کل جب سوشل میڈیا پر لاہور کے سانحے کی خبریں چھَن چھَن کر آرہی تھیں تو پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ وہ غصہ تحریک لبیک کے حامیان ہی نہیں مخالفین و ناقدین میں بھی محسوس کیا گیا۔
بعد خرابی بسیار پنجاب پولیس نے اس آپریشن کی وضاحت کی اور الزام لگایا کہ تحریک لبیک کے حامیوں نے صبح ایک تھانے پر حملہ کرکے ۱۲ پولیس والوں کو اغوا کرکے یرغمال بنایا تھا اس وجہ سے یہ آپریشن نا گزیر ہو گیا۔
چونکہ ایک تو تاخیر سے کرنے والے اعلان دوسرے اس نام نہاد ریاست مدینہ کی حکومت کے جھوٹ کا ایک ریکارڈ ہے ، اس ساری وضاحت پر عوام نے یقین نہیں کیا اور عوامی غم و غصے کے رُخ حکومت کی طرف مُڑ گیا۔
چونکہ اب بڑی حدتک یہ ثابت ہو چکا ہے کہ واقعتاً تحریک لبیک کے حامیان نے تھانے پر حملہ کرکے پولیس افسران و سپاہیوں کو یرغمال بنایا تھا جماعت اسلامی کے ایک رہنما لیاقت بلوچ کے قریبی عزیز بھی مغویوں میں شامل تھے۔
درحقیقت حکومت نے اس معاملے کو اپنی عادت و روایت کے مطابق مس ہینڈل کیا۔پہلےتو فوری طور پر آپریشن لانچ کرکے چند گھنٹوں کے بعد ہی پریس ریلیز جاری کیا۔تاخیر کی وجہ ان کا سچ بھی جھوٹ سمجھا گیا۔ اگر حکومت بروقت اعلان کرکے چند گھنٹوں مذاکرات کرکے آپریشن لانچ کرتی تو رائے عامہ دوسری طرف ہو جاتی۔
لیکن اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی سیاسی سوچ کا نہ ہونا ہے۔ رائے عامہ انکے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ایسا ہی آصف علی زرادری کا رویہ تھا اس کے دور میں بے تحاشہ کرپشن کی داستانوں نے انہیں بدنام کردیا تھا لیکن چونکہ وہ اپنے توڑ جوڑ کی صلاحیت کے زعم میں مطمئن تھے اس لیے انہوں نے کبھی پروا نہیں کی اور اپنے تاثر کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی۔
اس کا نتیجہ توڑ جوڑ کی صلاحیت نے اب بھی انہیں کنگ میکر تو بنایا ہوا ہے لیکن سوائے سندھ کے باقی پاکستان کی انتخابی سیاست میں معدوم ہوتے جارہے ہیں، کچھ ایسا ہی معاملہ موجودہ نابالغ حکمرانوں کا ہے اور یہی نوشتہ دیوار ہے۔
تحریک لبیک پاکستان گو ابھی تک ٹی وی بیچو اور اسلحہ خریدو کی طرف نہیں گئی ہے۔ لیکن اسکی اُٹھان درحقیقت اس قسم کے روئیوں پر بروقت نکیل نہ ڈالی گئی تو ایک دوسری ایم کیو ایم تیار ہورہی ہے۔کراچی میں یہی ہوتا تھا کہ فوجی و پولیس اہلکار مذاکرات کے ذریعے رہا کروائے جاتے تھے۔
ابھی تو ابتدا ہے لیکن انداز تشویشناک ہیں، اب بھی وقت ہے کہ معتدل بریلوی علماء و اکابرین بالخصوص مفتی منیب الرحمن کو آگے لاکر ان سے درخواست کی جائے۔ مفتی منیب؛ صاحب علم اور انتہائی حلیم الطبع شخصیت ہیں لیکن درحقیقت حکومت نے ایک وقتی ڈنگ پٹاؤ انتظام کے تحت ایک ناقابل عمل قسم کا معاہدہ کرکے ان کے لئے بھی مشکل پیدا کردی ہے۔
اس وقت وہ ذرا سی بھی لچک دکھائیں گے تو تحریک لبیک کے انتہا پسندوں کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔دوسری طرف تحریک لبیک کا مطالبہ بڑی حدتک مبہم ہے۔ اس میں فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی بات نہیں کی گئی ہے بلکہ فرانسسی سفیر کو بھیجنے کی بات کی گئی ہے۔
اس لئے حکومت اس مطالبے کے کم از کم letters پر عمل کرتے ہوئے فرانس سے سفیر کی تبدیلی کی درخواست کرکے موجودہ سفیر کی روانگی کا اعلان کرکے تناؤ ختم کرسکتی ہے۔ اور مفتی منیب الرحمن کے ہاتھوں میں بھی آگے پیش کرنے کے لیے کچھ مل جائے گا۔
وقت کی ضرورت ہے کہ انتہاپسند گروپوں چاہے تحریک طالبان ہو یا تحریک لبیک کو بے اثر کرنے کے لئے ان مسالک کے معتدل علماء کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں۔
علماء کو بے توقیر کرنے کا رویہ حکومت و حکومتی جماعت کے سوشل میڈیا مجایدین انہیں کہیں نہیں لے کر جائے گا بلکہ نفرتوں میں اضافے کا سبب بھی بنے گا۔
اس ملک کے مفاد میں ہے کہ چیزوں کو ٹھنڈا کیا جائے اور دوسری طرف اراکین اسمبلی پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی و روئیوں کا پارلیمانی احتساب کیا جائے ۔
یادرہے کہ صدارتی نظام میں مینڈیٹ صدر کا ہوتا ہے اور پارلیمنٹ (جیسے امریکی کانگریس و سینٹ صدر کے اختیارات پر بطور چیک ہوی ہیں۔
ہمارے ہاں ایک غلط العام ہے کہ مینڈیٹ وزیر اعظم کا ہوتا ہے ۔ درحقیقت پاکستان کی پارلیمانی جمھوریت میں مینڈیٹ کسی فرد کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا ہوتا ہے وہ وزیراعظم و وزیر اعلی منتخب کرتی ہیں۔ اگر پارلیمنٹ محسوس کرتی ہے کہ اس کے منتخب کردہ ذمہ داران اہنے فرائض درست طور پر انجام نہیں دے پارہے ہیں تو اس کا فرض بنتا ہے کہ ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے پارلیمانی احتساب کی روایت قایم کرے۔
اسی طرح اگر پارلیمنٹ کا منتخب وزیر اعظم و وزیر اعلی اپنے فرائض کماحقہ طور انجام نہیں دے رہا ہے تو یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری اور ارکین پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ اس کا احتساب کریں اور افگر ضرورت پیش آئے تو متبادل رکن پارلیمان کو ذمہ داری تفویض کریں۔
یادرہے کہ براہ راست منتخب کردہ اسمبلی کے ممبران چاہے کسی بھی جماعت کے جھنڈے پر منتخب ہوئے ہوں اصل میں وہ اپنے ووٹروں کے ووٹوں کے امین و جوابدہ ہیں۔انہیں پارٹی نے ٹکٹ دیا ہوگا کہ ووٹ وہ عوام سے لیکر آتے ہیں۔
جہاں تک عدم اعتماد میں اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر پارلیمانی نشست سے محرومی کی آئینی شرط۔ معذرت کےساتھ ابھی تک پاکستان میں کوئی اسمبلی کا ممبر اس شرط کی وجہ سے اپنی سیٹ سے محروم نہیں ہوا۔
سنگاپورکی پارلیمنٹ میں اس سے ملتا جُلتا معاملہ پیش آیا تھا جب ایک اپوزیشن کے ممبر نے سنگاپور حکومت کے کسی دوسرے ملک کے ساتھ تنازعے میں اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف حکومت کے حق میں ووٹ ڈالا جس کی پاداش میں اسکی اسمبلی کی رکنیت ختم کر دی گئی۔
وہ اپنا کیس عدالت میں لیکر گیا اور دلیل یہی تھی کہ ملک و قوم کا معاملہ جماعتی سیاست سے بالاتر ہوتا ہے۔اور عدالت نے اس کی اسمبلی کی رکنیت بحال کردی۔
اس ملک کو جمھوری راستے پر چلانےکی ذمہ داری عدلیہ و پارلیمان پر ہے۔ ان دونوں اداروں کی کمزوری کا نتیجہ غیر جمھوری قوتوں کا پس پردہ یا کھلے بندوں کھیلنا ہے ۔
ملک وقوم کا مفاد سارے سیاسی و جماعتی مفادات سے بڑھ کر ہے۔ ہمیں اس سسٹم کو کامیاب کرنے کے لئے اسے آئین کے الفاظ نہیں روح کے مطابق چلانا پڑے گا۔ اس کے لئے سُپریم کورٹ آئین کی تشریح کے اختیارات کے ساتھ اہم ترین ادارہ ہے۔
اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے ۔ آمین