جبّار عمری کا کہنا ہے کہ ملا عمر نے مُلا عبید اللہ کو اختیارات کی منتقلی کے اپنے حُکم کی سختی سے پاسداری کی تھی۔ 2003 میں انہوں نے مُلا عبید اللہ اور اس کے نائب مُلا برادر کو،جو اس وقت کوئٹہ میں مقیم تھے، ایک کیسٹ بھیجی جس کی ایک بار پھر تصدیق کی کہ مُلا عبیداللہ اب نئے لیڈر ہیں، اور طالبان کی کونسل جو مُلا عبید اللہ کے ماتحتی میں کام کریں گے، اس کے اراکین کے نام بھی لکھے۔
جبّار عمری کا کہنا ہے کہ ملاعمر کوئٹہ میں موجود ہر لیڈر کو اپنا انتہائی قابل اعتماد ساتھی سمجھتے تھے۔ اسی لیےانہوں نے مُلاعبیداللہ کے سُپرد ذمہ داری کی اور کہا کہ اب وہی ساری ذمہ داری سنبھالیں۔ جبّار عمری نے بتاتا کہ طالبان کی پاکستان میں موجود قیادت کو کیسٹ قاصد کے ہاتھوں بھیجی جاتی تھی جو ان گنتی کے چند لوگوں میں سے تھا جنہیں مُلا عمر کی جائے روپوشی کا علم تھا۔قاصد ہر تین سے چھ ماہ میں مُلا عمر سے ملاقات کے لئے آتا تھا۔ جبّار نے قاصد کا نام نہیں بتایا لیکن بعض ذرایع کا خیال ہے کہ ملا عمر کا ہم زُلف عزیز اللہ تھا (کہا جاتا ہے کہ مُلا عزیز اب روپوش ہیں کہ طالبان میں کچھ لوگ ان سخت خفا ہیں کہ انہوں نے ملا عمر کی موت کی اطلاع اتنے عرصے کیوں چھُپائی)۔
عمری نے یہ بھی بتایا کہ پیغام رسان صرف اسی وقت آتا تھا جب کوئیٹہ میں مقیم قیادت کو پیغام بھیجنا ہوتا ہو یا کوئی ایسا معاملہ جس میں شوری فیصلہ نہ کر پارہی ہو۔ ملا عُمر نے خود کبھی قاصد کو طلب نہیں کیا۔
جبّار نے مزید بتایا کہ 2003 کے بعد صرف 2007میں ایک اور کیسٹ بھیجی گئی تھی جب مشھور طالبان کمانڈر مُلا داد اللہ ہلمند میں شھید ہو گیا اس کی جگہ ملا داس اللہ کے سوتیلے بھائی منصور داد اللہ نے لی اور ملا داداللہ کے قتل کے شبہ میں دو طالبان کو گرفتار کرلیا تھا اس پر ملا عمر نےمیسیج بھیجا کہ انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
نہیں پتہ کہ منصور داد اللہ تک پیغام یہ پہنچا بھی تھا یا نہیں، لیکن منصور نے دونوں کو قتل کروادیا تھا۔
ملا عمر نے اسوقت کوئٹہ مقیم قیادت سے کیسٹوں کے ذریعے پیغام رسانی کا سلسلہ بند کردیا تھا جب انکے قاصد کو پاکستان میں مختصر وقت کے لئے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ بجائے کیسٹ کے زبانی پیغامات پر انحصار کرنے لگے تھے۔
قاصد کی آمد پر ملا عمر اور قاصد کے درمیان ملاقات کے دوران جبّار عمری کو بیٹھے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اسے اپنی ذمہ داری یعنی ملا عمر کو محفوظ رکھنا انہیں کھانا چھت و کپڑے فراہم کرنے کا پورا احساس تھا۔ لیکن قاصد سے گفتگو کے دوران اسے کچھ نہ کچھ پتہ چل جاتا۔ مثال کے طور پر کوئٹہ کی شوری امریکہ سے مذاکرات کے لئے دوہا میں دفتر کھولنے پر راضی نہیں ہو پارہی تھی تب ملا عمر نے دوہا میں دفتر کھولنے پر اپنی رضامندی کا پیغام بھیجا۔
حالانکہ وہ کوئٹہ کی شوری سے رابطے میں رہے لیکن مُلا عمر نے عملی معاملات میں شاذ ہی دخل اندازی کی۔ یہ جبّار عمری کا کہنا ہے جس کی تصدیق کرنا مشکل ہو گا کہ اُس وقت کی کوئیٹہ شوری کے زیادہ تر ممبران حیات نہیں ہیں لیکن طالبان اور مُلا عمر کے بارے میں ملا عمر سابق ترجمان عبد الحی مطمئن کی ایک کتاب میں بھی یہی بات کہی گئی کہ مُلا عمر طالبان کے عملی فیصلوں میں شریک نہیں تھے ان کی حیثیت روحانی پیشوا کی تھی۔
جبّار عمری کے مطابق مُلا عمر طالبان کی قیادت چھوڑنے اور روپوشی کی زندگی کے دوران تارک الدنیا ہوتے چلے گئے۔ سیورے میں قیام کے دوران وہ بمشکل اپنے جھونپڑے سے باہر قدم رکھتے سوائے موسم سرما میں مختصر عرصے کے لیے دھوپ کے لئے باہر بیٹھتے تھے۔”اگر ہم گفتگو بھی کرتے تو سرگوشیوں میں کرتے دروازے پر تکیے رکھ دیتے تاکہ کوئی ہماری گفتگو سُن پائے۔ ایک مرتبہ عمری نے ملا عُمر سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے اہل خانہ سے دوری کو محسوس کرتے ہیں تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔ایک مرتبہ اس پوچھا اگر چاہیں تو آپکے بیٹے یعقوب کو بلا کر ملاقات کی جاسکتی ہے تو انہوں نے انکار کردیا۔
ایک مرتبہ عمری نے کہا کہ ہم کہیں اور جانے کے قابل نہیں تو ملا عمر نے جواب دیا “ یہ اللہ کا احسان ہے کہ ہم یہاں ہیں۔
سوائے کھانا تیار کرنے اور برتن دھونے کے جبّار کے لیے کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ مُلا عمر تنہا کھانے اور عبادت کرنے کو ترجیح دیتے تھے، کبھی کبھی اپنا کھانا بھی خود ہی پکاتے تھے۔ یہ دونوں بھی اکثر گفتگو باروچی خانے میں نماز کے لئے وضو کے درمیان کرتے تھے۔ وہ انتہائی کم گو، اور بڑی حدتک خواہشات سے مبرّا ہو چکے تھے، وہ صرف اپنی ڈاڑھی رنگنے کے لئے حنا اور منہ میں رکھنے کے لئے نسوار کے علاوہ کچھ نہیں مانگتے تھے۔ وہ سیو رائے میں اپنی میز بان فیملی سے بھی اتنا ہی تعلق رکھتے تھے جب وہ ان دو بھائیوں کو گروسری کے لئے پاکستانی روپے میں ادائیگی کرتے تھے، ورنہ وہ ایک تنہائی پسند شخص تھے۔
وہ دنیاوی و سیاسی معاملات پر شاذ ہی بات کرتے تھے لیکن شام کو بی بی سی پشتو سروس باقاعدگی سے سنتے تھے، جبکہ جبّار عمری ملحق باورچی خانے میں وائس آف امریکہ کی درّی سروس سنتا تھا۔
وہ خبروں پربھی کبھی کبھار ردعمل ظاہر کرتے تھے جب 2011 میں عرب بہار کے مظاہرے شروع ہوئے تو انہوں نے تبصرے کیا کہ یہ عرب دنیا کے لئے تباہ کُن ہوگا۔ اسی طرح انہوں نے 2007 میں اپنے جانشین مُلا عبیداللہ کی گرفتاری اور 2010 میں انکی دوران اسیری موت پر بھی کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
اسامہ بن لادن کی شھادت کے دن جبّار عمری انتہائی غور سے وائس آف امریکہ کی درّی سروس کی خبریں سُن رہا تھا ۔ مُلا عمر درّی زبان نہیں سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے پوچھا کہ یہ اس (اسامہ بن لادن )کا نام بار بار کیوں لے رہے ہیں، تب جبّار عمری نے انہیں اس کی شھادت کی خبر سُنائی لیکن اس پر انہوں نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ 9/11 سے پہلے بھی مُلا عمر اسامہ بن لادن کے بر عکس کبھی بین القوامی عزائم کا اظہار نہیں کرتے تھے۔
گمان غالب یہ ہے کہ اس نے اسامہ بن لادن کو تحفظ اس وجہ سے دیا کہ وہ امریکہ کے دباؤ کے سامنے کمزوری کا اظہار نہیں کرنا چاہتے تھے، اور وقت حاصل کرکے کوئی باعزت راستہ نکالنا چاہتے تھے۔ وہ ویسے بھی وہ یقین رکھتے ہیں کہ سیکیولر عدالتیں درست نہیں ہیں اور حقیقی انصاف صرف اور صرف اسلامی عدالتیں ہی دے سکتی ہیں۔ جیسا بھی ہو، اُنھوں نے کبھی جبّار عمری کے سامنے اسامہ بن لادن یا اسے امریکہ کے حوالے نہ کرنے کے فیصلے کی پر گفتگو نہیں کی ۔ اگر کوئی گفتگو کی تو القائدہ کی انتہا پسند وہابیت سے اختلاف کا اظہار کیا جو کہ بعض اوقات روایتی افغان عقائد سے بھی مختلف ہے۔
مُلا عمر اپنا زیادہ تر وقت قرآن اور دیگر دینی مطالعے میں گُم رہ کر گذارتے تھے، اس میں انہیں خوشی محسوس ہوتی تھی۔۔ اکثر وہ جبّار عمری کے سامنے قران کی تلاوت کرتے تھے وہ ان کے قران سے تعلق پر رشک کرتا تھا۔اس نے بتایا کہ انہوں نے سوائے قران و حدیث کے کچھ نہیں پڑھا۔ وہ گھنٹوں ایک ہی حالت میں آنکھیں بند کرکے مراقبے کی حالت میں بیٹھے رہتے۔ وہ مسرور رہتے تھے اور سب کچھ بشمول انکی حکومت، بھول جاتے تھے، جبّار نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتا کہ انہیں اپنی حکومت و حکمرانی کی کوئی پروا تھی۔
ایک دوپہر عمری نے دیکھا کہ مُلا عمر دیوار سے ٹیک لگا کرانکھیں بند کرکے بیٹھے تھے، ان کے قریب موم بتّی بھی بجھ چُکی تھی عمری نے دیکھا کہ نماز کا وقت نکل رہا ہے اور ملا عمر سورہے ہیں۔وہ کمرے میں جاکر انہیں تھپکی دی اس وقت مُلا عمر کچھ غصہ میں نظر آئے۔ لیکن جب جبّار عمری انہیں کھانا دینے آیا تو مُلا عمر نے معذرت کی اور کہا میرے آندیوال (پشتو میں قریب ترین دوست و ساتھی) مجھے معاف کردینا میں گہرے مراقبے کے عالم میں تھا۔انہوں نے بتایا کہ وہ اللہ زمین و آسمان اور اللہ کی عظمت کے بارے میں تفکر کررہے تھے۔
مُلا عمر کے پاس ایک پُرانا نوکیا موبائل فون تھا جس میں کوئی SIM نہیں تھی اور وہ اس میں قرآنی آیات ریکارڈ کرکے سُنتے تھے۔وہ سِم استعمال اس لئے بھی نہیں کرتے تھے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس کی مدد سے انہیں تلاش کیا جاسکے۔
چونکہ وہ زیادہ تر وقت قرآن کے ساتھ گذارتے تھے اس لئے ساتھیوں سے بھی کلاسک عربی میں بات کرنی شروع کردی اور وہ انہیں پشتو میں جواب دیتا۔ جبّار عمری کو کامل یقین ہے کہ مُلّا عمر اللہ کے ولی تھے۔ جن کا اللہ سے ربط ہے اور انہیں اللہ سے الہام ہوتا ہے۔
مُلاعمر نے کوشش کی کہ ان الہامات کو لکھ سکیں لیکن ناکام رہے انہوں نے بتایا کہ یہ انتہائی خاص ہیں ناقابل تحریر ہیں، پھر بھی ملا عمر نے انہیں اپنی کسی مخصوص زبان یا انداز میں لکھنے کی کوشش کی جسے ان کے علاوہ کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا، ملا عمر کی وفات کے بعد ملا عمر کی مخصوص زبان میں تحریر شدہ چار موٹی نوٹ بُکیں انکے بیٹے مُلا یعقوب کے حوالے کیں۔(اس کی ایک وضاحت یہ بھی ممکن ( یقینی نہیں )ہے کہ مُلا عمر تحریر کے معاملے میں کمزور تھے اور زیادہ تر وہ دوسروں کے تحریر شدہ کاغذات پر دستخط کرتے تھے)۔