ہم ایک شدت پسند اور مکمل طورپرمنقسم معاشرہ ہیں ۔ جس میں ایک طرف ہم اپنے معشوق کی بےوفائیوں کے بارے میں ایک لفظ تک سُننا برداشت نہیں کرتے، دوسری طرف جن کے بارے میں ہمارے دل میں بال ہو ان کی جان و مال ، عزت و آبروسب پر ہاتھ صاف کرنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں۔
سقوط ڈھاکہ کی یاد نے کچھ پُرانے زخم ہرے کردئیے، اس کے ساتھ ہی گذشتہ چند سالوں میں “اُن” کے کردار پر بھی جو شکایات کہیں دبی زبانوں اور کبھی واشگاف نعروں کی صورت میں سُننے میں آرہی ہے کے اخراج کا بہانہ بھی بن گیا۔ یقیناً “اُن” کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سانحہ APS کی آڑ میں “اُن” کئ بدترین بلکہ ذلت آمیز شکست کو دفن کردیا جائے۔ لیکن تاریخ کو بھلانا آسان نہیں ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سقوط ڈھاکہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ دوسری طرف اسکے بہانے “اُنہیں ” تختہ مشق بنانے کی کوششیں بظاہر حُب علی سے زیادہ بغض معاویہ کامعاملہ لگتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس “معاویہ” کے اپنے بعض کام بھی ایسے ہیں کہُ ہم جیسے عاشق” بوٹاں” بھی کہے بغیر نہ رہ سکتے کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔ اوپر سے انکا یار ہینڈسم اور طرحدار تو ہے۔ لیکن ہلکے پیٹ کا تھوڑا منہ پھٹ بھی کہ عشق و عاشقی کی باتیں ہونٹوں سے نکلی کوٹھوں پر چڑہی۔
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
شرم و حیا تو مدت سے رخصت ہوئی پھر بھی کوئی اخفا بھی ہوتا ہے۔ بیچارا عاشق” ایک پیج” کی بدنامی لیکر منہ چھُپائے پھرتا ہے۔ عشق سے انکار بھی نہیں اقرار کرتے ہوئے “لاج” آتی ہے کہ دنیا کیا کہے گی۔ اب محبوب کے غمزے بھی برداشت کرنا مجبوری۔
جب سقوط ڈھاکہ کا ذکر چھڑے تو بعض مردان حُر آئین کے غداروں کو پھانسی دینے سے کم پر رُکنا نہیں چاہتے ۔کہ ان سے بڑا آئین کا رکھوالا اس ملک میں پیدا ہی نہیں ہوا۔
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
جب ذکر یار چلتا ہے تو بات بہت دور تک جاتی ہے کہ غداروں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ کوئی غدار بغیر سہولت کاروں کے آئین، قوم و ملک کا بلتکار نہیں کرسکتا۔اگر علی بابا کو لٹکانا ہے تو ساتھ کے چالیس چوروں کو چھوڑنا انصاف نہیں ہے۔
پھانسی دینے تک بات پہنچے تو شاید چوک کم پڑجائیں گے بلکہ ہر گلی محلے میں گرین چوک (یاد ہے سوات میں TTP کے دور میں ہو کرتا تھا) بنے گا۔ نہ جانے کون کون زندہ و مردہ جج، جنرل و سیاستدان لٹکا نظر آئے ۔ہر طالع آزما جنرل کی بغاوت پر مہر تصدیق کرنے کے لئے عدلیہ جسٹس منیر سے لیکر جسٹس ڈوگر تک نے پورا پورا کردار انجام دیا۔
سیاستدانوں کی بات ہی کیا جو ہر طالع آزما کا دست و بازو بن کر جمھوریت کی لاش کو نوچ نوچ کر کھانے والے گِدھ بنے۔ ان کے بارے بات کرتے ہوئے ہمیں ہی شرم آجاتی ہے۔ ان میں جنرل ایوب کی حمایت میں مادرملّت کی توہین کرنے والے ، جنرل ضیا کے دست پر بوسہ دیکر “قبول اسلام” کا نعرہ لگانے والے بھی ۔اور جنرل مشرف وردی میں دس بار صدر منتخب کرنے کے عزم کا اظہار کرنے بھی اب تک تبدیلی کی دھنوں پر مجرا کرنے والوں میں شامل ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی تاریخ کا ذہین ترین کرشماتی سیاستدان جو اسکندر مرزا کو قاید اعظم سے ملاتے ہوئے، جنرل ایوب خان کو ڈیڈی بنا کر ایوب کُتا ہائے ہائے کی تال پر رقص کرتا 1971 تک لے گیا۔ 1971 کے بعد بھی جب “بِلّا” قابو آچکا تھا اور فوج میں بھل صفائی کے کچھ عرصے بعد ہی اپنے ہی تعینات کردہ فوج اور ایئرفورس کے سربراہ کو ذلت آمیز برطرف کرنے کے باوجود حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے خزانے پر کوئی جنرل نہیں بلکہ “قاید عوام “بیٹھے رہے ۔
موجودہ ووٹ کی عزت کے نقیب اعلی جو کچھ عرصے کے لئے جنرل ضیا کی قبر کے مجاوراِن چیف بھی رھے، اور جنرل ضیا کے خیرات شدہ مضبوط کلّے کے فیض یافتہ بھی اور اس کی ابتدائی چند برسیوں میں زور و شور سے اسکا مشن مکمل کرنے کا عہد کرنے والے بھی۔
جب فضا بدلی تو ووٹ کی عزت کے چورن کے نام پر سویلین بالادستی کی تحریک بھی یہی چلاتے ہیں۔اقتدار سے اترنے کے بعد حسب ضرورت و مصلحت GHQ سے رات کی تاریکی میں مُلاقاتیں بھی یہی کرتے کراتے رھے۔
سیاچین کی جنگ کے دوران اگلے محاذوں پر جاکر تصویریں کھنچواتے رہے لیکن جب کھیل اُلٹ گیا اور بل کلنٹن کی مدد سے ہونے والی شرمناک پسپائی کے بعد دونوں (نواز شریف و جنرل مشرف) ایک دوسرے کو الزام دیتے پائےگئے۔سچ ہے کہ شکست یتیم ہوتی ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے اگر واقعتا یہ مہم بغیر وزیراعظم کی اجازت کے کی گئی تو، کارگل کی پسپائی کے بعد جنرل پرویز مشرف کے خلاف کسی کارروائی کی بجائے اسے چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اضافی عہدہ کیوں دیا گیا تھا؟
پرویز مشرف سے تو ان کا ذاتی حساب تھا تب بھی حسب ضرورت و سہولت دوبئی میں بیٹھے ہوئے عدالتی سزایافتہ “غدار” کو روانہ کرنے والے بھی “ مرد آہن و اتفاق “ تھے۔ ووٹ تو اس وقت بھی انکے پاس تھے، اسوقت عزت وحُرمت کا احساس نہیں تھا۔ تخت اقتدار سے اترتے ہی وہ فراموش کردہ عزت یاد آئی۔
بحریہ کے سابق چیف ایڈمرل منصور الحق پاکستان میں کرپشن کے بعد مفرور ہوکر امریکہ میں تو جیل میں رہے لیکن پاکستان میں پورے پروٹوکول کے ساتھ ریسٹ ہاؤس میں “مقید” رہے اور پھر پلی بارگین کے تحت باعزت رہا بھی کردئیے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ کسی فوجی جنرل کے دیے ہوے NRO نہیں بلکہ ووٹ کی عزت اور سولین سپریمیسی کے سب سے بڑے علمبردار “مرد آہن و اتفاق” جو اس وقت ہیوی مینڈیٹ کے گھوڑے پر سوار بھی تھے کے زیر سایہ یہ شرمناک ڈیل سرانجام پہنچی۔
یہ سب سہولتکار تھےاور ہیں، اقتدار کے پجاری طاقت اور اقتدار کے گھیل میں جب کسی کے “چھوٹے “ تھے تو جیتنے والے طالع آزما کے سہولت کار اور چمچے بننے میں فخر محسوس کرتے رہے۔ آج جب خود بادشاہ و بادشاہ گر بن گئے تو اپنے پُرانے “مالکان” کے خلاف علم بغاوت اُٹھا کر کبھی سعودی عرب اور کبھی لندن کی محفوظ فضاؤں میں بیٹھ کر ووٹ کی عزت یا جمھوریت کے نام پر اعلان جہاد۔۔
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف سیاستدان ہی ساری بُرائی کی جڑ ہیں۔ مطلب پرست سیاستدانوں کی جو نسل اس قوم پر قابض ہے وہ اپنی حقیقت میں طفیلیے ہیں، اس لئے یہ جن کے زیر سایہ پرورش پاتے پھلتے پھولتے ہیں ان کا حساب لیے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔
پاکستان کی 73 سالہ آزاد زندگی میں نصف سے زائد تو براہ راست جرنیلی (فوجی نہیں کہ فوج بطور ادارہ حکومت پر قبضہ نہیں کرتی جنرل اپنے ادارے کو ذاتی مفاد میں استعمال کرتے ہیں) اور باقی نصف بھی سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے زیادہ تر “اُنہوں” نے ہی پس پردہ رہ راج کیا ہے۔ موجودہ حالات میں تو تقریباً شفّاف چلمن سے لگے بیٹھے ہیں۔
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ، ہم کو عبث بدنام کیا
دو نہیں ایک پاکستان
کسی حساب سے پہلے ایک بڑی بھل صفائی کی ضرورت ہے لیکن ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ملک میں ایک غریب سے لیکر بادشاہ و بادشاہ گروں تک کے لئے ایک ہی قانون کا نفاذ ۔ چاہے غریب موچی کی بہو یا کرنل جنرل کی بیوی ہی نہیں بلکہ جنرل صاحب بھی۔
فوج کا نظام احتساب (کورٹ مارشل) صرف اور صرف پیشہ ورانہ معاملات کو دیکھے لیکن اگر کسی افسر پر ایسے جُرائم کا الزام ہو جو ملکی قوانین کی زد میں آتے ہوں تو انکے خلاف محکمانہ کاروائی کے ساتھ ساتھ انکے مقدمات سول قوانین کے تحت عام عداکتوں میں چلائے جائیں اور انہیں وہی سزائیں دی جائیں جو کسی سولین مجرم کودی جاتی ہیں۔
جنرل راحیل شریف کے دور میں کچھ افسران کو کرپشن کی سزا ریٹائرمنٹ اور رینک پینشن وغیرہ وغیرہ سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ اس جیسے نہ جانے کتنے واقعات ہوں گے جب جُرائم میں ملوث افسران کو خاموشی سے محکمانہ کاروائیوں کے بعد بغیر کسی مجرمانہ پراسیکیوشن کے خاموشی کے ساتھ برطرف کردیا ہوگا۔ برطرفی صرف ایک محکمانئ کاروائی ہوتی ہے۔ اسی جُرم میں بلڈی سولین کو کرپشن کے جُرم میں جیلیں بھگتنی پڑتی ہیں۔
یہی معاملہ عدلیہ کا ہے کرپشن و بد اعتدالی پر ماتحت عدلیہ میں برطرفیاں تو ہوتی دیکھی ہیں لیکن کرپشن کی قانونی سزا (جیل) کسی سابقہ جج کو ملتے ہوئے کم از کم اس فقیر نے نہیں دیکھی۔
جہاں تک اعلی عدلیہ کی بات ہے۔ وہ بھی فوج کی طرح اولڈ بوائز کلب بن چکا ہے، کسی بھی جج کے خلاف کرپشن سمیت کوئی شکایت ہوتو واحد راستہ سپریم جیوڈیشیل کونسل ہے، جس میں عام آدمی نہیں صرف اور صرف حکومت (جو پہلے ہی کسی معاملے کو انصاف کے بجائے اپنے سیاسی مفاد کو دیکھتی ہے) درخواست دائر کر سکتی ہے۔اگر کیس سُپریم جیوڈیشیل کونسل میں چلا بھی جائے تب بھی عزت مآب جج صاحب کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ سُپریم جیوڈیشیل کونسل کے فیصلے سے پہلے ہی تمام سہولیات کے ساتھ باعزت ریٹائیرمنٹ لیکر سارے کیس کو غتر بود کردیا جائے ۔ یعنی عملی طور سزا مل ہی نہیں سکتی۔
ہمارے ہاں دو اقسام کے قوانین ہیں۔ ہم جیسے ہماشما کے لئے الگ اور فوجی و عدالتی اشرافیہ عملی طور پر سارے قوانین سے بالاتر۔رہی سیاسی اشرافیہ جب تک ان دونوں کے ساتھ” ایک پیج” پر رہتی ہے انہیں بھی طاقت و اقتدار میں حصہ مل جاتا ہے ۔ لیکن جب دو “بڑوں” سے کوئی مخاصمت ہوتی ہے تو انہیں انکی اوقات دکھادی جاتی ہے۔
ویسے ایک بات یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات مونچھیں داڑھی سے بڑھ جاتی ہیں، کہ ہم نے پاپا جونز سے لیکر مبینہ جزیروں کی ملکیت کے قصے تو سُنّے لیکن کیا کوئی جج یا جنرل کرپشن کے الزامات کے باوجود ذاتی دولت میں شریفین و زرادری کی دولت کا عشر عشیر بھی پہنچ سکتا ہے؟ ویسے جنرل اختر عبدالرحمٰن نامی “خاموش مجاہد” کی اولاد واقعتاً کچھ قریب قریب پہنچ سکتی ہے
ان حقائق کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کرپشن کا زہر تو ہماری قوم کی رگ رگ میں سرائیت کر چکا ہے اس سے سول انتظامی اہلکاروں سمیت فوجی و جج کوئی صاحب اختیار بطور طبقہ مبرّا نہیں ہے(انفرادی مثالیں تو ہر جگہ مل ہی جاتی ہیں)۔
جب آپکا دامن صاف نہ ہو تو خالی خولی کھوکھلے نعرے بھی چورن فروشی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے، دوسری طرف اگر کوئی کچھ کرنا بھی چاہے تب بھی اپنے ماضی و حال کے معاملات کی بناء پر کسی بھی سخت اصلاحی اقدام کے لئے مطلوبہ اخلاقی جرات سے محروم ہوتا ہے۔
بائیبل میں حضرت عیسی علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوہ زیتون سے ہو کر عبادت گاہ میں آئے تو لوگ ایک زانی عورت کو پکڑ کر لائے اور کہنے لگے کہ موسیٰ اور اس کا قانون کہتا ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔ درست ’’اب تم میں سے جو کوئی گناہگار نہ ہو وہ پہلا پتھر مارے‘‘ ۔نتیجہ یہ کہ سارا ہجوم چھٹ کیا۔
جب بلوہ عام ہو جائے اور درحقیقت ہمارا نظام قانون اس نوعیت کی موب لُچنگ سے نمٹنے کا اہل نہیں ہے تو بہتر ہے پھانسی کے پھندوں کو بھرنے کی بجائے ۔۔ ایک مرتبہ سلیٹ صاف کرکے آگے بڑہا جائے۔جنوبی افریقہ کی طرز پر ٹروتھ اینڈ ری کنسیلشن کمیشن ایک بہتر مثال ہے۔کیا ہم کوئی ایسا کمیشن قائم کرکے قوم کو آگے بڑہنے کی راہ صاف کر سکتے ہیں؟
اس معاملے میں صرف سیاسیہ ہی نہیں فوجی و بیوروکریسی بلکہ کراچی میں ایم کیو ایم کے غائب شدگان جو اپنے کردہ گناہوں کی سزا کے طور پر مفروری کی زندگیاں معاشرے کی تاریک گلیوں میں جُرائم کی زندگیاں گذارنے پر مجبور ہوکر نہ صرف اپنے اہل خانہ ہی کے لئے تکلیف کا باعث بنے ہیں بلکہ معاشرے میں بڑہتے ہوئے جُرائم کی بھی ایک وجہ بنے ہوہے ہیں کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ باعزت زندگی گذارنے کے قابل ہو سکیں گے اور شرح جُرائم کم کرنے میں بھی فائدہ مند ہوگا۔
جو بھی اس کے کمیشن کے سامنے آکر اپنے اور ساتھیوں کے گناہوں کا اعتراف کرے اسے پراسیکیوشن کے معاملے تو کلین چٹ دے دی جائے۔ لیکن وہ تمام افراد زندگی پھر کسی عوامی و سرکاری عہدے کے لیے زندگی بھر کے لئے نااہل ہو جائیں۔ان کے لئے بھی بہتر ہوگا کہ جان بچّی سو لاکھوں پائے اور ہم بھی آگے بڑہنے کے قابل ہو جائیں گے۔
اپنی غلطیوں و جُرائم کو تاریخ کے کُوڑے دن میں پھینک کر آنکھیں چُرانے ۔۔۔ پُرانی غلطیوں کو بارہا دھرانے کی عادت پر جمے رہنے کی بجائے ایک مرتبہ آنکھ کھول کر سچّائی کا مردانہ وار سامنا کریں بلکہ اس کا آزادنہ و منصفانہ جائزہ لیکر اسے اپنے تعلیمی نصاب کا بھی حصہ بنایا جائے تاکہ آنے والی نسلیں بھی سابقہ نسلوں کی غلطیوں سے سیکھنے کے قابل ہوں۔تب ہی ہم بطور بالغ قوم کے سامنے آئیں گے، ورنہ:-
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
شرط یہ ہے کسی طاقت ور کو تحفظ کے لئے کچرے کو قالین کے پیچھے نہ چھپایا جائے۔ ایک مرتبہ بے شرم اور ننگے بن ہی جائیں ۔ تاکہ ہر قسم کا سچ سامنے آجائے۔ ویسے بھی سانحہ مشرقی پاکستان اور اس سے پہلے کے زیادہ تر کردار اللہ کے حضور میں حاضر ہو چکے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ تاریخ کا قرض ادا کرکے اپنی آنے والی نسلوں کو ہماری اور ہم سے پہلے والوں کی غلطیوں سے روشناس کریں تاکہ وہ ان غلطیوں سے سبق حاصل کرکے ملک و قوم کو اقوام عالم میں بہتر مقام دلوانے کی جدوجہد میں کامیابی حاصل کرسکیں۔
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے