بائیبل میں حضرت عیسی علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب وہ کوہ زیتون سے ہو کر عبادت گاہ میں آئے تو لوگ ایک زانی عورت کو پکڑ کر لائے اور کہنے لگے کہ موسیٰ اور اس کا قانون کہتا ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔ درست ’’اب تم میں سے جو کوئی گناہ گار نہ ہو وہ پہلا پتھر مارے‘‘۔
موجودہ حکومت نے سینٹ کے انتخابات کو خفیہ رائے شماری کی بجائے کھلے شو آف ہینڈ کے ذریعے کرنے کا فیصلہ کیا تو ہماری “معصوم” اپوزیشن میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔
اسے نقب لگانے کی کوشش کا نام دیں یا کچھ اور کہ نقب تو جب بھی جس کا موقع ملا ہے سب نے ہی لگائی ہے۔ وردی والے ڈنڈا نقب لگاتے ہیں اور سویلین چھانگامانگا نقب، ساتھ میں بریف کیسوں کے بھی تڑکے ہوتے ہیں۔ہر ایک کا اپنا چھانگامانگا۔
ویسے حیرت کی بات ہے کہ اس سے پہلے خفیہ رائے شماری کے دوران عموماً حزب اقتدار اپوزیشن کے “معصوم” ممبران اسمبلی کو ورغلانے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔ اس لئے ان کے لئے سب سے بڑا درد سر اپنے “چوزوں” کو دڑبے میں رکھنے کا ہوتا تھا۔
اس مرتبہ شاید حکومتی چوزے “آوارہ” ہوتے نظر آرہے اس لئے وہ کھلی رائے شماری کے لئے نہ صرف سپریم کورٹ پہنچ گئے بلکہ سُپریم کورٹ کے فیصلے میں تاخیر کی توقع کے تحت آرڈیننس بھی لے کر آگئے۔
یہ ساری مشق چاہے حکومت کرے یا اپوزیشن کا دفاع کرنا غیر اخلاقی اور غیر جمھوری بھی ہے۔ کیوں نہ اپوزیشن و حکومت اس مرتبہ مل کر اس چھانگا مانگا کی دوکان سارے ایوانوں میں چاہے قومی، صوبائی اسمبلی و سینٹ میں ہر قسم کی خفیہ رائے شماری کو ختم کردے چاہے وزیر اعظم، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر ہو یا سینٹ کے چیئرمین کا انتخاب تو یہ اس قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ تو میرا نہیں تھا اور میں تیرا نہ تھا
چاہے اس کی قیمت میں فلور کراسنگ کی شق کو جیوڈیشیل جائیزے سے مشروط ہی کرنا ہو۔تو یہ کوئی بڑی قیمت نہیں ہے، کہ کم از کم اپنی جماعتوں کو دھوکہ دینے والے سرعام برہنہ تو ہوں۔
جہاں تک فلور کراسنگ کی شق تعلق ہے مجھے سنگاپور کا ایک کیس یاد آگیا۔ سنگاپور کا ایک معاملے میں فلپائین سے تنازع تھا اس معاملے پر جب پارلیمنٹ میں بحث ہوئی تو اپوزیشن کے ایک پُرانے ممبر اسمبلی نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا ۔
اس پر اس کی جماعت نے فلور کراسنگ کی شق کا اطلاق کرکے اس کی ممبر شپ ختم کردی ، یہ معاملہ سنگاپور کی ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہوا، وہاں پر اس ممبر کا موقف یہ تھا کہ اس وقت سیاسی معاملہ نہیں بلکہ قومی معاملہ ہے اور میں نے سیاست سے بالاتر ہو کر ملک وقوم کا ساتھ دیا۔ عدالت نے انکی ممبرشپ بحال کردی۔
مجموعی صورت حال میں اگر سپریم کورٹ کے کیس کا فیصلہ سینٹ کے انتخاب سے پہلے آگیا تو سارا آرڈیننس ویسے ہی ہوا میں اُڑ جائے گا۔لیکن کیا ہمارے اسمبلی کے ممبران کو شرم نہیں آتی کہ انہیں اپنے ایوان میں دئیے ہوہے ووٹ بھی خفیہ رکھنے پڑتے ہیں؟
مجھے اس حکومت سے کوئی بہتر اُمید نہیں ہے۔ لیکن اصولی طور پر ایوان میں ڈالے جانے ووٹ خفیہ رکھنا ایوان اور جمھوریت کی توہین اور ہارس ٹریڈنگ کاراستہ کھولنے کے مترادف ہے
درحقیقت ہم بزدل قوم ہیں اس لئے ہم ووٹ کا استعمال ڈنکے کے چوٹ پر کرنے کی بجائے خفیہ طور پر کرنا پسند کرتے ہیں ایسی بزدل قوم کے رہنما بھی اتنے ہی بزدل ہوسکتے ہیں۔
کم از کم یہ فقیر تو ہر صورت میں کھلے ووٹ کا حامی ہے بشرطے کہ صرف سینٹ ہی نہیں بلکہ سارے ایوانوں میں ہونے والی ووٹنگ شفاف اور کھُلی ہو۔آپ امریکہ کے نظام کو دیکھیں کہ وہاں کے ہر سینیٹر و کانگریس مین کے سارے ووٹوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔تاکہ بعد میں کسی بھی پالیسی یا ووٹ ہر اس کا گریبان پکڑا جاسکے۔
اگر اپوزیشن کو اس کھلی ووٹنگ سے اتنا ہی بڑا مسئلہ ہے تو سپریم کورٹ میں اس مسئلے کی فوری سماعت اور فیصلے کے آنے تک سینٹ کے انتخابات معطل کرنے کی درخواست دائر تو کرے۔۔۔ اس ملک میں ہونا ہوانا کچھ بھی نہیں لیکن شاید کوئی معجزہ ہو جائے۔