بلومبرگ میں شایع ہونے والے ایک حالیہ مضمون جوکہ ایک بھارتی نثراد شخص کی تحریر ہے، کے مطابق متحدہ عرب امارات نے پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے لیے پس پردہ کردار انجام دیا ہے۔
یقیناً پس پردہ کچھ نہ کچھ ہورہا ہے لیکن مضمون نگار جو بہرحال بھارتی یا بھارتی نژاد شخص ہے، نے اس تحریر میں اپنا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔
اس پورے مضمون میں ۲۵ فروری کے ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ( DGMO )کے مشترکہ بیان کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے، حالانکہ DGMO کا کسی بھی معاملے میں انتہائی محدود طور پر سرحد کے دونوں جانب ہونے والی فائرنگ کے واقعات کو کم کرنے اور حادثاتی طور پر دونوں ممالک کے سرحد پار کرنے والے فوجیوں کی واپسی کی حدتک ہوتی ہے۔
ان کا بڑی تصویر یعنی تنازعات کو طے کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے وہ معاملات سربراہان مملکت و محکمہ خارجہ کے درجے پر طے ہوتے ہیں۔ یا پاکستان کے تناظر میں آرمی چیف بھی کود ہی پڑتا ہے۔
جس بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ متحدہ عرب امارت کو ان مزاکرات سے نتھی کیا گیا تھا تو یاد رکھا جائے اس کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور ابوظہبی ہی سے ایک ببان میں ۱۸ دسمبر کو بین القوامی برادری کو انتباہ کیا کہ بھارت پاکستان میں ایک اور سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے منصوبے بنارہا ہے۔
اس بیان پر اس وقت بڑی لے دے ہوئی تھی، جیسا بھی ہو وہ یقیناً شاہ محمود قریشی کو متحدہ عرب امارت کے میزبانوں یاثالثین کی طرف سے کسی خوشخبری کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔
یقیناً درون خانہ کچھ نہ کچھ تو ہورہا ہے لیکن توقعات محدود ہی رکھی جاہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت نے بھی اپنا ڈپلومیٹک قبلہ بھارت کی طرف منتقل کر لیا ہے اس کے بعد اب پاکستان کے عرب ممالک سے اس نوعیت کے تعلقات بھی نہیں رہے کہ وہ ایک حد سے زیادہ دباؤ استعمال کرسکیں ۔
بھارت یقیناً پاکستان کی بہ نسبت چین کو اپنا بڑا حریف سمجھتا ہے، گذشتہ سال کے لداخ پر چینی قبضے کے معاملے میں (جو اب بھی جاری ہے) بھارتی تجزیہ کاروں کی پریشانی چین سے جنگ کے ساتھ ساتھ دوسری سمت سے پاکستانی حملے کا بیک وقت مقابلہ کرنے کی بھی تھی۔
یقیناً بھارت کی خواہش ہوگی، کہ پاکستان کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ ہو جائے جس کے بنیاد پر وہ عارضی طور پر چین پر اپنی توجہ مرکوز کرسکے۔ یا کم از کم چین کے ساتھ کھلی جنگ کی صورت میں کشمیر میں پاکستان فائدہ نہ اُٹھاسکے۔موجودہ صورتحال میں پاکستانی و چینی دفاعی تعاون کو دیکھتے ہوئے یہ بات کچھ ناممکن بھی نہیں ہے۔
یہی بھارت کے سرپرست بڑی طاقتوں کی بھی خواہش ہوگی ۔ کہ انکے لئے پاکستان افغانستان میں اپنے مسائل کو حل کرنے کی حد تک اوزار کی اہمیت رکھتا ہے۔ جبکہ بھارت انکے لئے تزویزاتی طور پر چین کے بڑہتے ہوئے اثر و رسوخ پر بند باندھنے کے لئے اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔
اوزار بدلتے رہتے ہیں، لیکن پارٹنرشپ (بھی بدل جاتی ہے) پر اس کی زندگی کچھ طویل ہوئی ہے ۔ بہتر ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کا تعین اپنی اوقات کے مطابق کریں۔ کہ ہماری تاریخ میں سب سے بڑے نقصانات اسی وقت ہوئے جب ہم اپنے بارے میں خوش فہمی کے اسیر ہوئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا بھارت ہماری کشمیر کی سرحدوں پر امن قائم رکھنے کے لئے کم سے کم (ہمارے لئے) قابل قبول قیمت ادا کرنے کو تیار ہوگا؟
ہماری کم از کم قابل قبول قیمت کیا ہوگی؟
جنرل پرویز مشرف نے بھی بڑی حدتک کشمیر کی بارڈر کھولنے عوامی رابطے آسان کرنے کی تجویز دی تھی۔ لیکن اس وقت بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور انتہاپسندوں نے مسترد کردیا تھا۔
موجودہ صورتحال میں بھارت کبھی بھی ہماری شرائط پر کوئی امن معاہدہ نہیں کرے گا۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق جس میں کچھ حقیقت بھی ہے ہم اپنی خوفناک معاشی صورتحال کے بوجھ تلے دب کر دوسرے سویت یونین بن سکتے ہیں۔
جس طرح سویت یونین کو آہنی پردے نے یکجا رکھا ہوا تھا ہم نے بھی اپنی سلامتی کی ضمانت عوام کی خوشحالی کی بجائے “آہنی مکّہ “ سمجھا ہوا ہے تاریخ کاسبق یہی ہے کہ آہنی پردہ سویت یونین کو نہیں بچا سکا اور خاکم بدہن “آہنی مکّہ” بھی ہماری سلامتی کی ضمانت نہیں رہے گا۔
اللہ پاک سے دعاء ہی کہ جاسکتی ہے کہ ہمارے ارباب سیاست و اشرفیہ کو عقل سلیم دے۔آمین