طالبان کے ہاتھوں مارے جانے سے دو دن قبل ابو عمر خراسانی، جو ایک وقت میں افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کا سربراہ تھا، افغانستان کی جیل کے گندے سے کمرہ ملاقات میں آرام سے کرسی پر بیٹھا اپنے ممکنہ جلّادوُں کا منتظر تھا۔
خراسانی ! طالبان کی کامیابیوں کو تبدیلی کا شگون سمجھ رہا تھا، کہ سالہا سال سے دونوں تنظیموں نے (طالبان و اسلامک اسٹیٹ ) افغانستان کو کُفّار سے پاک کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
“اگر وہ واقعی اچھے مسلمان ہیں تو مجھے رہا کردیں گے” اس نے وال اسٹریٹ جرنل کو انٹرویو کے دوران بتایا۔
گذشتہ ہفتے طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد، جیل سے سینکڑوں قیدیوں کو رہا کردیا، لیکن خراسانی اور اس کے دہشت گرد گروہ کے آٹھ ممبران کو قتل کردیا۔
ا طالبان امریکی اتحادیوں سے جنگ تو لڑ رہے تھے اس کے ساتھ ہی وہ اپنے مخالف اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے ساتھ جنگ بھی کررہے ہیں۔
ایک طرف طالبان جنہوں نے القائدہ کے بچے کھُچے افراد کو اپنے ساتھ ضم کرلیا، دوسری طرف اسلامک اسٹیٹ کی افغانستان برانچ جو ISIS-K کے نام سے جانی جاتی ہے، اس کا افغانستان کو مشرق وسطی کی وسیع تر خلافت کا حصہ بنانا ہے۔
دفاعی حُکام کے مطابق بعض اوقات طالبان کو ( ISIS-K سے جنگ میں) دیگر ممالک اور امریکہ و اتحادیوں کی مدد بھی حاصل ہوئی اور وہ اس جنگ میں کامیاب رہے۔ اسلامک اسٹیٹ اپنی پناہ گاہوں سے نکل گئی اور اسکے لڑاکے منتشر ہو کر چھُپ گئے، امریکی فوجی انخلاء کے بعد طالبان کو بھی پورے ملک میں قبضہ کرنے میں کوئی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
کل بروز جمعرات کو کابُل ائرپورٹ کے آس پاس جہاں طالبان و امریکی فوجی ملک سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والے افغان و غیر ملکی شہریوں کو تحفظ فراہم کررہے تھے، ہجوم کے درمیان ہونے والے شدید دہماکے اس بات کی یاددہانی ہے کہ خونریز جنگ اب بھی باقی ہے۔
پینٹاگون کے مطابق ان دہماکوں میں کم از کم 90 افغان شھری اور 13 امریکی شھری ہلاک ہو چکے ہیں، امریکی حُکّام نے ان دہماکوں کا الزام اسلامک اسٹیٹ کی علاقائی تنظیم ISIS-K پر لگایا، اور اسلامک اسٹیٹ نے بھی اپنی عماق نیوز ایجنسی کے ذریعے شوشل میڈیا پر ان دہماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اسلامک اسٹیٹ کی افغانستان میں مسلسل موجودگی کی بناء پر اس بات کا امکان ہے کہ طالبان دیگر ممالک بشمول امریکہ سے تعاون حاصل کر سکیں گے کہ ISIS کو بڑا خطرہ سمجھا جارہا ہے۔
روس، چین اور ایران طالبان کو افغانستان میں استحکام کے لیے اہم عنصر تصور کررہے ہیں اسی وجہ سے ان ممالک نے امریکی انخلاء کے بعد کابُل میں اپنے سفارتخانے کھُلے رکھنے کا فیصلہ کیا۔
کل کے دہماکوں کے بعد امریکی میرین کور کے جنرل فرینک میکنزی جو امریکی CENTCOM کے کمانڈر بھی ہیں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ ایرپورٹ پہنچنے والے افغان باشندوں کی چیکنگ و اسکریننگ کے لیے طالبان پر انحصار کررہا تھا ۔“ہم اپنی حفاظت کے لئے ممکنہ حدتک طالبان کو استعمال کررہے ہیں” اُنہوں نے کہا۔
جب 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اسوقت طالبان کے اتحادی نہ ہونے کے برابر تھے۔ انہیں دہشت گرد تنظیم القائدہ کے پشت پناہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا اور علاقائی طاقتیں بشمول ایران اور روس بھی ان کے مخالف تھے۔
بظاہر طالبان کے القائدہ سے اتحاد کے باوجود ان کے درمیان ایک غیر محسوس تناؤ تھا، بہت سے طالبان ۱۹۹۰ کی دہائی سے اُسامہ بن لادن کے افغانستان کو اپنی (بین القوامی) سرگرمیوں کا مرکز بنانے پر معترض تھے۔
طالبان کی پہلی حکومت کے 2001 میں خاتمے کے بعد ایک کمپیوٹر وال اسٹریٹ جرنل کے ہاتھ لگا تھا جس سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ القائدہ کے ممبران اپنے افغان اتحادیوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے (ویسے عربوں میں یہ مرض تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلا آرہا ہے) انہیں جاہل اور قرآن نا سمجھنے والے کہتے تھے۔طالبان کے ممبران بھی القائدہ کو اپنے مغرب کے ساتھ اختلافات کو اضافے اور ملک کی بین القوامی تنہائی کی وجہ سمجھتے تھے۔(مُلا عمر کے آخری دنوں کے بارے میں بھی بیٹّی ڈیم کی کتاب میں اس قسم کے اشارے دئیے گئے تھے)۔
القائدہ ان افغانستان نامی کتاب کی مصنفہ این سٹینرسن کے مطابق “۱۱ستمبر کے حملوں نے ان دونوں تنظیموں کے درمیان میں شگاف میں پیدا کردیا، دونوں القائدہ و طالبان کی قیادت کو روپوشی اختیار کرنی پڑی۔ بظاہر طالبان کے قائد مُلا عمر کو اس حملے کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی، روپوشی کے دوران دونوں کے تعلقات میں سرد مہری آگئی تھی،امریکی فوجیوں کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی شھادت کے بعد امریکہ کے ہاتھ لگنے والے کاغذات میں اسامہ اور ملا عمر کے درمیان رابطے کی شھادت نہیں ملی”۔
طالبان اور القائدہ کے درمیان تعلق اس وقت گہرے ہوئے جب وہ مشترکہ طور پر امریکی و دیگر قابض افواج کے خلاف جنگ کررہے تھے۔ ایک سابق طالبان کمانڈر جو امریکی فوج اور افغان حکومت کے خلاف لڑ چُکا ہے نے بتایا کہ طالبان کو 2001 میں (امریکی قبضے کے بعد ) سنبھلنے میں کئی سال لگے لیکن 2004 میں القائدہ نے امریکی افواج پر اپنا پہلا کامیاب حملہ صوبہ غزنی میں آئی ای ڈی کے زریعے کیا۔
طالبان و القائدہ نے2009 میں اپنی کمان کو اکٹھا کرنا شروع کردیا جس میں عموماً القائدہ کے ممبران طالبان کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ ان دونوں گروپوں کی مشترکہ فورس نے افغان حکومت اور اتحادی افواج کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع کردیا جن مین بموں کے حملے، چھاپہ مارجنگ اور ٹارگیٹ قتل کرنا شامل ہیں۔
لیکن 2015 میں حالات تبدیل ہونے لگے جب القائدہ پیچھے ہٹنے لگی اور اسلامک اسٹیٹ ISIS نام کی نئی تنظیم سامنے آئی، اس نئی تنظیم نے تیزی سے اپنا نام پیدا کرنا شروع کردیا، شام و عراق میں علاقہ قبضہ کرکے لڑاکوں کو دعوت دی کہ خراسان نام کی ریاست بنائیں جو کہ ایک تاریخی علاقہ جس میں افغانستان، ایران اور سابقہ روسی ریاستوں کے علاقے شامل تھے۔
اس نئے گروپ میں طالبان کے ناراض اراکین سے لیکر وسطی و جنوبی ایشیا تک کے لڑاکے شامل ہو گئے، ان میں سے کچھ نے شام و عراق کے لئے خود کو رضاکار کے طور پر پیش کیا، افغانستان میں بھی انہوں نے دو علاقوں میں اپنا اثر رسوخ قائم کیا، ایک مشرقی صوبے ننگرہار میں اور دوسرا شمالی صوبے جوزجان میں۔
لیکن اس نئے گروپ کی آمد طالبان کو ناگوار گذری، وہ اسے ایک رُکاوٹ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ ISIS کا ایک بین القوامی ایجنڈا ہے جبکہ طالبان افغانستان سے آگے نہیں دیکھنا چاہتے، ان کی افغانستان سے باہر کے اسلامی گروپوں کی مدد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ابو عمر خراسانی نے اپنی موت تھوڑا قبل ایک انٹرویو میں بتایا۔
داعش کی قیادت اور مقاصد دونوں خود مختار ہیں خراسانی نے ISIS کا متبادل نام استعمال کرتے ہوئے بتایا۔ “ہمارا ایجنڈا پوری دنیا کا ہے، اس لئے جب کوئی سوال کرتا ہے کون ہے جو اسلام اور پوری اسلامی دنیا کی نمائندگی کر سکتا ہے؟ تو بلاشبہ ہماری ہی طرف متوجہ ہوگا۔”
دوسری اقوام بھی اب طالبان کو ISIS کے عزائم کے مقابلے میں دفاعی مورچے کی نظر سے دیکھنے لگی ہیں۔
بروس ہوفمین، ڈائریکٹر سیکیورٹی اسٹڈیز جارج ٹاؤن یونیورسٹی نے کہا کہ “اس سلسلے میں بے تحاشا فکر کی جارہی ہے، اچانک ہی طالبان کے ساتھ مشترکہ مفادات میں ساتھ کام کرنے خواہش سامنے آرہی ہے۔ اب کچھ لوگ کہنے لگے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ وہ گروپ ہے جس سے بات کی جاسکتی ہے۔
حالانکہ روس رسمی طور پر طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے لیکن گزشتہ پانچ سالوں سے زیادہ ان سے مذاکرات کررہا ہے۔ماسکو اسٹیٹ یونیورسٹئ کے پروفیسر اور وسطی ایشیا کے ماہر ایوان سفرانچک کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ISIS کی آمد نے ان روابط کو بڑہانے کی ضرورت کو مزید بڑہاوا دیا۔
امریکہ نے روس پر طالبان کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام لگایا جسے روس نے مسترد کردیا، امریکی انٹیلیجنس کے مطابق ایران نے بھی طالبان کو اسلحہ فراہم کیا۔ چین نے کچھ عرصے پہلے ہی طالبان کے اعلی سطح کے وفد کی میزبانی کی ہے۔
خراسانی کا کہنا ہے کہ جوں ہی ISIS-K نے افغانستان میں برانچ کھولی وہ اس میں شامل ہو گیا اور اس وقت کے اعلی ترین عہدے ریجنل گورنر ، جنوبی ایشیا و مشرق بعید کا ذمہ دار تھا۔
اسلامک اسٹیٹ عراق و شام کی طرح یہ گروپ افغانستان میں بھی درندگی کے ساتھ قتل کرنے ویڈیوز، عام شھریوں پر حملے کرنے اور نئے مقبوضہ علاقوں کے افراد جو ان کی مخالفت کریں پر انتہا ظلم کرنے کی وجہ سے بدنام ہوگیا۔
ننگرہار جہاں خراسانی ISIS کی جانب سے گورنر تھا وہاں پر اس گروپ نے گاؤں کے بزرگوں اور مقامی افراد کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں ایک پہاڑی پر دہماکہ خیز مواد کے ڈھیر پر بٹھا کر اُڑا دیا اور اس کی ویڈیو بھی تقسیم کی گئی۔ خراسانی کا کہنا ہے کہ وہ سارے افراد جُرائم پیشہ تھے۔
اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ISIS -K کے حملوں کا اکثر طالبان کو فائدہ ہوا، اس نے بتایا کہ جلال آباد کی جیل پر ISIS-K کے حملے میں چار خود کش بمبار اور 11 مسلح افراد استعمال کیے گئے اور سینکڑوں قیدیوں کو رہا کرایا گیا جو دونوں طالبان و ISIS سے تعلق رکھتے تھے۔
طالبان و اسلامک اسٹیٹ کے درمیان براہ راست لڑائی 2017 میں جوزجان میں ہوئی، جب ایک طالبان کمانڈر اور اسکے لڑاکا نے ISIS کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی بیعت کرلی اور ان کے ساتھ ایک ازبک گروپ اسلامک مومینٹ آف ازبکستان بھی مل گیا انہوں نے ملکر صوبے کے دو وادیاں قبضہ کرلیں وہاں ISIS کا جھنڈا لگا دیا ،خراسانی نے بتایا۔
اس بعد جو لڑائی ہوئی کے بارے میں اس کے بیان کی تصدیق امریکیوں سے بھی ہوئی، اس کے مطابق امریکی فوج ، افغان حکومت و طالبان نے چند ماہ کی لڑائیوں کے بعد وہاں ISIS کو ختم کردیا، ان کے سیکڑوں لڑاکوں نے اگلے سال حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔
ننگرہار میں بھی اسی طرح، امریکی فوج، افغان حکومت اور طالبان کے حملوں نے انہیں منتشر کردیا۔ خراسانی نے بتایا کہ وہاں پر امریکہ نے اپنا سب سے بڑا بم MOAB (جسے mother of all bomb یعنی بموں کی ماں کہا جاتا ہے) یہ امریکی اسلحہ خانے کا سب سے بڑا روایتی بم ISIS کے زیرقبضہُ غاروں کے سلسلے کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔
ہمارے خلاف کسی نہ کسی طرح سب ہی نے طالبان کا ساتھ دیا، اس لئے اس میں کوئئ خفیہ راز نہیں ہے کہ اچانک ہی وہ کیسے فتح یاب ہونے لگے۔خراسانی نے کہا۔
امریکہ نے دعوی کیا کہ MOAB کے زریعے انہوں نے غاروں کے سلسلے میں 90 لڑاکوں بشمول کمانڈروں کو ماردیا لیکن خراسانی نے اس کی تردید کی اور کہا کہ اس وقت وہ سارے غار خالی کرچکے تھے۔
اسلامک اسٹیٹ کے آج کے نئے بین القوامی دشمن کی حیثیت سے اُبھرنے کی وجہ سے طالبان کی بین القوامی سفارتی کوششوں کو تقویت ملی، کہ بطور گروپ وہ کئی سالوں سے خود پر لگے دہشت گردی کے داغ کو اُتارنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے سابقہ عہدےدار نے کہا۔
امریکہ نے طالبان سے دوحہ میں مذاکرات کے ذریعے بین القوامی قبولیت کی پیشکش کی اس کے نتیجے میں گذشتہ سال 5,000 طالبان قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی اور ان میں سے زیادہ تر میدان جنگ میں لوٹ کر طالبان کی افرادی قوت میں اضافے کا سبب بنے۔ سابقہ عہدے دار نے کہا۔
دوہا میں ہونے والے معاہدے میں طالبان نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ (افغانستان سے) کسی بھی لڑاکا گروپ کو مغربی ممالک میں حملے سے روکیں گے۔
خراسانی نے بتایا کہ وہ گذشتہ سال ننگرہار چھوڑ گیا تھا اوت بچے کھُچے اسلامک اسٹیٹ کے لڑاکے بھی افغانستان میں منتشر ہو گئے تھے۔ مئی 2020 میں وہ امریکی و افغان فوجیوں کے ہاتھوں کابل کے نواح کے ایک گھر سے گرفتار ہوا۔
عدالت نے اسے سزائے موت اور 800 سال قید کی سزا سُنائی لیکن جلّاد سے پہلے وہ طالبان کے ہتھے چڑھ کر اپنے انجام کو پہنچا۔