ڈچ صحافی بیٹی ڈیم نے ‘ملا عمر کی خفیہ زندگی’ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی ۔ یہ کتاب جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے خوب تحقیق کے بعد لکھی۔ ‘آوازہ’ کے قابل قدر کالم نگار اور صاحب فکر قلم کار جناب اعظم علی نے اس کی انگریزی تلخیص کو اردو کا جامہ پہنایا ہے جس سے ملا عمر کی زندگی، ان کے مزاج اور شخصیت کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ ہم یہ تلخیص جناب اعظم علی کے شکریے کے ساتھ ‘ٓوازہ’ کے قارئین کی نذر کر رہے ہیں
اٹھارہ سال کے بعد آخر کار امریکہ اور طالبان امن مزاکرات کے لئے بیٹھ گئے ہیں جو ممکنہ طور پر امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اب تک اس شخص جس سے امریکہ امن کی توقعات وابستہ کررہا ہے کے بارے میں بہت کم جانا جاتا ہے۔
اصولی طور پر طالبان کے وفد نے وعدہ کرلیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین بیرون ملک حملوں کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی لیکن مبصرین کو شبہ ہے کہ کیا واقعتاً طالبان القائدہ سے رشتے توڑ دیں گے۔طالبان کو ایک قوم پرست خود مختار افغان گروپ سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے پاکستان سے تعلق پر سوال بھی اُٹھتے ہیں۔لاکھوں افغانوں موت، کھربوں ڈالر کے اخراجات کے باوجود فوجی فتح کے آثار نظر نہیں آتے۔ یقین امن معاہدہ انتہائی ضروری ہے۔
طالبان کے بارے میں مغالطے درحقیقت اس گروپ کے بانی ملا عمر کی شخصیت کے وجہ سے پیوست ہیں، گروپ سُپریم لیڈر جس کا نام سب سے پہلے افغانستان کے بدھ مت کے بتوں کو توڑنے کے واقعے کی وجہ ست سامنے آیا تھا پھر 11 ستمبر کے حملوں کے بعد اسامہ بن لادن کو (امریکہ کے) حوالے کرنے سے انکار کی وجہ سے سامنے آیا۔اس وقت ملا عمر ایک پُراسرار شخصیت تھی تاہم ان کی تصاویر نہیں تھیں اور حالات زندگی کچھ واضح نہیں تھے۔
طالبان کی اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ غائب ہو گیا اور بن لادن کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا مفرور بن گیا۔ امریکہ نے اس کے سر پر دس ملین ڈالر کے رقم رکھی لیکن وہ اس کی ہوا بھی نہیں پاسکا۔
ان کی طبعی موت کی خبر بھی طالبان کی قیادت نے دوسال تک اخفاء میں رکھی جو اندرونی اختلافات پر قابو پانے کے لئے ان کے نام سے بیانات جاری کرتے رہتے تھے۔ جب حقیقت سامنے آئی تو تنازع بن کر تقریباً طالبان کی تحریک کے ٹکڑے ہونے کے قریب پہنچ گئی، پھر تمام گروپ ُان کے نام مجتمع ہوکر لڑائی جاری رکھنے پر تیار ہو گئے۔ملا عمر سے طالبان میں شدید عقیدت ہے، ایک طالبان کے ممبر کا کہنا ہے کہ “ملا عمر وفات پا چُکے ہیں لیکن وہ ہمارے لئے زندہ ہیں اور ہم ان کے نام ، جذبے و روح کے لئے لڑتے ہیں۔
ان کی موت کے اعلان تک امریکہ ملا عمر کو دہشت گردی کے سرغنہ جو القائدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے تقریبی ساتھی اور پوری تندہی کے ساتھ امریکہ کی تباہی کے منصوبے بنارہا تھا ۔مثال کے طور پر وکی لیک کے ایک مُراسلے کے مطابق “ملاعُمر نے فاریاب کے شیڈو گورنر مُلا عاصم سے رابطہ کرکے پوچھا کہ وہاں پر حالات خراب کرنے کے لئے ہتھیار تقسیم کیوں نہیں کیے گیے” مراسلے میں یہ بھی کہاگیا کہ ملا عمر عام طور افغانستان میں دہشت گردانہ ودیگر سرگرمیوں کے لیے رقوم تقسیم کرتے ہیں۔
اور یہ بھی کہا گیا کہ ملا عمر اور اسامہ بن لادن کی ہر ماہ ایک ملاقات ہوتی تھیں جس میں تقریباً بیس افراد شریک ہوتے تھے، یہ ملاقاتیں عموماً کوئٹہ اور افغان پاکستان کے سرحدی دیہاتوں میں ہوتی تھی۔
امریکہ کا کہنا تھا کہ مُلّا عمر اپنی سرگرمیاں پاکستان سے کر رہے ہیں، 2015 میں افغان انٹیلیجنس نے اعلان کیا کہ انکے قابل اعتماد ذرایع کی اطلاع کے مطابق مُلّا عمر کی کراچی کے ایک اسپتال میں وفات ہوچکی ہے۔
اس وقت کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹرس نے بھی کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وہ پاکستان میں تھا اور عموماً بلوچستان و کراچی کے درمیان علاج کے لیے سفر کرتا رہتا تھا لیکن ہم پاکستان میں کارروائی کرنے کے قابل نہیں تھے اور ہم پاکستانی حُکّام (آئی ایس آئی) کو اسے گرفتار کرنے پر مجبور نہ کرسکے۔
بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ سب کچھ جھوٹ تھا، میں نے پانچ سال مُلّا عمر کی زندگی کے بارے میں جاننے میں لگائے، طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں سفر کیا اس کے قریبی دوستوں و عزیزوں سے ملاقات کی اور درجنوں طالبان لیڈر ، اس کے ساتھیوں سے گفتگو کی اس کے علاوہ درجنوں امریکی و افغان حُکّام سے بات کی تو وہ اپنے سرکاری بیانیے دے الگ ہی کہانی بیان کرنے لگے۔
یکم دسمبر 2018 کو میری اس شخص سے بھی ملاقات کرائی جس نے بارہ سال تک مُلّا عمر کی حفاظت کی، وہ ان کے ساتھ رہا اور واحد شخص تھا جو ان کا بیرونی دنیا سے رابطے کا ذریعہ تھا۔وہ اس وقت افغان انٹیلیجنس کی حراست میں ہے اور میں واحد صحافی ہوں جس نے اس سے انٹرویو کیا۔
اس تمام تحقیقات کا نتیجہ میرے ڈچ زبان میں شایع شدہ کتاب Searching for An Enemy میں ہے لیکن جوکہانی سامنے آئی میں اسے اختصار سے بیان کرتی ہوں۔
امریکہ اور تقریباً تمام لوگ غلط تھے، 2001 کے بعد مُلا عمر نے کبھی پاکستان میں قدم نہیں رکھا، بلکہ اپنے آبائی علاقے میں چھُپنے کا فیصلہ کیا، آٹھ سال تک ایک بڑے امریکی مستقر جہاں ہزاروں فوجی متعین سے چند میلوں کے فاصلے پر چھُپا ہوا تھا۔ اس بات کی تصدیق افغان و طالبان دونوں زرائع نے کی ہے، بظاہر ایک بہت بڑی انٹیلجنس کی ناکامی ہی بلکہ افغانستان جنگ کے بارے میں دوسری امریکی دعوں کے بارے میں شکوک پیدا کرنے کاسبب بنا۔
مُلّا عمر کو پاکستان کے بارے میں شدید عدم اعتماد تھا، اس لئے انہوں نے وہاں جانے سے انکار کردیا۔ایک طرف تو انکا(امریکیوں کے خلاف ) افغان مزاحمت میں کردار نہ ہونے کے برابر تھا لیکن اس کے باوجود وہ طالبان کے روحانی پیشوا تھے، دوسروں کے لیے یہ ایک عجیب سی بات ہے لیکن جب آپ انکی صوفیانہ مذہبی پرہیزگاری جو کہ شمالی افغانستان میں پائی جاتی ہے کو دیکھتے ہیں تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔
اس قسم کی کرشماتی شخصیت شعلہ بیانی نہیں بلکہ دل موہ لینے والا پھیلنے والا تاثر ایک زاہدانہ ، ذات سے ماورا ء اور دھوکہ نہ دینے والی شخصیت ، جو کہ کرپٹ دنیاداری کے زہر کا علاج نظر آتا ہے۔ جہاندیدہ اسامہ بن لادن سے بالکل ہی متضاد شخصیت ۔
اس مُلا عمر کی کہانی سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان اور القائدہ درحقیقت۔ کتنے مختلف ہیں۔ آج جب امن کے امکانات سامنے آرہے ہیں تو سوال یہ بھی ہے کہ کیا طالبان و القائدہ کو جُدا کیا جاسکتا ہے اس کے لیے مُلا عمر کی کہانی سمجھنا اہم ہے