امریکی سیاست ایک عجیب دوراہے پر پہنچ چکی ہے۔ جذباتی طور پر غیر متوازن صدر ٹرمپ حالات کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ امریکی میڈیا بھی انہیں امریکی امن و سلامتی کے لئے خطرہ محسوس کرنے لگا ہے۔ فیس بُک و انسٹا گرام نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ پر کم از کم دو ہفتے اور ممکنہ طور پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی لگادی ۔
فیس بُک کے سی ای او مارک زکربرگ نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں صدر ٹرمپ کے فیس بُک استعمال جاری رکھنے سے حالات بگڑنے کا بہت زیادہ خطرہ ہے اس لئے ہم ان کے فیس بُک و انسٹا گرام کے استعمال پر غیرمعینہ مدت تک کے لئے پابندی لگا رہے ہیں جو کم از کم پُرامن انتقال اقتدار تک جاری رہے گی۔واضح رہے کہ ٹوئیٹر پہلے ہی امریکی صدر کا اکاؤنٹ معطل کر چکا ہے۔
کہاں گیا مغرب کا آزادی اظہار کا سبق؟ تیسری دنیا کے ممالک میں اپنے میڈیا کے ذریعے فساد برپا کرنے کے لئے تو یہ سب آزادی اظہار کے چیمپین بنتے تھے لیکن جب آگ اپنے گھر تک پہنچی تو یاد آیاکہ ذمہ دارانہ صحافت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ کل کی ٹرمپ کی ریلی و تقریر کا سارے امریکی میڈیا بشمول ریپبلکن پارٹی کے ماؤتھ پیس فوکس ٹی وی تک نے بلیک آؤٹ کیا تھا شاید پہلی مرتبہ کسی امریکی صدر کا امریکی میڈیا نے بیک آؤٹ کیا ہوگا۔
کل امریکی کانگریس میں جو ہوا وہ بھی امریکی سیاست کا سیاہ باب تھا، لیکن ٹرمپ نے اپنے نائب صدر مائک پینس جو کل کی سینٹ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کررہے تھے کو اپنے اختیارات استعمال کرکے انتخابات کو منسوخ کرنے کے لئے کہا تھا لیکن مائک پینس نے یہ کہتے ہوئے کہ اس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے، اس حکم کو مسترد کردیا۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکی سیاست دونوں ستون کے سنجیدہ ممبران اس وقت ٹرمپ کی موجودہ حرکتوں کو ملک کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ ابھی ابھی خبر آئی ہے امریکی سینٹ کےڈیموکریٹ لیڈر چک شومر نے ٹرمپ کی فوری برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔دیکھتے ہیں ریپبلکن ممبر اس پر یا رد عمل پیش کرتے ہیں ۔
اب دیکھنا ہے کہ کیا واقعی ٹرمپ کو ایوان صدر سے وقت سے پہلے اُٹھا کر پھینکا جاسکتا ہے؟ بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ ٹرمپ کو کسی بھی طرح نکیل ڈال کر اس کے دور صدارت کے باقیماندہ دو ہفتے گذار کر باعزت طریقے سے رخصت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔