تاریخ کو نظر انداز کرنے کا جوا کھیلتے ہوئے امریکی صدر اور انکی ٹیم توقع کررہی ہے کہ افغانستان میں تیزی سے طاقت پکڑتے ہوئے طالبان کو ان کا طویل المدت سرپرست پاکستان امن کے معاہدے اور افغان حکومت کے ساتھ اقتدار کی شرکت پر مجبور کر سکتا ہے (ایک امریکی صدر پاکستانی وزیراعظم کو فون کرنے کا روادارنہیں اور دوسرئ طرف ان سے اتنی بڑی توقع؟؟؟؟)۔
لیکن ماہرین اس قسم کی امیدوں کو خوابوں کی دنیا سمجھتے ہیں اور آخر میں تاریخ ہی نے جیتنا ہے۔ پاکستان اور طالبان کی قیادت (جن کا ہیڈکواٹر پاکستان میں ہے) محاذ جنگ اور مذاکرات کی ٹیبل، دونوں جگہوں پر ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ مختصراً کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان طالبان کی فتح کا خواہشمند ہے یا کم از کم کوئی ایسا کام کرنے کے لیے تیار نہیں جو طالبان کی فتح میں رُکاؤٹ بن سکے۔
جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی کے معاملات کے بارے میں متعدد امریکی صدور کے سینئر مشیر بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ “پاکستان کی مدد کے بغیر طالبان اتنے بڑے پیمانے پر حملے کرہی نہیں سکتے، پاکستان کی آئی ایس آئی افغانستان سے تمام بیرونی افواج کو نکالنے میں کامیاب پر انتہائی مسرور ہے، ان کا اگلا ہدف افغان فوج و حکومت میں خوف، ہراس اور گھبراہٹ کی کیفیت پیدا کرنا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے خیال میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے باوجود طالبان اور اسلام آباد دونوں اس تاریخ کو دُھرانا نہیں چاہیں گے جو ۹/۱۱ کے واقعے پر منتج ہوئی، طالبان کے مظالم، بین القوامی پابندیاں، مہاجرین کا سیلاب، دونوں ممالک کے لئے بین القوامی تنہائی اس کا نتیجہ تھی۔ یہی بات طالبان قائدین اور پاکستانی حُکام نے امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد کو بتائی۔
منگل کو یہی بات خلیل زاد نے ایسپن سیکیورٹی فورم میں تقریر کرتے ہوئے بتائی کہ “طالبان نے کہا کہ وہ ہم اچھوت ریاست بننا نہیں چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں قبول کرے اور ان کی امداد بھی کرے”۔
لیکن اس زبانی اعتدال پسندی کی زمینی حقایق سے تصدیق نہیں ہو رہی ۔ ایک طرف 2020 میں امریکہ سے امن مذاکرات کے دوران دنیا کے سامنے خود کو سفارتکار کے طور پر پیش کررہے ہیں دوسری طرف طالبان بڑے شھروں (قندھار، لشکر گاہ و ہرات ) پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے پُرانے ظالمانہ طرز عمل کو دُہرارہے ہیں۔
اس کی تصدیق امریکی حکومت نے بھی کی اور کہا کہ اسپن بولداک، اور قندھار میں طالبان نے درجنوں سویلین افراد کا قتل عام کیا۔ کابل کے امریکی سفارتخانے کے ٹوئیٹ کے مطابق یہ جنگی جرائم ہیں جن کی تحقیقات کی جائے جو طالبان لڑاکے اور ان کے کمانڈر اس واقعے کے ذمہ دار ہیں کے خلاف کاروائی کی جائے ۔
گذشتہ دھائی کے دوران بھی جب 46 ممالک مشترکہ طور پر کابُل میں افغانستان کی منتخب حکومت کی حمایت کررہے تھے اس کے باوجود پاکستان نے طالبان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ اب جبکہ امریکی و ناٹو کی افواج افغانستان چھوڑ رہی ہیں اور افغانستان کی حکومت تیزی سے اپنی اہمیت کھورہی تو اس پالیسی کی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
دوسری طرف اپنے ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں جارحیت پسند دشمن بھارت بھی پاکستان کے لئے افغانستان میں اسلامی شورش پسندوں کی حمایت کا بہتر جواز ہے تاکہ خطے میں نئی دہلی کے اثرورسوخ کو معتدل کیا جاسکے۔ اسلام آباد کو خوف ہے کہ بھارت نواز اور مغربی ممالک سے اچھے تعلق رکھنے والی مضبوط افغان حکومت پاکستان کے محاصرے کا سبب بن سکتی ہے۔
فی الحال افغان حکومت و طالبان کے درمیان مذاکرات کہیں نہیں جارہے کہ طالبان اور اشرف غنی دونوں خود کو افغانستان کی حکمرانی کے حقدار سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
ان سب کے درمیان پاکستان ہے جس کا افغان طالبان پر اثرورسوخ کم تو ہورہا ہے پھر بھی کافی اثر ہے، کیونکہ افغان طالبان اور ان کے اہل خانہ پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔
ہفتہ رواں میں پاکستانی نیشنل سیکیورٹی مشیر معید یوسف نے واشنگٹن میں مختلف افراد سے ملاقاتیں کیں۔ اس دوران وہ اپنے امریکی ہم منصب جیک سولیون کے ساتھ افغانستان کے سیاسی حل کی ضرورت پر اتفاق کیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ پاکستان افغانستان کی حکومت پر بزور شمشیر قبضے کو قبول نہیں کرے گا۔اس کے باوجود طالبان نے یہی (بزور قوت کابل کے اقتدار پر قبضہ) کرنا ہے۔اور زیادہ امکان یہ ہے کہ اسلام آباد انہیں روکنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا۔
سابق امریکی سفیر برائے افغانستان رائن کروکر (Ryan Crocker)نے کہا “ صاف بات یہ ہے کہ یہ سوچنا بھی حماقت ہوگی کہ یہ موجودہ طالبان 2001 والے طالبان کی بہ نسبت نرم ہوں گے، یہ پہلے سے زیادہ سخت رو ہوں گے ، وہ بیس سال کے سخت کوشیبکے بعد آخر کار اپنا کھیل ہاتھ میں لے رہے ہیں، وہ کسی سے مذاکرات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے سوائے افغان حکومت سے ان کی ہتھیار ڈالنے کی شرائط کے۔
بائیڈن حکومت سمجھتی ہے کہ وہ اس انجام سے مذاکرات کے ذریعے بچ سکتی ہے۔ سولیون نے معید یوسف سے ملاقات کے بعد ٹوئیٹ کیا کہ دونوں نے افغانستان میز تشدد کو فوری طور پر کم کرنے اور مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے مسئلے کے حل کے بارے میں گفتگو کی ۔بائیڈن حکومت کے اسلام آباد سے مذاکرات کے بارے کچھ نہیں بتایا ۔ لیکن امریکی حُکّام نے معید یوسف کے اس بیان کہ امریکی این ایس اے نے تمام فریقین کو ایک جگہ بٹھا کر پرخلوص مذاکرات کرانے میں پاکستان کی مدد مانگی ہے کی تردید نہیں کی۔
سابقہ پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی کا کہنا ہے کہ بائیڈن حکومت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ پاکستان یا تو طالبان پر دباؤ دینا نہیں چاہ رہا ہے یہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے (یہی وجہ ہے) کہ امریکہ کے صدر جو باہیڈن نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو فون کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی۔
شھادتوں سے ظاہر ہو تا ہےُکہ پاکستان اپنا دھرا کھیل جو وہ طویل عرصے سے کھیل رہا ہے، ایک طرف افغانستان کے مسئلے کا بین القوامی برادری کے ساتھ مل کر مذاکرات کے ذریعے حل دوسری طرف طالبان کو بھی زمین پر سپورٹ کرنا جاری رکھے گا۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی کرسٹین فیئر نے کہا “پاکستان طالبان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا، اور اسوقت جب طالبان پاکستان کے مستقل مدد کی وجہ سے کامیابی کے دھانے پر پہنچ چکے ہیں تو اب وہ ایسا کیوں کرے؟ اب سوال یہ بھی ہے کہ اسوقت جب پاکستان کی پروکسی (طالبان) امریکی و اتحادیوں کے سولین و فوجیوں کو افغانستان میں قتل کررہے تھے تب امریکہ نے پاکستان کے ساتھ کچھ نہیں کیا تو اب کیا کرسکتا ہے؟
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد واقعتاً چاہتا ہے کہ طالبان ایک وسیع البنیاد حکومت کا حصہ بنے پر راضی ہو جائیں، سابق امریکی نمائندے برائے پاکستان و افغانستان جیمس ڈوبنز نے بتایا کہ “ماضی میں بھی پاکستان نے طالبان امن مذاکرات کی میز پرلانے کی از حد کوشش کی تھی”۔ پاکستانی سولین حکام کا خدشہ ہے کہ اگر طالبان کو امریکہ قبول کرلیتا ہے تو انہیں قابو میں رکھنا ممکن نہ رہے اور وہ ممکن پاکستان مقیم اسلام آباد مخالف جتھوں کے لئے ایک مثال بن جائیں۔
“میرا خیال ہے کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ (پاکستان) چاہتا ہے کہ طالبان جو پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں حکومت کا حصہ ہوں لیکن دوسروں کو بھی شریک کرکے ایک مناسب طور پر متوازن حکومت تاکہ بین القوامی حاصل ہو لیکن وہ اس کے لئے طالبان کے بازو مروڑنے کے لئے تیار نہیں” ڈوبنز نے کہا۔
پاکستان کے پاس سرد جنگ کے خاتمے سے ہی طالبان کی حمایت کی واضح تزویراتی وجوہات ہیں، امریکہ و پاکستان روس کے افغانستان پر قبضے کے دوران اتحادی تھے اور انہوں نے روس کے خلاف افغان مزاحمت جو زیادہ تر اسلامی لڑاکوں (مجاہدین) پر مشتمل تھی کی تربیت کی ۔
جب 1989 میں روس افغانستان سے نکلا تو امریکہ بھی پاکستان کی سرحدوں پر سول وار و انارکی چھوڑ کر رخصت ہو گیا۔ پاکستان نے محسوس کیا کہ اس کے پاس سوائے طالبان کی حمائت کرنے کوئی راستہ نہیں ہے، اس کے ساتھ ہی پاکستان کے لیے وہ بطور اسلامی گروہ بھارتی اثر رسوخ سے پاک ہونا بھی اہم تھا۔
ریان کروکر (Ryan Crocker) کا کہنا ہے، کہ “ہم (امریکی) ۹/۱۱ کے بعد واپس آئے تو پاکستانیوں نے کہا ہم خوش ہیں کہ آپ واپس آگئے اور (امریکی) پیسہ بھی آنے لگا، ہم القائدہ کے خلاف آپ کی مدد کرنے کے لئے بخوشی تیار ہیں لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کے پیچھے جاکر انہیں اپنا دشمن بنائیں گے تو آپ پاگل ہیں، آخر میں تم (امریکیوں) نے گھر واپس جانا ہے لیکن ہم نے یہیں رہنا ہے۔ اور تو لوگ (امریکی) ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہو، اس لئے آپ اپنا مفاد دیکھیں ہم اپنا مفاد دیکھیں گے”
اس کے باوجود کچھ پاکستان کے سویلین حکّام کو خدشہ ہے کہ ہم ایک طالبان کے روپ میں ایک جن بوتل سے نکال رہے ہیں جو اسلام آباد کو جواب دہ نہیں ہو گا اور ایک دن وہ اپنی آئیڈیالوجی پاکستان بھی منتقل کریں گے۔
ممکنہ طور پر طالبان کی کامیابیوں سے حوصلہ پا کر گذشتہ چند ہفتوں میں تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان کے اندر اپنے حملے تیز کردئیے ۔
پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی طویل عرصے سے اسلامی تشدد پسندوں کو قبائلی علاقوں میں پال رہی ہے بشمول پاکستانی طالبان، جن سے اسلام آباد کے کمزور بلکہ عدم اعتماد والے تعلقات ہیں اور ان پر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا خدشہ بھی رہتا ہے۔
ایک پاکستانی کالم نگار مشرف زیدی کا کہنا ہے، “کئی پاکستانی حُکّام اب ان خدشات کا کھُلے بندوں اظہار کرنے لگے ہیں، حالانکہ پاکستان اس معاملے میں معصوم نہیں ہے لیکن امریکی پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسی کے افغان طالبان پر کنٹرول کے بارے میں مبالغہ آرائی کرتے ہیں، پاکستان اہنے دارالحکومت کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کرسکتا یہاں افغانستان کی بات ہورہی ہے۔
کئی ماہرین افغانستان میں خونریز جنگ کی توقع کررہے ہیں جہاں افغان متوازن (سیکیولر) جنہیں امریکی طالبان حامی سمجھتے ہیں کا قتل عام کیا جائے سکتا ہے، خواتین و لڑکیوں کو ان تمام حقوق جو امریکی قبضے کے دوران حاصل ہوئے ہیں سے محروم کردیا جائے گا۔ ویسے بھی امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے واکے مترجمین اور دیگر امریکہ کے اتحادی افغانوں نے بڑے پیمانے پر خصوصی امیگریشن ویزے کی درخواستیں شروع ہو گئی ہیں۔
اس کے علاوہ طالبان نے وعدوں کے باوجود کبھی بھی القائدہ سے اہنے تعلقات مکمل طور پر منقطع نہیں کیے، اور امکان ہے کہ یہ دہشت گرد گروپ طالبان کے قابض شدہ افغانستان میں پناہ گاہیں حاص کرے گا۔
یقیناً پاکستان کے وزیراعظم عمران خان ایسی صورتحال سے منسلک بُری پبلسٹی نہیں چاہتے لیکن وہ یہ بھی کہ چُکے ہیں کہ ہماری ترجیح بھارتی خطرات سے نمٹنا اولین ترجیح ہوگی۔
امریکہ پاکستان کے دو رخے روئیے سے پہلے ہی واقف ہے لیکن پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالنے میں ہچکچاتا ہے کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی ریاست ہے۔ پاکستان کو تنہا کرکے اسے دہشت گردوں کے سپورٹر کا لیبل لگانے کانتیجہ ایک ڈراؤنا خواب بن سکتا ہے ہے اور ۱۹۹۰ کی دہائی سے بدتر نتائج کا حامل ہو سکتا ہے جب پاکستانی اسمگلنگ نیٹ ورک لیبیا کو ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیزائن فراہم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
امریکہ کے لیے اس سے زیادہ خوفناک اور ڈراؤنا خوف یہ ہے کہ غیر مستحکم، اور تنہائی کا شکار پاکستان ٹوٹ پھوٹ جائے گا اور انتہاپسند ملک کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرلیں۔
وقت کے ساتھ یہ بات واضح ہو چکی ہے پہلے بھی پاکستان پر امریکی دباؤ کی صلاحیت جب بھی استعمال کی گئی ہے محدود طور پر ہی کام کرتی ہے۔ اب تو اس میں مزید کمی آئی ہے کہ تیزی سے بڑھتا ہوا چین امریکہ سے مقابلہ کرنے لیے اپنی امداد اور سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے۔پاکستان چین کے بیلٹ اور روڈ معاشی راہداری کا اہم ترین حصہ ہے۔ بروکنگ انسٹتیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2010 سے 2017 کے درمیان پاکستان کو امریکی فوجی امداد میں 60 فیصد کمی ہوئی ہے اور اس کا پاکستان کے طرز عمل پر کوئی فرق نہیں پڑا۔
اسوقت پاکستان اور امریکہ دونوں سفارتی اداکاری کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ کروکر (Crocker) کا کہنا ہے کہ “ خوابوں کی دنیا میں مذاکرات کے ذریعے (افغان تنازعے کا) حل شاندار چیز ہوگی ۔ لیکن ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے ، تو پاکستانیوں کا یہ کہنے میں کوئی نقصان نہیں کہ وہ اس کے لئے کوشش کررہے ہیں۔”