بین الالقوامی اخبارات میں بھارت میں کورونا کی بگڑتی ہوئی حالت کے بارے میں چیختی چنگھاڑتی ہوئی سُرخیاں ہر خاص و عام کو متوجہ کررہی ہیں گذشتہ چند دنوں میں تین لاکھ سے زاید یومیہ مریض،ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگیں ختمُ، اور مریض لاچارگی کے عالم میں اسپتالوں سے باہر آکسیجن سلنڈروں کے ساتھ کرسیوں پر لیٹے ہیں۔ اب نہ صرف آکسیجن و دیگر ادویات بھی نہیں مل رہی بلکہ مرنے والوں کے لئے شمشان گھاٹ و قبرستان میں جگہوں کے بھی لالے پڑ چکے ہیں۔
یہ سب کیا ہورہا ہے؟ کورونا تو پوری دنیا میں ہے لیکن اچانک بھارت میں ایسا کیوں؟
اس کی وجہ کورونا کی تیزی بدلتی ہوئی ماہیت ہے، حالانکہ یہ سب کچھ پوری دنیا ہی میں ہورہا ہے، اس وقت کورونا کا برطانوی variant B117 بھی اس وائرس کی ایک مشکل شکل ہے اور گمان یہ کیا جاسکتا کہ پاکستان و برطانیہ میں سفری رابطوں کی وجہ سے وقت پاکستان میں بڑہتی ہوئی لہر کا ذمہ دار یہی ہو گا۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقہ اور برازیل کا اپنا کورونا کا variant ہے۔ وہ بھی کوئی کم خطرناک نہیں ہے۔
لیکن بھارت میں کورونا وائرس بھارت میں آکر اپنی ہیت تبدیل کرکےجو تباہی مچائی ہے اسکی تو مثال ہی نہیں۔ بھارت میں کورونا وائرس کے تبدیل شدہ شکل جسے B1617 یا بھارتی وائرس کا نام دیا گیا ہے۔اب تو ایک اور قسم B1618 بھی بھارت کی چند ریاستوں میں نظر آئی ہے۔چونکہ B1618 کے بارے میں کافی مواد سامنے نہیں ہے اور سائنسدان اسے سمجھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اس لئے پرگفتگو پھر کسی مناسب وقت پرہوگی۔
اب تک کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ B1617 کی دو خصوصیات اسے کورونا کی دیگر اقسام سے ممتاز کرتی ہیں۔
1. یہ انتہائی تیز رفتاری سے منتقل ہوتا ہے ( بھارت میں تیزی سے بڑھتے ہو کورونا کے مرض کی اصل وجہ یہی ہے)۔
2. اس میں ویکسین کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کوئی بھی ویکسین اس قسم کے وائرس کے خلاف کار آمد ہوگی۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس خطِے میں کورونا وائرس کی تیز رفتاری سے ہونیوالی تبدیلیوں کا مرکز بھارت ہے۔اور ہم جتنا جلد اور مکمل طور پر بھارت سے ہر قسم کے انسانی ٹریفک کو منقطع کرسکیں وہی ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔
کورونا وائرس کی موجودہ لہر میں پاکستان کے لئے فوری طور پر دو بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ پہلا کورونا وائرس کا برطانوی variant B117 بدقسمتی سے اس کے لیے برطانیہ سے آنے والے مسافروں کو بروقت چیک نہ کرنے کی وجہ سے اس وقت کراچی و لاھور اور بعض دیگر شہروں میں پھیل ہی چکا ہے ۔
اچھی بات یہ ہے وہ تیزی سے بڑھنے والا تو ہے لیکن اس کی شرح اموات عام کورونا وائرس سے تھوڑی ہی زیادہ ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ مناسب اقدامات کے ذریعے اس صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اس وقت سب سے خوفناک خطرہ کورونا وائرس کی بھارتی قسم B1617 ہے جس نے بھارت میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔خوش قسمتی سے چونکہ دو ممالک کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے دونوں ممالک کے دوران آمدورفت معطل ہے اس وجہ سے ہم کچھ حدتک محفوظ ہیں۔
اس کے باوجود اس خطرے کو کسی صورت میں ہلکا نہ لیا جائے اور پوری کوشش کی جائے کہ کوئی بھی بھارت سے یہ وائرس ہمارے ہاں نہ لا سکے کہ ابھی تک اس کی کوئی مکمل کامیاب ویکسین بھی موجود نہیں ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ فائیزر کے ویکسین نے جزوی (مکمل نہیں) طور پر بھارتی کورونا کے خلاف کارگر ثابت ہوئی ہے۔ لیکن یہ ویکسین پاکستان میں موجود نہیں ہے۔
اس وقت تک سنگاپور، برطانیہ، متحدہ عرب امارات ، نیوزی لینڈ ، آسڑیلیا ، فرانس وامریکہ سمیت کم از کم سات ممالک نے اپنی سرحدیں بھارتی مسافرین کے لئے بند کردی ہیں۔
اگر ہمیں بھارت کے انجام سے بچنے کی کوشش کرنی ہے تو فوری طور پر بھارتی ہی نہیں بھارت سے آنے والے گذرنے ہر شخص کے لئے اپنی زمین ، فضائی و سمندری سرحدوں کو بند کرنا ہو گا چاہے وہ کسی بھی ملک کا شھری ہو۔ بلکہ نیپال کی بھارت سے زمینی سرحد پر آزادانہ آمد ورفت کی وجہ سے نیپالی شھریوں پر بھی اس پابندی کا نفاذ کیا جائے۔
اس وقت بھارت کےوائرس ٹیسٹنگ نظام پر بھی ٹھیک ٹھاک سوالیہ نشان پیدا ہو چکے ہیں، گذشتہ ہفتے ایک بھارتی مسافر طیارے کے مسافروں کو ہانگ کانگ ائرپورٹ پر ٹیسٹ کیا گیا تو ۵۳ مسافر کووڈ مثبت پائے گئے، حالانکہ یہ سب بھارت سے ٹیسٹ کرا کر منفی کی رپورٹ لیکر آئے تھے۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے، خوش قسمتی سے ہمارے بھارت سے کشیدہ تعلقات بھی آج نعمت لگ رہے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے ہاں اب تک بھارت کی کہانی نہیں دُھرائی جارہی ۔
اس وقت پاکستان میں کورونا کی نئی لہر غالبا برطانوی B117یا کچھ حدتک جنوبی افریقہ B1351 جہاں سے ہمارے ہاں آمدورفت آج تک جارہی ہے۔اس وقت جنوبی افریقی B1351 بھی کورونا کی پریشان کُن قسم ہے لیکن بھارتی B1617 ان سے بدرجہا خوفناک ہے۔
یادرہے کہ B1617 قسم کا کورونا وائرس ، کورونا کی دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے، اگر یہ جن بوتل سے نکل گیا تو ہمارا بھی بھارت جیسا حال ہو سکتاہے۔
جہاں تک ویکسین کا معاملہ ہے اسرائیل اس کی اہم مثال ہے، جس نے ابھی تک پچاس فیصد آبادی کو ویکسین لگائی ہے۔پچاس فیصد آبادی کو ویکسین لگانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوری میں اسرائیل میں یومیہ دس ہزار مریض سامنے آرہے تھے۔اب وہ تعداد دو سو پر آگئی ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیل نے اب کھُلے عوامی مقامات پر ماسک کی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے (ان ڈور جگہوں پر اب بھی ماسک لازم ہے۔
لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل نے فائیزر کی ویکسین استعمال کی ہے اور اسکے نتائج ایک حد تک تو سامنے آگئے لیکن دوسری ویکسینوں کا کیا ہو گا؟
اس وقت ویکسینوں کی افادیت پر بھی سنجیدہ سوال کھڑے ہو چکے ہیں۔۔ مغربی ممالک بشمول اسرائیل تو فائیزر، موڈ رونا استعمال کررہے ہیں فائزر اور موڈ رونا کی ویکسین سے تمام موجودہ ویکسینوں میں بہتر نتائج پائے گئے ہیں لیکن کورونا کی روز بروز بدلتی ہوئی ماہیت دیکھتے ہوئے اس بات کئ کوئی ضمانت نہیں کہ یہ بھی تمام اقسام پر کارگر ثابت ہوں گی۔
آسٹرازینکا اور جانسن اینڈ جانس پر بھی سوالیہ نشان ہیں ان دونوں ویکسینوں کے استعمال کے بعد چند افراد میں blood clotting کی شکایت آئی ہے جو بعض جگہ جان لیوا بھی ثابت ہوئی، امریکہ میں جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کا استعمال معطل کرنے کے بعد آج ہی امریکی FDA اور CDC جو ادویات کی منظوری کے ذمہ دار ادارے ہیں نے اعلان ہے کہ چونکہ اس کے فوائد نقصانات سے بد رجہاں زیادہ ہے اس لئے (خطرہ مول لیتے ہوئے) اس کے استعمال پر پابندی اُٹھالی گئی ہے۔
درحقیقت وائرس بنانے والے اس لحاظ سے مشکل میں ہیں کہ کورونا کے معاملے میں انہیں نہ صرف موجود وائرس بلکہ اس کے تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے مستقبل میں آنے والے variant کے لئے بھی وائرس کی افادیت کو ملحوظ رکھنا ہے۔
جبکہ ہم سرکاری طور پر چینی اور نجی طور پر درآمد شدہ روسی ویکسین Sputnik استعمال کررہے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا کہ ہمارے زیراستعمال چینی و روسی ویکسین کے کورونا کی مختلف یا نئی اقسام کے مقابلے میں نتائج کے بارے میں کسی قسم کی تحقیق کی گئی ہے؟
اللہ ہمارے وطن و اہل وطن کو تمام مصیبتوں سے محفوظ رکھّے۔
آمین