وطن عزیز میں ابھی تک۔ کورونا کے بارے میں سازشی نظریات کے بارے میں باتیں ہی ختم ہونے میں نہیں آتی جبکہ دیگر ممالک میں روئیے بالکل مختلف ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم نہ تعلیم میں آگے ہیں نہ سائنس وٹیکنالوجی میں ، پھر بھی دنیا بھر کے طبّی و سائنسی مسائل پر فتویٰ اس طرح دیتے ہیں جیسے ہم ہی دور حاضر حاضر کے طب و سائنس کے امام ہیں۔ ان کی بورڈ جنگجوؤں کو میرا سلام۔
کوئی بھی سازش محدود حدتک ممکن ہے لیکن جب و بین القوامی ایشو بن جائے تو پوری دنیا خاموش نشانہ نہیں بن سکتی۔ یہ فقیر سنگاپور کا شھری ہے اب تک کورونا کی وجہ سے 50 بلین کے نقصان کا تخمینہ لگایا جاچُکا ہے۔وہ ان کی قیادت کی کوالٹی تھی آزادی سے 55 سالوں میں ملک کے خزانے کو اتنا مستحکم بنادیا کہ وہ یہ جھٹکا سہنے کے قابل ہو گیا۔
مکمل لاک ڈاؤن کے دوران حکومت نے نجی اداروں کے چھوٹے و درمیانہ درجے کے ملازمین کی 85 فیصد تنخواہیں سرکاری خزانے سے ادا کیں ان کی دوکان و دفاتر کے کرائے چار ماہ کے مکمل لاک داؤد کے درمیان حُکماً معاف کرائے گئے( مالکان دوکان و دفاتر کو اس کے بدلے ٹیکس میں رعایت دئ گیی لیکن وہ ان کے نقصان کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی) تاکہ لاک ڈاؤن کے ساتھ بے روز گاری کا طوفان نہ آجائے اور کاروبار سلامت رہیں ۔
یہ ملک گزشتہ ڈیڑھ سال سے مختلف درجے کے لاک ڈاؤن کی حالت میں ہے، یہاں پر ویکسینیشن کا سلسلہ جنوری سے جاری ہے اور ہدف ہے کہ آیندہ دوماہ میں 75 فیصد آبادی کو ویکسین لگا کر ملک کو حتی الامکان عام زندگی کے لیے کھول دیا جائے۔
اگر کوئی کورونا کا مریض ثابت ہو گیا (سوائے حال ہی میں بیرون ملک سے آنے والے افراد کے) تو ان کے ٹیسٹ سے لیکر اعلیٰ ترین علاج سرکاری خرچے پر کیا جاتا ہے۔ ایک بنگلہ دیشی مزدور کورونا میں گرفتار ہوکر انتہائی تشویشناک حالت میں تین ماہ تک وینٹیلیٹر پر رکھنے کے بعد صحتیاب ہوا۔
یقیناً اللہ کی طرف اس کی موت کا وقت نہیں آیا تھا لیکن میں کبھی کبھی اس شخص کے بارے میں غور کرتا ہوں خیال آتا ہے کہ اگر اس کی جگہ میں ہوتا بظاہر خوشحال گھرانے کافرد آٹھ دس دن وینٹیلیٹر پر رکھنے کے بعد میرے اہل خانہ بھی شائد اُمید چھوڑ جاتے۔ یہاں پر ایک بیکس و لاچار غریب الوطن مزدور جو اپنی جیب سے ایک پیسہ خرچ کرنے کے قابل نہ تھا اسے دنیا کے بہترین علاج مفت فراہم کیا گیا۔ اسے اتنا طویل وینٹیلیٹر پر رکھنے کے کے لئے یہاں طبی عملے کی ہمت ، استقامت و اعتماد بھی قابل داد ہے۔
یہاں پر ہرشخص گھر سے باہر کہیں بھی جانے کے لئے یا تو موبائل ایپس ورنہ جو لوگ اسمارٹ فون نہیں رکھتے ان کے ایک چھوٹی سے ڈیوائس ساتھ رکھنا لازم ہے۔ جو جس کی مدد سے جن افراد سے آپکی ملاقات نہ بھی ہوئی لیکن اتفاقاً انکے قریب سے گذرنے پر بھی ریکارڈ رکھا جاتا ہے تاکہ ان میں سے کوئی بھی اگر کورونا کا مریض نکلے تو جو بھی افراد اتفاقاً بھی اس کے آس پاس ہوں کو مطلع کیا جائے اور اس بدقسمت لمحے کے 14 دنوں تک نقل وحرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا جائے۔
میرےایک عزیز کسی حجام کی دوکان کے سامنے سے گذرنے کے سزاوار تھے اور اس دوکان سے اکٹھے چار پانچ کورونا کے مریض پائے گئے، نتیجہ یہ انہیں قرنطینہ تو نہیں لیکن 14 دن تک اپنی نقل وحرکت محدود کرنے کا مشورہ مل گیا۔ اس سے قبل ایک بار کسی شاپنگ سینٹر میں کسی مریض کی وجہ سے 14 دن کے لئے محدود ہونا پڑا۔
یہ تو شاید دور کی ملاقات کی بات ہے، اگر اتفاقاً آپ نے واقعی کورونا کے کسی مریض سے ملاقات کرلی تو۔۔۔
گذشتہ روز میری بچّی کا اپنی ایک دوست کے ساتھ ظہرانے پر ملاقات کا پروگرام تھا۔ ان کی دوست ایک نیم سرکاری ادارے میں ملازمت کرتی ہیں جس سے عوامی رابطہ رہتا ہے اس لئے انہیں ترجیحاً ویکسین لگائی جاچکی ہے۔
کھانے اور خوش گپیوں کے درمیان اس کے فون کی گھنٹی بجی اور فون کرنے والے اپنا تعارف وزارت صحت کے اہلکار کے طور پر تعارف کرایا اور اسے اطلاع دی کہ ایک ہفتے پہلے وہ کسی شخص سے ملی ہے جو کورونا کے مریض ہےاور اسے ہنگامی طور پر اپنے گھر واپس پہنچنے کاحُکم دیا جاتا ہے۔
گھر پہنچ کر پہلے وقتاً فوقتاً ادارہ صحت کے اہلکار ویڈیو کال کے ذریعے اس بات کی تصدیق کریں گے واقعتاً وہ گھر میں ہی ہے، اگر اس نےگھر سے باہر قدم نکالنا جُرم ہے جس کی سزا قید ہے۔
دوسری ہدایت یہ بھی تھی کہ فوری طور پر اپنا ضروری اشیا پیک کرلے کہ جیسے ہی ممکن ہو ایک خصوصی سرکاری گاڑی آکراسے لیجائے گی۔حکومت قرنطینہ کے لیے سرکاری عمارات ہی نہیں بلکہ سیاحت کے ختم ہونے کی وجہ سے مختلف ہوٹلوں کوبھی استعمال کررہی ہے۔
آج صبح سرکاری کورونا کی خصوصی گاڑی کے ذریعے اسے گھر سے اُٹھا کر شھر کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل کے کمرے میں مقید کردیا گیا ہے تو پانچ ستارہ ہوٹل لیکن کمرے سے باہر قدم رکھنا بھی قابل سزا جُرم ہے، کھانے کی ٹرے بھی کمرے کے باہر رکھی کُرسی پر رکھ دی جاتی اور کھانے سے فارغ ہوکر خالی برتن بھی وہیں رکھ دیں۔
اس دوران دن میں رات میں کسی بھی چھاپہ مار کریا ویڈیو کال کے ذریعے تصدیق کی جائے گی کہ آپ کمرے ہی میں ہیں۔ صرف اتنا ضرور ہے کہ اس تمام عرصے میں قیام و طعام کا بل سرکار ہی ادا کرے گی، بلکہ دفتر سے چھٹی کی وجہ سے اس دورانیے کی تنخواہ بھی سرکار ادا کرے گی۔
گذشتہ ہفتے یہ فقیر بھی اچانک سانس پھولنے اور کمرکے بائیں جانب درد کا شکار ہوا چونکہ میں دوماہ پہلے ہی ویکسین کراچُکا تھا اس لیے پہلا گُمان دل کے دورے کا تھا۔
رات توکسی نہ کسی طرح گذر گئی لیکن بلکہ دوپہر کے بعد میں نے اپنے محلے کے ڈاکٹر صاحب جو اب غالباً ریٹائرمنٹ کے دروازے پرہیں، دن میں چند گھنٹے ہی کلینک پر بیٹھتے ہیں سے مشورہ کیا ۔ انہوں نے ہنگامی طور پر سینے کا ایکسرے کرانے کا مشورہ دیا جو ہم نے کرا تو لیا لیکن جب تُک اس کی رپورٹ ہاتھ آئی ڈاکٹر صاحب کا کلینک بند ہو چُکا تھا ۔
ہم نے کراچی میں اپنے محترم دوست ڈاکٹر سہیل اختر جو انڈس اسپتال پاکستان کے امرض سینہ کے ماہرہیں کو رپورٹ بھیج کر ان کی رائے حاصل کی ، ان کی رائے یہ تھی کہ ہے تو پھیپھڑوں کا انفیکشن ہے لیکن احتیاطا کورونا کا بھی ٹیسٹ کروالیں ۔
خیر آخر کار ہم نے گھر کے قریب ہے واقع ایک سرکاری اسپتال چانگی جنرل ہاسپٹل جانے کا فیصلہ کیا، خیر اسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچے تو چونکہ ہم حالت بخار میں بھی تھے اس لئے فوری طور پر عام مریضوں سے الگ کرکے ممکنہ کورونا کے خصوصی حصے میں تنہا بھیج دیا گیا، وہاں پر مریض ہی جاسکتا ہے ۔
خیر طویل داستان کو مختصر کرتے ہوئے وہاں پر دوبارہ ایکسرے اور خون کا ٹیسٹ کرنے کے بعد داخل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ چونکہ کسی بھی عزیز و واقارب کوساتھ آنے کی اجازت تو نہیں تھی لیکن ڈاکٹر مسلسل باہر بچّوں سے رابطے میں تھے۔
کورونا وارڈ کیا تھا انفرادی کمرہ تھا جس سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں سوائے متعلقہ افراد کے کوئی داخل نہیں ہو ہوسکتا ۔ بچّوں کو مطلع کردیا گیا تھا کہ کورونا ٹیسٹ کےمنفی ہونے کی صورت میں دوسرے وارڈ میں منتقل کیا جائے گا اس وقت ملاقات کی اجازت دی جائے گئ۔
سچّی بات یہ ہے کہ مجھے اپنے کورونا کے مبتلا ہونے کے خدشے سے پریشانی نہیں تھی، میری اصل پریشانی یہ تھی کہ کسی بھی مثبت ٹیسٹ کی صورت میں اہل خانہ جن میں چھوٹے بچّے شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ دوست و احباب جن سے میری گذشتہ 14 دنوں میں ملاقات ہوئی وہ سب کہیں نہ کہیں مقید کردئے جاتے۔جو میرے لیے ناقابل برداشت تھی۔
خیر سانس کی دشواری اور سینے و کمر کی تکلیف کی بنا پر وہ رات بڑی مشکل سے گذری۔ اس دوران مختلف اوقات میں کورونا کے ٹیسٹ لیے گئے کہ یہاں دو مرتبہ ٹیسٹ کرکے نتائج کی تصدیق لازمی ہے۔
صبح ڈاکٹر نے خوشخبری سُنائی کہ آپکے کورونا کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں، درحقیقت آپکو نمونیا ہے۔ جس کے اثرات دیگر اعضا پر بھی نظر آرہے ہیں جنہیں بعد دیکھا جائے گا۔
چونکہ کورونا کی لٹکتی ہوئی تلوار سے جان بچی سو لاکھوں پائے، پھر علاج بھی صرف اور صرف اینٹی بائیوٹکس اور درد کُش ادویات ہی سے ہورہا تھا اس لئے ہم نے درخواست کی اگر اسپتال میں رکھنے کی طبی ضرورت نہ ہو تو ہمیں گھر ہی جانے کی اجازت دے دی جائے کہ ۔۔
گوشے میں گھر کے ہمیں آرام بہت ہے
دو دن اسپتال میں گذار کر خیر سے گھر کو پہنچے اب اللہ کے فضل ، اہل خانہ کی خدمت گذاریوں اور دوستوں محبتوں بالخصوص ہمارے دوست و بھائی ڈاکٹر سہیل اختر کے مسلسل مشوروں اور حوالہ افزائی کے سہارے روبہ صحت ہوں۔الحمدللّٰہ کہ اللہ پاک نے یہ محبت کرنے والے رشتے عطافرمائے۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟
نوٹ: اس کالم کے ساتھ اس ایپ کی تصویر شائع کی جارہی ہے جسے ساتھ رکھنا ضروری ہے