یوسف رضاگیلانی کی سینٹ کے انتخابات میں حیران کُن فتح سے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ گلّہ بانوں نے اپنا کردار کیوں ادا نہیں کیا؟
بظاہر ایمپائیر بھی اس نااہل و ناکارہ حکومت سے بیزار ہو کر ان کے لئے مزید بیساکھی بننے سے احتراز کرتے نظر آرہے ہیں۔
لیکن “ان” کے مکمل غیر جانبدار ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس ملک کی تاریخ کا بیشتر حصے میں یہ بادشاہ نہیں تو بادشاہ گر ضرور رہے ہیں، اور “تخت یا تختہ “ کے مصداق یہ کبھی تائب یا غیر جابندار ہونا برداشت ہی نہیں سکتے۔ یہ ہر شیر کے سوار کا مخمصہ ہوتا ہے کہ سوار ہونا آسان ہے لیکن شیر سے اترنا مشکل ۔
عوام اپنے اداروں سے بے تحاشہ محبت و عقیدت کا تعلق رکھتے ہیں، لیکن ان کی خواہش ہے کہ ادارے اپنے آئینی دائرہ کار تک ہی محدود رہیں ۔۔ لیکن 70سال کی تاریخ میں بہت سے “مشکل مقامات و سوالات ” کے جوابات بھی باقی ہیں۔ان سے بچنے کے لئے دور بیٹھے پتلی تماشے کے ذریعے بادشاہ گری ہی میں عافیت لگتی ہے۔
پروکسی جنگوں و پروکسی حکومتوں کے دور میں “گلہ بان” بھیڑوں کو اسی طرح بزور ڈنڈا سنبھالتا رہے گا۔ فرق اتنا ہے کہ فضا میں چکراتا ہُما بہ اشارہ “گلّہ بان” کسی کے بھی سر پر گھونسلا بنا کر اس میوزیکل چیئر کے زریعے ہم جیسوں کی دلبستگی کا سامان بھی کرتا رہے گا۔
ویسے بھی فتح کے سو باپ اور شکست یتیم ہوتی ہے، جب تک کھیل چلتا رہے گا جیتنے والوں کو سلام و سیلیوٹ کرنے والے کم نہ ہوں گے۔ میڈیا پر مکمل کنٹرول کے بعد ان کی مرضی کے خلاف سوچنا ، بولنا اورسُننا بھی بلاسفیمی بن چُکاہے۔
شروع میں مولانا فضل الرحمن و نواز شریف نے براہ راست “ریوڑ کے رکھوالے ” عرف گلّہ بان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن اس کے بعد پُراسرارخاموشی اور درستگی قبلہ کا آپریشن ۔۔۔ جو اب تک جاری ہے۔
سیاست میں ٹائمنگ کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ 2018ء میں عمران کا گراف اپنی انتہا پر تھا۔ لیکن مداری نے اس وقت جان بوجھ کراسے ڈھیلی نیکر پہنادی تاکہ نیکر سنبھالنے کے سوا کچھ نہ کر سکے، وہ نیکر سنبھال آپریشن اب بھی جاری ہے، اس چکر میں عزت گنوا کر آج اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ایک دلچسپ سوال یہ بھی ہے کہ یہ کیسے ہوا اور کیونکر ہوا۔۔کیا واقعی حفیظ شیخ کی شکست غیر متوقع تھی ؟ یہ بات واضح تھی کہ پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت سے محروم حکومت اسلام آباد سے سینیٹر منتخب کرانے کے لئے اپنی اتحادی جماعتوں کے تعاون کی محتاج تھی۔جس کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔
اگر حفیظ شیخ واقعتاً عمران خان کے لئے اتنے ہی اہم تھے تو انہیں کسی بھی محفوظ صوبائی کوٹے پر بآسانی منتخب کرایا جاسکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ انہیں اسلام آباد کی نسبتا پُر خطر سیٹ پر نامزد کیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ حفیظ شیخ درحقیقت “گلّہ بانوں” کا انتخاب تھے اس لئے اس توقع پر کہ تمام تر باہمی سرد مُہری کے باوجود وہ ان کے انتخاب میں مداخلت کرکے انہیں کامیاب بنوائیں گے، انہیں اسلام آباد کی پُر خطر سیٹ سے انتخاب لڑوا یا گیا، بدقسمتی سے یہ توقع پوری نہیں ہوئی۔
کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ یہ حکومتی پارٹی کا جانا بوجھا اقدام تھا کہ اگر یہ جیت گئے تو ایک مشکل سیٹ ان کے ہاتھ میں آجائے گی اور اگر ہار بھی گئے تو “اوپر سے تھوپے” جانے والے نا پسندیدہ مہمان سے جان چھوٹ جائے گی ؟
کم از کم مجھے نہیں لگتا حفیظ شیخ پی ٹئ آئی یا عمران خان کی ترجیح اوّل تھے۔ ورنہ آسان جگہوں سے منتخب کرنا کوئی مشکل نہیں تھا۔
اگر 2018ء میں عقلمندی کے ساتھ، حلف اُٹھاتے ہی یا چند ماہ کچھ مقبول اقدامات کرکے feel good factor بنا کرکے، اسمبلی توڑ کر قوم سے مضبوط مینڈیٹ کی اپیل کرتے تو وہ نہ صرف نواز ، زرادری ۔۔ بلکہ ایمپائیر وں کا بھی کھیل اُلٹنے کا امکان تھا۔
اب وہ وقت گذر گیا ہے، تین سال میں گورنینس کے فقدان بدترین و غیر سنجیدہ حکمرانی نے اس کے اچھے منتظم کے تاثر کو خوفناک حدتک مجروح کردیا۔
بظاہر قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کہ پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کے پاس مکمل اکثریت نہیں ہے اور کسی بھی اعتماد کے ووٹ کے لئے ایک بار پھر اتحادیوں کے ترلے و خوشامدیں کرنی ہوں گی۔جس کی ان حالات میں کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
آخری کام اگر وزیراعظم ہمت کر سکے تو اسمبلی توڑنے کا ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں ملک گیر طور پر دوہی جماعتیں ہیں۔۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی سندھ کی پارٹی ہے اور ایسے ہی رہے گی۔
اس وقت اسمبلی توڑنے کا مطلب عمران خان کی طرف سے اسٹیبلشمنت کو “نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے” کے پیغام کے مترادف ہوگا۔ کہ پی ٹی آئی دوبارہ اقتدار میں آنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی ، بلکہ ن لیگ کی پوری قوت (ہیوی مینڈیٹ) کے ساتھ واپسی ہوگی ۔ جو اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں چاہے گی۔
ان کی ترجیح ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے کسی بہتر اور قابل قبول بچّہ جمورے کو کھڑا کرنا ۔۔ دوسال میں (اگر اسمیں دم ہوا اور کچھ پرفارمنس دے سکا تو)2023ء کے انتخابات میں کھڑے ہونے کے قابل بنا کر مصنوعی طریقے سے ٹیسٹ ٹیوب متبادل قیادت پیدا کی جائے۔
سچّی بات ہے کہ بھٹو، نواز شریف، و عمران خان سب ہی کسی نہ کسی درجے میں فوجی لیبارٹریوں کے ٹیسٹ ٹیوب بے بی رہے ہیں۔ بعض بڑے ہو گئے اور بعض ویسے کے ویسے رہ گئے۔
کل کیا ہو گا کس کو پتہ اس وقت تو مداری بھی پریشان ہے کہ بندر ناچنے کے قابل نہیں ہے۔