاحمت کی شوشل میڈیا ٹیموں نے دُھرانا شروع کردئیے۔
اس بات کا امکان ہے کہ افغانستان میں پاک آرمی و ایئرفورس کی مداخلت کے بارے میں یہ جعلی تصاویر و ویڈیوز کا طوفان بھارتی و بین القوامی رائے عامہ کو بھارت کی براہ راست فوجی مداخلت کے لئے ذہنی طور پر تیار کیا جارہا ہے۔
بھارتی میڈیا کے زید حامد ریٹائرڈ میجرجنرل بخشی طالبان پنجشیر کے محاصرے کے آخری چند دنوں میں یہ پھلجھڑی چھوڑی کہ پاکستان نے اسٹوڈینٹس کی مدد کے لیے کمانڈوز کی تین بٹالین چند ہیلی کاپٹر اور توپخانے بھیجا ہے۔
پھر پنجشیریوں کے بارے میں زمین آسمان کے قلابے کہ ۱۹۸۰ کی دہائی میں روس نے اپنی فوج کے بہترین تین ڈیویژن تقریباً 30000 فوجی اور ایئرفورس کی بے تحاشہ بمباری کے ذریعے پوری وادی کوتہس نہس کردیا پھر بھی پنجشیر پر قبضہ نہیں کرپایا۔اس لئے جب روس کی بہترین فوج نہ چل سکی تو پاکستانی فوج کیا بیچتی ہے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ پنجشیر فتح ہو سکے۔
پنجشیر کی فتح کے بعد ہو وہ ، بھارتی میڈیا اور پنجشیری باغی پوری دینا میں روتے پھر رہے ہیں کہ انہیں پاکستان کی فوج نے شکست دی ورنہ طالبان کی کیا مجال تھی، احمق کہ ان کی زبان سے ہماری فوج کی بُرائی بھی درحقیقت تعریف بن گئی۔
کیا پنجشیر و بدخشاں و دیگر تاجک اکثریتی کو افغانستان سے الگ کر کے ، یاافغانستان ہی میں خود مختار ریاست بنانے کی تیاری ہورہی ہے؟
یاد رہے کہ ابھی تک بین القوامی طور افغانستان کی تسلیم شدہ حکومت وہی ہے جس کے قائم مقام سربراہ امر اللہ صالح ہیں ۔جب تک دنیا طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کرتی اس وقت تک امر اللہ صالح ان کی رسمی درخواست پر افغانستان میں کسی بھی کارروائی کا جواز بہرحال بھارت یا کسی بھی ملک کو حاصل ہے۔ ۱۹۸۸ میں مالدیپ میں بھارت نے مامون عبدالقیوم کی اپیل پر بغاوت کچلنے کے لئے اپنی فوج بھیجی تھی۔۔
ویسے تو زیادہ تر علاقائی طاقتیں سوائے تاجکستان کے پنجشیر پر طالبان کے حملے دوران خاموش تماشائی رہیں، ایران نے بھی پاکستان کی مبینہ مداخلت پر ردعمل سقوط پنجشیر کے اگلے دن دیا۔ لیکن افغانستان میں کسی بھی کارروائی کے لئے تاجکستان کی حمایت فیصلہ کُن ہوگی۔
بھارت نے یقیناً برطانیہ، روس اور امریکہ کے انجام سے سبق حاصل کیا ہو گا، زیادہ امکان یہ کہ پشتون اکثریتی علاقے جو طالبان کا گڑھ ہیں، پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے اپنی توجہ شمالی تاجک (ابھی تک ازبک علاقے پُرامن ہیں ورنہ وہ بھی) علاقوں کو افغانستان سے کاٹ کر ایک نیا “بنگلہ دیش” بنانے کی کوشش کی جائے گی، جہاں آبادی کی حمایت حاصل ہوگی اس لئے بعد میں گوریلا جنگ کا بھی خطرہ کم بھی ہوگا۔
تاجکستان میں بھارتی فضائی اڈہ
تاجکستان افغانستان کی سرحد پر ۲۰۰۲ بھارت نے فاخور ہوائی اڈا حاصل کرلیا تھا ۔ جس سے وہ پاکستانی سرحد کے انتہائی قریب اور کسی بھی جنگ کی صورت میں بھارت ایک نیا محاذ کھولنے کے قابل ہو گا پاکستان نے بھارت کو یہ ہوائی اڈّا بھارت کو دینے پر تاجکستان حکومت سے اعتراض کیا تھا جسے رد کردیا گیا۔اس وقت بھارتی فضائیہ نے یہاں پر روسی طیارے SU-30MK1 متعین کئے ہوئے ہیں۔ بھارت کسی بھی جنگ کی صورت میں یہاں سے افغانستان اور پاکستان میں آزادکشمیر ، گلگت بلتستان و پشاور پر باآسانی فضائی حملے کر ہماری فضائیہ کے لیے نیا محاذ کھول سکتا ہے۔
بھارت کے2002ء میں اس فضائی اڈّے کے حصول سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کئی دہائیوں سے افغانستان یا پاکستان میں یہاں سے کارروائی کے لئے تیاری کررہا ہے۔
تاجکستان کی اپنے ہم نسل تاجک افغانوں سے ہمدردی کوئی خفیہ امر نہیں، کم ازکم دو صوبوں تاجکستان کی سرحد سے ملحق بدخشاں اور اس سے ملحق پنجشیر میں تاجکوں کی اکثریت ہے۔ اینٹی طالبان افغان فوجی اور افغان فضائیہ کے فراری بھی وہاں پناہ لے رہے ہیں، اس لئے اگر بھارت نے کوئی کارروائی کرنے کی کوشش کی تو تاجکستان کو اعتراض ہونے کے امکانات کم ہیں ۔
بھارتی زید حامد میجر جنرل بخشی پنجشیر پر طالبان کے قبضے کے بعد سے تاجکستان سے پرواز کرکے آنے والے “نامعلوم” جہازوں کی رات کو طالبان پر بمباری کی کہانی سُنا رہا ہے جو بقول اس کے افغانستان سے فرار ہونے والے پائلٹ (کم از کم دو یا تین افغان پائلٹ و جہاز فرار ہو کر تاجکستان اترے تھے) بمباری کر کے واپس تاجکستان جارہے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ سوائے جنرل بخشی اور باغیوں کے ایک ٹوئیٹر ہینڈل جس نے انہیں آسمانی فرشتوں (sky angels ) کا نام دیا ہے کے علاوہ اس کارروائی کا کوئی اور ذکر سُنّے میں آیا۔
لیکن اگر تاجکستان سے واقعی ان نام نہاد “آسمانی فرشتوں “ نے کارروائی کی ہے تو وہ تاجک حکومت کی مرضی و اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی ۔ جنگی جہاز کو مشن کے لیے بھیجنا تیار کرنا ایک پیچیدہ کام ہے اس کے لئے گراؤنڈ ٹیم کے بغیر کچھ نہیں کیا جاسکتا ۔جو موجودہ صورت حال میں بھارت یا تاجکستان ہی فراہم کرسکتا ہے۔
اب تک اگر ایسی کارروائی نہ بھی ہوئی ہو تو اس کا واضح امکان ہے کہ مستقبل میں ان کارروائیوں کے لئے زمین تیار کی جارہی ہے۔
اس بات کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا کہ مشرقی پاکستان کی طرح جب بھارتی فوجی مکتی باہنی کے روپ میں پاکستانی افواج کا مقابلہ کررہے تھے۔ اب بھارتی فضائیہ رات کے اندھیر ے باغیوں کے نام کو استعمال کرکے خود کارروائیاں کرے۔ چونکہ موجودہ افغان حکومت کے پاس کوئی اچھا اینٹی ائرکرافٹ سسٹم نہیں، اس لحاظ سے اس کارروائی میں کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ طالبان سوائے پنجشیر کے پورے افغانستان پر باآسانی قابض ہو گئے، پنجشیر پر بھرپور جنگ کے بعد ہونے والا قبضہ مکمل طور پر مستحکم نہیں ہے، کم از کم کچھ عرصے تک باغی پہاڑوں سے کارروائی کرتے رہیں گے۔اس صورت میں طالبان بھی صورت حال کے معمول پر آنے تک وہاں پر بڑی تعداد میں اپنی فوج تعینات کرنے پر مجبور ہوں گے۔
طالبان کی فوج کی نفری 75,000 بتائی جاتی تھی ، اب ممکن ہے بڑھ کر 100,000 کی ہو گئی ہو، اس کا ایک بڑا حصہ پنجشیر میں رکھنے کا مطلب یہ ہے انہیں کسی بھی اندرونی شورش کی صورت میں افرادی قوت کی شدید قلت کا سامنا پیش آسکتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے نئی انتظامیہ نے سابقہ حکومت کے ساتھ کام کرنے والے افغان فوجیوں کو بھی طلب کرلیا ہے۔ لیکن ان کے بارے میں اعتماد کے فقدان کی وجہ سے عملی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
اس سے پہلے تو صرف بھارتی ہی ہماری فوج کے پنجشیر آپریشن کے بارے میں بارے میں واویلا کررہے تھے، اب فوکس ٹی وی کے بنجمین ہال نے بھی امریکی CENTCOM کے ذرائع کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوج نے کمانڈوز سے بھرے 27 ہیلی کاپٹر بھیجے تھے اور اس کے ساتھ ہی پاکستانی ڈرون کے ذریعے بھی حملے کیے گئے ۔
ضروری نہیں کہ بھارتی اور فاکس نیوز یہ کا نامہ نگار درست کہ رہے ہوں ۔ اگر درست بھی ہو تب بھی ایک لحاظ سے ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ جس مقام کو روس اپنی فوج کے تین بہترین کمانڈوز ڈیویژن اور بھرپور فضائی بمباری کے باوجود قبضہ نہیں کرسکے (بقول بھارتی ) وہاں پاک فوج ایس ایس جی کی دو یا تین بٹالین ایک توپخانے کے بیٹری اور چند ڈرون کے ذریعے کامیاب ہو گئے۔
لیکن اس صورت میں حیران کن بات یہ ہوگی کہ 1980 کی دہائی میں پاک فوج کی قیادت کے دیکھے ہوئے اسٹریٹجک ڈیپتھ یا تزویراتی گہرائی کا خواب، جو بعد میں آنے والی فوجی قیادت نے اپنے ذہنوں یا خوابوں سے کھُرچ دیا تھا۔ اب حالات کے ہاتھوں دوبارہ زندہ حقیقت بن کر سامنے آسکتا ہے۔
جب تک افغانستان پر طالبان کی حکومت نہیں تھی اور ہمارا مفاد ان کی حمایت میں تھا معاملات مختلف تھے۔ خفیہ جنگوں میں دھوکہ اور جھوٹ بڑی حدتک قابل قبول سمجھا جاتاہے۔ لیکن جھوٹ و دھوکہ کو آٹے میں نمک اور انتہائی ضرورت کے تحت استعمال کرنا سے مستقل بلا ضرورت جھوٹ بولنے والے معاشرے اور اقوام عالم میں اپنی عزت و ساکھ سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اب جبکہ افغانستان میں ہماری حمایت یافتہ حکومت آہی گئی تو موجودہ صورتحال میں پاکستان و افغانستان دونوں ممالک کے مفاد میں ہے کہ معاملات کو درست اور شفاف طریقے سے حل کرکے دونوں ممالک باہمی سیکیورٹی کے معاہدے سے منسلک ہو کر کسی بھی بیرون ملکی جارحیت کے خلاف پاکستانی فوج و فضائیہ کی مدد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ افغان فوج کے یونٹوں کو پروفیشنل ماحول میں تربیت فراہم کرسکیں۔
یہ تو افغانستان اور اس کی حکومت کو ہم سے ملے گا لیکن اب بات پر بھی بات ہونی چاہیے کہ اس سارے کھیل میں ہمارا کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔کیا صرف بھارت کو کھیل سے باہر کرنے اور واخان کی پٹی سے تجارت کے لیے چالیس سال کی۔ جنگ لڑی گئی؟؟
پوری قوم کو یرغمال بنایا گیا۔۔ ہمارے 80000 ہزار سویلین و فوجی شھید ہوئے ۔میں نہیں کہتا کہ غلط کیا گیا ۔۔ لیکن قوم کو پتہ چلنا چاہیے کہ ان ساری قربانیوں کا ملک و قوم کو کیا فائدہ ہوا ۔
۱۹۴۷ سے افغانستان میں کبھی بھی پاکستان کی حامی حکومت نہیں رہی، لیکن کوئی بھی افغان حکومت و فوج اتنی طاقتور نہیں تھی کہ مختلف باغی گروپوں کی سرپرستی کے باوجود وہ ہمارے لیے خطرہ نہیں بن سکتے، اس لئے ہماری حکومتوں اور اسٹینلشمٹ نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ رکھا تھا ۔یہ صورت حال 1979 میں افغانستان میں روسی فوج کی آمد کے بعد تبدیل ہو گئی۔ اس وقت سے اب تک ہم افغانستان کی جانب سے آنکھ بند کرکے سکون کی نیند لینے کے قابل نہیں رہے۔
آخری بات یہ ہے کہ اس ساری جنگ میں پاک افواج اور ان کے خفیہ اداروں ہی نے شاندار کردار انجام دیا تھا ۔ جس وقت وہی دشمن جو چند دنوں پہلے واویلا کررھا تھا کہ یہاں روسی فوج کے تین بہترین ڈویژن بھرپور ائیرسپورٹ (carpet bombming) کے باوجود ناکام رہا ،بقول اس کے پاکستان کی دو یا تین کمانڈو بٹالین نےچند توپوں ہیلی کاپٹروں کی مدد سے فتح کرلیا۔ ہمیں نہیں پتہ اس میں اس میں سچ کتنا ہے لیکن درحقیقت دشمن کی چیخیں سُن کر ہمارا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے۔ہمیں اپنی فوج پر فخرہے۔کاش وہ خود کو پیشہ ورانہ معاملات تک محدود رکھیں۔