مقبول بیانیہ چاہے قومی ہو یا علاقائی یامسلکی اس وقت تک سیاسی قوت میں نہیں ڈھل سکتا جب تک اسے لیکر چلنے والوں کی قیادت کسی مقناطیسی charismatic لیڈر کے پاس نہ ہو۔درحقیقت مقبول بیانیہ و مقناطیسی شخصیت دونوں کا ملاپ ہی کسی کامیاب قائد کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک بندوق گولی کے بغیر اتنی ہی بیکار ہے جتنی گولیوں کا بھرا ہوا صندوق بغیر بندوق کے۔
پاکستان کی تاریخ میں جتنی بھی کامیاب یا impactful تحاریک چلی ہیں ان میں یہ ایک مشترکہ حقیقت ہے۔ کہ بغیر مقناطیسی لیڈرشپ کے عوام کے دل میں جگہ بنانا ناممکن ہوتا ہے۔ذوالفقارعلی بھٹو جو پاکستان کی تاریخ کے بڑے مقناطیسی لیڈروں میں سے تھے، اور اس charisma کا کچھ حصہ بطور وراثت بینظیر بھٹو کو بھی ملا۔
الطاف حسین بھی ایک واضح مثال ہے مہاجر بیانیہ الطاف سے پہلے بھی موجود تھا لیکن ایسی شخصیات جو عوام کو مہمیز کرسکتی موجود نہیں تھیں۔ الطاف کی شخصیت میں وہ عناصر موجود تھےاسکے بعد کیا ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے، اٹھائیس سال تک ریموٹ کنٹرول کے ذریعے بھی کراچی پر آہنی گرفت باقی رکھ سکا۔ جیسے ہی اسے جبری طور پر میدان سے ہٹا دیا گیا۔ اب بیانیہ موجود ہے لیکن پارٹی کی تحلیل کا سفر شروع ہو گیا ہے(خیر اس کی مزید وجوہات بھی ہیں جو اس موضوع سے غیر متعلق ہیں)۔
پاکستان کی سیاست میں سیاسی لیڈروں کی کامیابی کا تعلق مقبول بیانیے کے ساتھ شخصی کشش سے ہی ہوتا ہے۔ ورنہ نہ جانے کتنے ستارے خلاؤں میں گُم ہو گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا ایسا پہلا لیڈر تھا، اس کے بعد نواز شریف نے بھی خود میں وہ کشش پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ پنجاب میں کارکردگی کے لحاظ سے شہباز شریف کا نام نمایاں ہونے کے باوجود وہ اپنی شخصیت کو مستحکم کرنےوہ کشش پیدا کرنے میں ناکام رہے، کہ مقناطیسیت عوام کواپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت صرف نواز شریف ہی کی ہے۔
جمعیت علمائے پاکستان کی قیادت جب تک شاہ احمد نورانی جیسی مقناطیسی شخصیت کے ہاتھوں میں تھی پورے پاکستان کے بریلوی مسلک ماننے والے ان کے گرد اکھٹا ہو گئے، وہ اور انکی جماعت قومی اہمیت کے حامل تھی لیکن انکی وفات کے بعد اسی بیانیے کو لیکر ان کے صاحبزادگان میں وہ مقناطیسیت نہیں ہے اور ان کی سیاسی وراثت تحلیل ہونے لگی۔
تحریک لبیک پاکستان بھی ایک واضح مثال ہے کہ خادم حسین رضوی نے خود کو ایک مقناطیسی شخصیت کے طور پر منوا لیا ان کے پاس مقبول بیانیہ تھا اور کرشماتی شخصیت بھی، آج جو افراد خود کو اس کا بانی قرار دیکر وراثت کا دعوی کررہے ہیں وہ خوب جانتے تھے کہ ان کے پاس وہ X فیکٹر نہیں تھا جس وجہ سے مجبوراً انہیں قیادت کی عقبی نشستوں پر بیٹھنا پڑا۔
خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد اب وقت ہی بتائے گا کہ کیا ان کے صاحبزادے اپنے والد کی شخصی خصوصیات کے وارث بھی ہیں ورنہ وہی انجام ہو گا جو دیگر سیاسی لیڈروں کی اولاد کا ہوتا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام بھی مولانا مفتی محمود رح کی کرشماتی لیڈر شپ کی محتاج تھی ورنہ درحقیقت جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے بانی تو مفتی محمد شفیع تھے لیکن انہوں اور ان کے خانوادے نے کبھی اس پر اپنا حق جتانے کی کوشش نہیں اور خود کو علمی سرگر میوں میں مصروف کردیا۔
حضرت مفتی محمود رح کی وفات کے بعد قیادت کی جنگ میں جمعیت علماء اسلام کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کے باوجود مفتی محمو رح کی یہ وراثت مولانا فضل الرحمن کو ملی اور وقت کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر مسلک دیوبند کے علماء نے انہی کو اپنا قاید تسلیم کیا۔ حالانکہ مولانا سمیع الحق کے والد مرحوم بھی اکابرین میں شامل تھے لیکن وہ اپنے گرد اکٹھا کرنے والی مقناطیسی کشش سے محروم تھے۔اب یہ حال ہے کہ طاقتور قائد کے خلاف چھوٹی موٹی بغاوتیں بھی جماعت پر ان کے کنٹرول پر ڈینٹ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں (حافظ حسین احمد اور مولانا شیرانی اسکی بڑی مثال ہیں)۔
اس وقت مولانا فضل الرحمن بھی اپنے بچّوں کو آگے بڑہانے کی کوشش کررہے ہیں، اسی طرح بلاول بھٹو زراداری بھی دونوں اپنے بزرگوں کے تیسری نسل ہیں ایک دلچسپ سوال یہ ہے کہ کیا مقناطیسی شخصیت کی وراثت دو نسلوں کی مثالیں تو عام ہیں لیکن کیا تیسری نسل کو بھی منتقل ہو سکتی یا عموماً ہوتئ ہے؟؟
جہاں تک تیسری نسل کی قیادت کی بات ہے ایشیا میں صرف نہرو فیملی ہی کی مثال نظر آتی ہے جس میں نہرو، اندرا گاندھی اور اندرا کے قتل نے راجیو گاندھی کو میدان سیاست میں دہکیل دیا اور وہ بھارت کے وزیراعظم بنے لیکن چوتھی نسل (راہول گاندھی) کا بھارتی سیاست میں بڑا نام ضرور ہے لیکن ابھی تک اپنا مقام نہیں حاصل کر پائے۔
پاکستان بھارت کے دیہی معاشروں میں ان علاقوں کے جاگیردار اور وڈیرے ہمیشہ ہی جیتّے رہیں گے لیکن تیزی بڑہتی ہوئی شھری آبادی کے پھیلاؤ نے ایک طرف زرعی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے تو دوسری طرف نسلی سیاستدانوں کے اثر و رسوخ کے سکڑنے کا عمل شروع ہو گیاہے۔خاندانی جاگیر و سجادہ نشینی انہیں ان کی ذاتی سیٹ کو دلوا سکتی ہے لیکن قومی قیادت کا ٹکٹ نہیں بن سکتی۔
موجودہ پی ٹی آئی بھی ایک مقناطیسی شخصیت کی محتاج ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سنہرے خوابوں کے بیوپاری اقتدار کے امتحان میں بیٹھ کر ایکسپوز ہو جاتے ہیں اور گذشتہ ڈہائی سال کے اقتدار نے درحقیقت اسکی قابلیت ، صلاحیت و دیانت کو طش از بام کردیا عوامی بیزاری کے باوجود مقناطیسی کشش کی وجہ سے عاشقان ابھی تک اسی کادم بھرتے ہیں۔
چودھری پرویز الہی کا پنجاب کی وزارت اعلی کا دور بُرا نہیں تھا لیکن ان میں بھی وہ کشش نہ ہونے کی وجہ سے عوام کے دلوں میں گھر نہیں کر سکے۔ اس لئے سیاست کے ڈرائینگ روموں اور دوسرے درجے کے بادشاہ گر کی حدتک محدود ہو کر رہ گئے۔
جماعت اسلامی بھی مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے بعد کسی اور کرشماتی شخصیت کو ڈھونڈ تی رہی پھر قاضی حسین احمد نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی لیکن جماعت اسلامی اسوقت گرتی ہوئی عوامی مقبولیت کا شکار تھی، انہوں نے قومی سیاست پر اپنے نقوش تو چھوڑے لیکن انتخابی سیاست میں (۲۰۰۲ کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے تاریخی کامیابیاں حاصل کیں) جماعت اسلامی کی اپنی انتخابی پوزیشن کو آئندہ انتخابات کے لئے بہتر نہ بنایا جاسکا۔
ان کے بعد والے امراء تقوی و دیانت کے لحاظ سے توپاکستانی سیاست میں بے مثال ہیں لیکن قاضی صاحب جیسی کرشماتی شخصیت سے محرومی کے بعد ابھی تک قحط الرجال ہی نظر آرہا۔ (معذرت کے ساتھ پورے پاکستان کی جماعت اسلامی کو جاننے کا دعوی نہیں کرسکتا یقیناً انکے پاس مزید ہیرے ھوں گے لیکن) کراچی کی حدتک حافظ نعیم جماعت اسلامی کے وہ ستارے نظر آرہے ہیں جو خود کو کراچی میں منوانے کے بعد قومی سیاسی منظر نامے پر ستقبل کا بڑا نام بن سکتے ہیں۔
آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ملک کے ذہین ترین سیاستدان ہیں لیکن زراداری صاحب بھی اس مقناطیسی صلاحیت سے محروم بینظیر کی گدّی نشینی کی کمائی پر گذارا کررہے ہیں ، بذات خود بڑی حد تک سیاسی روئیے سے محروم جوڑ توڑ کے بادشاہ، اس جوڑ توڑ نے ان کی بنیادی سیاسی پاکٹ کو تو محفوظ رکھا ، لیکن انکی سیاسی حمایت کی برف کرپشن کے الزامات کے تیز دھوپ میں پگھل رہی ہے ۔اسی لیے سندھی قوم پرستی ان کی آخری پناہ گاہ ہے جس کے سہارے وہ سندھ کی حدتک اپنے اقتدار کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ بلاول کے لئے بھی مشکل صورتحال ہے کہ اسے اپنی والدہ اور نانا سے زیادہ والد کی شہرت کا دفاع کرنا پڑ رہاہے۔
اس لحاظ سے ن لیگ خوش قسمت ہے کہ طویل اقتدار کی بنا پر شریف فیملی کی پارٹی پر مکمل بالادستی کے باوجود ان کے پاس دوسرے درجے کی قومی قیادت موجود ہے۔ نوازشریف کے منظر عام سے ہٹنے کے بعد بھی پارٹی باقی رہنے کے امکانات ہیں۔
شہباز شریف کا پنجاب میں بہت اچھا ریکارڈ لیکن اس مقناطیسیت سے محرومی کی وجہ سے اس وقت صرف پنجاب تک محدود ہیں، اور چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی دوسرے نمبر کی قیادت میں پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ انکے صاحبزادےحمزہ شہباز بھی اس charisma سے محروم نظر آتے ہیں۔
اس وقت مریم نواز نئی نسل کی اُبھر تی ہوئی قومی لیڈر نظر آرہی ہے (جی ہاں جب 68سال کی عمر میں عمران خان نوجوانوں کا لیڈر بن سکتا ہے تو 48 سال کی عمر میں تو مریم نواز جوان بلکہ نوجوان ہیں ) جن میں charisma نظر آتا ہے۔ مریم کو یقیناً نواز شریف کی بیٹی ہونے کا فائدہ پہنچا ہے، اس کے باوجود انہیں سیاست میں اپنی جگہ خود ہی بنانی پڑ رہی ہے۔
انہوں نے ۱۹۹۹ کے جنرل مشرف کے ہاتھوں فوجی انقلاب میں اپنے والد کی حکومت کے تختہ اُلٹے جانے کے بعد غالبا پہلی مرتبہ اپنی والدہ کے شانہ بشانہ اپنے قید والد سابق وزیر اعظم نوازشریف کی رہائی کے لئے جدوجہد کے لئے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ لیکن والد کی رہائی کے بعد شریف فیملی کی خواتین کی طرح خاموشی سے گھریلو زندگی میں گُم ہو گئی۔
عملی طور پر ۲۰۱۳ کے بعد وہ حکومتی معاملات میں فعال ہوئیں اور اب بجا طور پر والد کی میراث کی واحد وارث نظر آتی ہیں، ن لیگ کے حامیوں میں انکی خاصی مقبولیت بھی ہے اور ان میں توانائی و حوصلہ بھی نظر آر رہا ہے۔موجودہ حکومت کی ناکام گورنینس نے ان کے لئے اقتدار کی منزل آسان تو کردی ہے لیکن پھر بھی انہیں عدالتی اور اندرونی چیلنجوں سے نمٹنا ہے۔ اس کے باوجود موجودہ اُبھرتی ہوئی نسل میں یہ واحد سیاست دان ہیں جن کے بارے میں حتمی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔
سب سے آخر میں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ مقبول بیانیہ، لیڈر کی شخصی مقناطیسیت اسے سڑک پر تماشا دکھانے والے مداری کی طرح لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرکے اپنا چورن فروخت کرنے کے قابل تو بنادے گی لیکن ضروری نہیں کہ وہ ملک و قوم کے نصیب بھی بدل سکے ۔ اس کے لیے مقبول بیانیہ اور شخصی کشش کے ساتھ دیانت اور وژن کی ضرورت ہوتی ہے جو بدقسمتی سے موجودہ لاٹ کے قائدین میں نظر نہیں آرہی۔
اللہ اک ہمارے وطن کی حفاظت فرمائے، آمین۔