صاحب تحریر سنگاپور کےریٹائیرڈ سفارتکار اور نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے ایشیا ریسرچ انسٹیوٹ کے ممتاز (distinguished) فیلو ہیں۔ جنوری 2001 سے مئی 2002 تک اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے صدر بھی رہے ہیں۔
امریکہ دنیا کا کامیاب ترین ملک ہے لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ اپنی غیرملکی مہمات میں کمبوڈیا اور ویت نام سے لیکر افغانستان اور عراق تک۔۔ اتنا خون و پیسہ خرچ کرنے کے باوجود اس بُری طرح نام رہا؟
امریکی ان سوالات کے جوابات افراد و واقعات میں تلاش کرتے ہیں لیکن درحقیقت ممکنہ طور پر گہری بنیادی خامیاں ہیں جو ان ناکامیوں کا سبب بنی، یہ وجوہات تین C کنٹرول، کلچر اور کمپرومائیز میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔
امریکی معاشرے کی سب بڑی خصوصیت ان کا کسی کام کو ناممکن نہ سمجھنے کا جذبہ ہے، جب امریکی کسی بھی مشکل کام کو کرنے فیصلہ کرلیتے ہیں جیسا کہ چاند پر انسانوں کو بھیجنا، وہ معاملات پر مکمل کنٹرول حاصل کرکے اپنی پوری توانائی اس پر لگا دیتے ہیں۔ یہ امریکی سرزمین پر تو معجزاتی طور پر کام کرتا ہے لیکن دوسرے ممالک میں تباہ کن ناکامی کا سبب بنتا ہے۔
مجھے پہلے C یعنی کنٹرول کی جھلک 1973 میں اس وقت نظر آئی جب میں نوجوان اور غیر شادی شدہ تھا اور جنگ زدہ کمبوڈیا میں سنگاپور کےسفارتخانے میں تعینات تھا۔اور میری ایک نوجوان امریکی سفارتی اہلکار لڑکی سے دوستی ہو گئی۔
اس کا کام بہت آسان تھا، ہر صبح اسے واشنگٹن سے کمبوڈین معیشت کے معاملات کے بارے میں ہدایات آتی تھیں اور وہ یہ ہدایات خود جاکر کمبوڈیا کے وزیر برائے معیشت کو دے آتی تھی۔ چونکہ واشنگٹن میں دنیا کے بہترین ماہرین معاشیات ہیں اس لئے اس کا جواز تو بنتا ہے لیکن اس بیساکھی نے کمبوڈین حکومت کو اپنے معاملات سنبھالنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ امریکہ کے وہاں سے نکلتے ہی بیکس و لاچار حکومت گر گئی۔
ایسا ہی افغانستان میں ہوا جب تک امریکی کمانڈر و فوجی 300,000 کی افغان فوج کے ساتھ لڑا رہے تھے افغان فوج کی کارکردگی 75,000 طالبان کے مقابلے میں بُری نہیں تھی، لیکن کمبوڈیا کی طرز پر افغان فوج کا اپنے جنگی معاملات پر کوئی کنٹرول نہیں تھا سارے فیصلے امریکی کرتے تھے، اس لئے جیسے ہی امریکہ نے وہاں اپنا کنٹرول چھوڑا پورا ڈھانچہ منہدم ہوگیا۔
مستقبل کے مورخین افغانستان کے موضوع پر اس حیران کن تضاد پر بات کریں گے کہ ایک طرف امریکہ افغانستان میں جمھوریت کو فروغ دینا چاہتا تھا، لیکن عملی طور پر 20 سال تک افغانستان کے معاملات اپنے مکمل طور پر ہاتھوں میں رکھ کر اس سے زیادہ غیر جمھوری انداز اختیار نہیں ہی کرسکتا تھا۔
دوسرا C کلچر ہے، امریکہ نے فرض کرلیا کہ صدر اشرف غنی کی حکومت جمھوری ہے کیونکہ وہ امریکی جمھوری انداز میں منتخب ہوئی، کیا واقعی ایسا ہوا؟
افغانستان کی 31.6 ملین آبادی جس میں 9.7 رجسٹر ووٹر ہیں ان میں سے بھی 1.8 ملین افراد نے گذشتہ انتخابات میں ووٹ ڈالے، اس کے برعکس میں 2001 میں جب اقوام متحدہ کے مشن نے الجیریا کے شاندار سفارتکار لخدربراہمی کی قیادت میں طالبان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد افغان حکومت قائم کرنے کی کوشش کی تھی، تب براہمی نے افغان تاریخ و کلچر کو سمجھنے کی کوشش کی اور افغان روایت کے مطابق ایک روایتی بزرگوں اور علاقائی قائدین کی کونسل جو اہم قومی مسائل پر غور وخوص کرتے کا لویا جرگہ منعقد کیا ۔
یہ سارا طریقہ کار مشکل تھا اور اقوام متحدہ (اس کے نتائج پر) مکمل کنٹرول نہیں کرسکتی تھی ، لیکن اس لویا جرگہ سے سامنے والی حکومت نام نہاد جمھوری طریقے سے منتخب ہونے والے اشرف غنی کی حکومت سے زیادہ عوامی قبولیت و وقعت رکھتی تھی۔
حیران کُن بات ہے کہ امریکہ نے اپنے مقبوضہ علاقوں کے کامیاب تجربات سے کوئی کارآمد سبق حاصل نہیں کیا۔ 1945 میں جاپان کی شکست کے بعد یہ ایک شاندار فیصلہ تھا کہ جاپانی شہنشاہ ہیروہیٹو پر جنگی جُرائم کے الزام میں مقدمہ چلانے کی بجائے جوکہ اگر امریکہ چاہتا تو کرسکتا تھااسے تخت پر رہنے دیا گیا۔ جس سے جاپانیوں کو یہ یقین دہانی ہوئی کہ ان کے کلچر و ثقافت کا احترام کیا جائے گا۔ لیکن افغانستان میں امریکیوں نے افغان کلچر کے بارے میں کسی قسم کی حساسیت و احترام کا مظاہرہ نہیں کیا۔
تیسرا C کمپرومائز (سمجھوتہ) ہے ، جب آپ دوسروں کی سرزمین پر چل رہے ہوں تو منطق کا تقاضا ہے کہ حسب ضرورت سمجھوتے کریں اور مقامئ اداروں کا احترام کرتے ۔ امریکہ کے عراق میں بُری طرح ناکام رہنے کی وجہ ایک تباہ کن فیصلہ۔۔ عراقی فوج اور باتھ پارٹی دونوں عراقی معاشرے کا ستوں تھے کو ختم کرنا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جب امریکہ کا جرمنی پر قبضہ تھا تو امریکی فوجی کمان نے محسوس کر لیا تھا کہ جرمن معاشرے کو افراتفری سے بچانے کے لئے انتظامی ڈہانچے کو جوں کا توں رکھنے کی ضرورت ہے ، چونکہ ہٹلر کے زمانے میں نازی پارٹی کی ممبرشپ تمام سرکاری ملازمین کے لیے لازمی تھی اور نازی جماعت سے باہر انتظامی تجربے کے لوگ ناکافی تھے۔ اس لئے سرکاری اداروں کو نازی پارٹئ کے ممبران سے صفائی عمل ترک کردیا گیا۔
امریکہ کی عظیم طاقت اس کا سب سے بڑا سرمایہ ہے اس کے ساتھ ہی سب سے بڑی کمزوری بھی۔ اتنی طاقت کی وجہ سے امریکہ کو اگر منطقی طور پر ضرورت ہوتب بھی کسی سمجھوتے کا دباؤ نہیں ہوتا۔ افغانستان ایک قدیم معاشرہ ہے اس کے ساتھ ہی ایران اس سے بھی قدیم ہے، صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی وجہ سے لازم ہے ایرانی تاریحی و ثقافتی دانش افغانستان کے ساتھ رہنے کے اسلوب سے واقف ہوں گے۔
سادہ سا کام (افغانستان کا) امریکی منتظم کرسکتا تھا کہ ایران سے دوسرے معاملات کو پس پُشت ڈال کر ایرانی حکام سے افغانستان میں مضبوط سیاسی نظام کی تیاری کے لئے مدد حاصل کرتا ۔ایران یقیناً تعاون کرتا کیونکہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار اس کے لئے امریکہ سے زیادہ نقصاندہ ہے۔ لیکن واشنگٹن میں ایران سے کسی قسم کے سمجھوتے کے بات سوچنا بھی ممکن نہیں۔
اگر امریکہ افغانستان و دیگر جگہوں پر اپنی بنیادی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرے گا تو خطرہ ہے کہ وہ انہیں آئندہ بھی دُھراتا رہے گا۔ لیکن اب تک تو ان چیزوں پر غور کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
اس کی بجائے اس تباہ کُن ناکامی کا الزام واشنگٹن میں بہت سے لوگ افغانوں پر لگارہے خاص طور پر کرپشن پر۔ لیکن کے لیے بھی سپلائی اور ڈیمانڈ کی ضروری ہے۔ اگر امریکہ نے افغانستان کو بغیر مناسب کنٹرول کے امریکی ڈالروں کے سونامی میں ڈبو نہیں دیتا تو کرپشن بھی نہیں ہوتئ۔
حیرت کی بات یہ ہے اس معاملے میں اشرف غنی نے ہی 2008 میں کلیر لاکہارٹ کے ساتھ مل کر شایع شدہ کتاب میں ایک پروجیکٹ کی مثال دی تھی جس میں غیر ملکی امداد سے وابسطہ مسائل کی وضاحت کی گئی تھی۔
ویسے تو امداد مختلف اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے ذریعے تقسیم ہوتئ ہے لیکن زیادہ تر رقم امریکہ سے ہی آتی ہے۔ یہ کہانی لاکہارٹ کی ایک تحریر میں بیان کی گئی ہے جو یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ امریکہ اپنی افغانستان کی مہم میں کیا غلطی کررہا تھا۔
2002 میں کلیر لاکہارٹ بامیان کے دور دراز گاؤں میں ایک افغان دیہاتی سے ملیں تو اس نے ایک دلچسپ کہانی سُنائی، اس وقت امریکی و ناٹو قبضے کا ابتدائی دور تھا اور 150 ملین ڈالر کی ابتدائی رقم تعمیر و ترقی کے لئے مختص کی گئی تھی۔
وہ گاؤں صوبہ بامیان کے دور دراز علاقے صوبائی دارالحکومت سے چند گھنٹوں کی ڈرائیو اور دنیا سے مکمل کٹا ہوا تھا۔ اسوقت اقوم متحدہ کی ایجنسیاں اور این جی اوز ایسے پروجیکٹ جن سے افغان عوام کو جنگ کے بعد مدد ہو اور جن کا فائدہ فوری طور نظر آئے کی دوڑ میں لگی ہوئی تھیں۔ یہ 150 ملین ڈالر کی رقم یقینا ایسے دیہاتوں کے باسیوں کی زندگیاں تبدیل کر سکتی تھی ۔
لیکن درحقیقت کیا ہوا اس کی داستان کے لئے اب آجاتے ہیں دیہاتی کی کہانی کی طرف:-
“ہم نے ریڈیو پر سُناکہ ہمارے علاقے میں تعمیراتی کام شروع ہورہا ہے اور ہمیں جلاوطنی سے واپس آنے کے بعد اپنے گھروں کی تعمیر میں مدد کی جائے گی، ہم یہ سُن کربہت خوش ہوئے۔
لیکن کئی ماہ گذر گئے کچھ خاص نہ ہوا، اب ہم ناخواندہ تو ہیں لیکن احمق نہیں ہے، اس لیے ہم نے معلومات کرنے کی کوشش تو یہ بات سامنے آئی۔
• پہلے وہ ساری رقم ایک جنیوا کی ایجنسی کے پاس گئی ۔
• اس نے 20 فیصد حصہ رکھ کر اس ٹھیکہ ایک امریکی ایجنسی کو دے دیا ۔
• اس امریکی ایجنسی نے بھی اپنا 20 فیصد رکھ کر آگے بڑہا دی۔
• وہاں سے ایک سب کنٹریکٹر کے پاس گئی اس نے بھی اپنا 20 فیصد رکھ کر آگے بڑہا دیا۔
• جب کابل رقم پہنچی تو تھوڑی بہت رقم بچّی تھی لیکن اتنی تھی کہ کچھ عمارتی استعمال کے لئے مغربی ایران سے لکڑی حاصل کی جاسکتی تھی۔
• وہ ٹھیکہ ایک افغان گورنر کی کمپنی کو مل گیا۔جس نے اس کی اصل قیمت سے پانچ گُنا زیادہ قیمت پر لکڑی منگوا کر فراہم کی۔
جب اس میں سے کچھ لکڑی ان کے گاؤں تک پہنچی تو شھتیر اتنے بڑے اور بھاری تھے کہ عام مٹی کے بنے افغان گھروں میں استعمال کےقابل ہی نہیں تھے۔ اس لئے دیہاتیوں نے انہیں کاٹ کاٹ کر آگ جلانے میں استعمال کر لیا۔
اس طرح 150 ملین ڈالر چولہے کی نظر ہو گئے۔
مستقبل کے مورخین یقیناً حیران ہوں گے کہ کس طرح امریکی ٹیکس دہندگان کی 10کھرب ڈالر کی رقم افغانستان میں بغیر کسی مثبت نتیجے کے خرچ کی گئی۔ یہ چھوٹی سی کہانی اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے۔ اسی طرح لاتعداد ایجنسیوں اور کنٹریکٹر وں جن میں سے ہر اپنا اپنا حصہ وصول کرتا ہے کو ضرب کرکے حساب لگا لیں تو پتہ چل جائے گا کہ درحقیقت رقم کہاں گئی۔
اگر امریکی افغانوں کو الزام دیتے ہیں تو یہ ایک بڑی غلطی ہو گی، وہ ( افغان) تو واشنگٹن میں کی گئی غلطیوں کا شکار ہیں۔ یہی وہ معاملہ ہے جہاں (امریکہ کے لئے) سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔