میرے ایک عزیز دوست و ماہر تعلیم پروفیسر انوار احمد شاہین نے ایک انتہائی دلچسپ سوال پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ چند اساتذہ کے درمیان کمرہ امتحان میں نگراں کے کردار پر تبادلہ خیال ہورہا تھا۔
“۔ میں نے سوال کیا کہ نگران کمرہ امتحان میں کیوں موجود ہوتا ہے ؟
بچوں کو نقل سے روکنے کے لیے ۔۔ سب نے متفقہ جواب دیا۔۔
آپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ بچے نقل کریں گے؟
جی ۔ وہ نقل کرتے ہیں۔
آپ نے بچوں کے بارے میں پہلے ہی سے تصور کر رکھا ہے کہ وہ بے ایمان ہیں۔ سال ہا سال سے بچے آپ کے پاس پڑھ رہے ہیں اور وہ پھر بھی نقل کریں گے تو ہم نے ان کو اخلاقی تربیت کیا کی ہے؟
دیکھیئے سر ! وہ نقل تو پھر بھی کرتے ہیں نا۔
اچھا!! تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم بے ایمان اور بد اخلاق طالب علم بنا رہے ہیں۔کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم بچوں میں خوف خدا پیدا کریں اور ان کی ایسی تربیت کریں کہ وہ موقع ملنے پر بھی بے ایمانی نہ کریں۔ ایسا اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب کہ بچوں کو نیک اور ایماندار سجھ کر ان سے برتاو کیا جائے اور ان کی تربیت کی جاۓ کہ وہ صرف خدا سے ڈریں اور نگراں کی غیر موجودگی میں بھی اپنا امتحان ایمانداری سے کریں۔
سر یہ بہت مشکل ہے۔ آپ بہت آیئڈیل باتیں کرتے ہیں۔
تو بھائی ! ہم پھر بچوں کو کیا پڑھاتے اورسکھاتے ہیں؟ یہ کہ اگر کوئی آپ کے سر پر موجود ہے تو آپ ایمانداری کریں اور اگر وہ نہیں ہو تو آپ بے ایمانی کر سکتے ہیں اور وہ جو نگران اعلی، ہمارا رب ہے جو مستقل دیکھ رہا ہے اور خبر رکھ رکھ رہا ہے اس کا کوئی خوف نہیں؟ بھائی اللہ تعالی نے انسان کو نیک فطرت پر پیدا کیا ہے ہم اس فطرت کو نشوونما کیوں نہین دے سکتے۔
مجھے حیرت ہوئی کہ وہ میری بات ماننے کو تیار نہیں تھے اور انہوں نے کہا سر! آپ بہت آئیڈیل باتیں کرتے ہیں۔
جس قوم کے اساتذہ اپنے بچوں پر ہی اعتبار نہیں کرتے اور ان کو بے ایمان سمجھ کر کے ان سے برتاؤ کرتے ہیں تو اس قوم کا پھر وہی حال ہو گا جو ہمارا ہے ۔ صرف اعلی اخلاق ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ضامن ہے ،کاش کہ ہمارے بڑے اس بات کو سمجھ جایئں۔”
پروفیسر صاحب کی بات درست ہے اور قابل غور بھی ہے لیکن بصد احترام بات واقعتا آئیڈیل ہی ہے۔
سر کیا یہ صرف ہماری قوم ہی کے ساتھ ہے؟ کیا یہ صرف ہمارے اسکولوں کے نظام میں ہے اور مدارس جو کہ اعلی دینی و اخلاقی تعلیم دیتے ہیں اس سے مثتثنیٰ ہیں؟
سر!! اخلاقی اقدار و تعلیم اپنی جگہ لیکن ہر ملک و شھر و قوم میں زیادہ نہیں تو کچھ لوگ ہوں گے جو قانون و اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی کریں گے ان کے لئے بحر حال پولیس و عدالت رکھی جاتی ہے۔
اللہ پاک نے جو علیم و خبیر ہے اس کے باوجود ہمارے کاندھوں پر کراماً کاتبین رکھے ہیں حالانکہ وہ منصف اعلی ہے بہ وقت ضرورت ہماری ہاتھ پیر و زبانوں کو ہمارے خلاف گواہ کے طور پر پیش کردے گا پھر بھی نگران متعین کیے ہوئے ہیں۔
یہی معاملہ امتحانات میں نگران کا ہے، دوسری بات یہ بھی کہ اگر ایک سو دیانتداروں میں چند بد دیانت طلباء اعتماد سے ناجائز فائدہ اُٹھائیں گے۔ تو اس کا نتیجہ ان کی قابلیت اور ادارے کے دئیے ہوئے سرٹیفیکٹ پر اعتماد کی کمی ہی نہیں بلکہ نیکی بمشکل اور بدی تیزی کے ساتھ متعدی امراض کی طرح بڑھتی ہے۔
وہ کہتے ہیں نا کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کرتی ہے۔ اس لئے تالاب کی حفاظت کی کے لیے چاہے ہمارے امتحان گاہ زندگی میں یا امتحان گاتعلیمی میں نگرانوں کی ضرورت ہوتی ہی ہے،
فرق اتنا ہے کہ کاندھوں والے نگران passive ہیں کہ وہ کسی اچھے بُرے کام کو روکتے نہیں بس ان کا ریکارڈ بنا رکھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر امتحانی نتائج سامنے آئیں گے۔ بلکہ چونکہ ممتحن اعلی مالک مطلق ہے وہ ساری رپورٹوں کو اُٹھا کر پھینک کر اپنا صوبدیدی اختیار استعمال بھی کرسکتا ہے۔ اس دنیا کے امتحانی دور میں ساری مشق اس بات کی ہے کہ ممتحن اعلی کی صوابدید کے مثبت طرف پر ہو جائیں ۔۔ ورنہ جیسا پیپر دیا ہے سب جانتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کے کمرہ امتحان والے نگران کی ذمہ داری تھوڑی سی active ہے کہ وہ طلباء کو غیر قانونی اقدامات سے روکنے کے ذمہ دار ہیں۔ درحقیقت دونوں کی ذمہ داری کمرہ امتحان کی حدتک ہے نتائج تو کوئی اور ہی مرتب کرے گا۔
یہ تو ہو گئی فلسفیانہ بات اب آجاتے ہیں حقیقی زندگی پر۔جب تک موجودہ نظام جو کہ کتب کے رٹّے کے ذریعے تکرار کر کے انہی جوابات کو امتحانی کاپی پر چسپاں کرنے کا رہے گا نقل کا رجحان باقی رہے گا۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ امتحانی نظام حافظے کا امتحان ہے یا قابلیت کا؟
یا حافظہ و قابلیت میں فرق ہے یا ایک ہی چیز کے دو نام ؟
کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک قوی الحافظہ طالبعلم قابلیت کے معیار پر کمزور ہو دوسری طرف ضعیف الحافظہ جو اسباق کو لفظ بہ لفظ یاد تو نہیں لیکن اپنے شعبے کو خوب جانتا سمجھتا ہو زیادہ قابل سمجھا جائے؟
لیکن اگر تعلیمی نظام اوپن بُک (جیسا اللہ پاک نے ہمارے لئے بنایا ہے کہ ساری کتاب سامنے ہے سمجھو و جواب دو) تو اس صورت میں امتحان طالبعلم کی یادداشت کا نہیں بلکہ اس نے کس حدتک کتابوں کو سمجھ کر جوقابلیت حاصل کی ہے اس کی مظاہرے کا ہو جائے گا (جو کہ بعض یونیوسٹیوں میں بعض پیپرز میں کیا جاتا ہے)۔
موجودہ کورونا اور اس کے نتیجے میں ریموٹ امتحانات بھی ایسی صورت پیدا کررہے ہیں جب لوگ گھروں پر بیٹھ کر آن لائن امتحان بھی دے رہے ہیں۔
اسکولوں کے درجوں پر بھی بجائے سالانہ امتحان کے نتائج کے طالبعلم کی مجموعی قابلیت جو کہ اس کی سال بھر کی کارکردگی ٹیچر کے نظر میں اور اس کے پروجیکٹ ور کس کے ذریعے ظاہر ہو کی بنیاد پر گریڈ دئیے جاسکتے ہیں لیکن اس صورت میں کلّاس ٹیچر اور اساتدہ پردباؤ میم اضافہ ہوگا۔
سنگاپورچمیں جہاں درحقیقت اے اور او لیول کا نظام ہے کہ انتہائی اعلی ترین اسکولوں نے تجر باتی طور پر انتہائی ذہین و قابل طلباء کو او لیول کے امتحانات سے مستثنیٰ کردیا ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ اولیول کا آخری سال درحقیقت ان کے امتحان کی تیاری میں ضائع ہوتا ہے۔ جبکہ اسکول کی نظر میں وہ طلباء اس قابلیت کے حامل ہیں اور صرف امتحان کی تیاری کے مشقیں کرنا وقت کا ضیاع ہے۔
تو بجائے اس گروپ کے طلباء کو امتحانات کی تیاری میں وقت ظاہر کرنے کے اس وقت کو انکی قابلیت میں مزید اضافہ کرنے لئے کچھ خصوصی کورسز کروائے جائیں ۔
اسی طرح ایک ممتاز یونیورسٹی نے انتہائی ذہین و قابل طلباء کے لئے حساب و سائنس کے لئے نہ صرف اپنا ہائی اسکول قائم کیا جس میں طلباء کو اے یا او لیول کے امتحانات کی بجائے وہ اسکول اپنا ڈپلومہ دے گا جو کہ اے لیول کے مساوی ہوگا۔ اور اسے دنیا کی ممتاز ترین یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے تسلیم کیا جائے گا۔
کیا ہمارے اساتدہ اخلاقی طور پر قابل اور مضبوط ہیں کہ کسی بھی طالبعلم کو ذاتی پسند ناپسند یا تعلقات دباؤ سے بالاتر ہو کر اسے گریڈ کر سکیں؟
اگر ایسا ممکن ہو تو سوائے انتہائی ضروری مواقعوں کے امتحانات کو ختم کردیا جائے۔ صرف اور صرف جماعت یا اسکول میں کارکردگی ہی معیار بنادیں لیکن چند اہم درجوں کے امتحانات لئے جائیں ۔
ویسے درحقیقت مختلف تعلیمی نظاموں میں IB (International Baccalaureate) میں غالبا امتحانات کی بجائے ٹیچر کی زیر نگرانی مختلف پروجیکٹ اور تھیسس ہی لکھوائے جاتے ہیں اور انہی کے بنیاد پر گریڈنگ ہوتی ہے۔ جو کہ تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا ہے۔ (آئی بی ڈپلومہ اے لیول کے مساوی سمجھا جاتا ہے)۔
اس ساری گفتگو کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ بچّوں کو ٹافی کی دوکان پر کھُلا چھوڑ کر یہ توقع کرنا کہ وہ ٹافی پر ہاتھ نہیں ماریں کی بجائے ان میں ٹافی کی خواہش / ضرورت یا craving کم یا ختم کردیں۔ بچّے بھی صحتمند ہوں گے اور ان کا ایمان و ٹافی بھی محفوظ رہیں گی۔