ازادکشمیر میں انتخابی عمل جاری ہے۔ اس بار منتخب ہونے والی اسمبلی نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آزاد ریاست جموں وکشمیر کو قائم رکھا جائے یا مودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسے پاکستان کا صوبہ بنایا جائے۔ جیسے گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات کے نتیجہ میں ہوا۔
آزاد ریاست جموں و کشمیر کے قیام کا واحد مقصد مقبوضہ جموں کشمیر کی آزادی کے لیے بیس کیمپ کی فراہمی تھا۔ بلدیاتی معاملات اور ملازمتیں اس کا ضمنی نتیجہ تھا۔ مفاداتی سیاست نے اصل مقصد کو پس پشت ڈال کر بلدیاتی اور ملازمتی معاملات کو ہی مقصد اور محور بنالیا۔ جس کے نتیجے میں ہر شہری اچھی ملازمت، من پسند مقام پر تبادلہ اور اپنے علاقے کے لیے سڑک، بجلی اور پانی تک محدود ہوگیا۔ حالانکہ یہ تو محض ضلع کونسل اور میونسپل کارپوریشن کے کرنے کے کام ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایسے پست قامت لوگ منتخب ہونے لگے جو وسائل اور ملازمتوں کو دوسروں سے چھین کر اپنے قبیلے کو دینے میں لگے رہے۔ بیروزگار کارکنوں کو جنگل کی لکڑی فروخت کرنے کے پرمٹ، لاری اڈوں کے ٹھیکے اور خالصہ جات کی الاٹمنٹ کا بدترین دھندہ فروغ پانے لگا۔
آج پھر اگلے پانچ سالوں کے لیے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہورہے ہیں۔ ریاست جموں کشمیر کے لیے یہ ایک نازک مرحلہ ہے۔ بھارت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے تین حصوں کو الگ الگ بھارتی یونین کا حصہ بنالیا۔ پاکستان نے نہ صرف اس پر خاموشی اختیار رکھی بلکہ مودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گلگت بلتستان کو ریاست سے الگ کرکے صوبہ بنادیا۔ اگلے مرحلے پر ایل او سی جس پر بھارت کو باڑ لگانے میں غدار جنرل پرویز مشرف نے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا،مستقل سرحد قرار دے کر آزاد کشمیر کو صوبائی حیثیت دینے کی سازش ہورہی ہے۔ مستریوں کی کوشش ہے کہ ان انتخابات میں ایسے لوگ منتخب ہوکر آئیں یا لائے جائیں جو گلگت بلتستان اسمبلی کی طرح آنکھیں بند کرکے صوبے کے لیے قرارداد منظور کرلیں۔
آزاد کشمیر کے سیاستدان جاہل تو نہیں البتہ اقتدار پرست ضرور ہیں۔ وہ ریاست جموں کشمیر کے ساتھ کی جانے والی سازشوں سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن سازشی عناصر کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتے اور حکومتی سیٹ اپ میں اپنے لیے جگہ بنانے کے درپے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اصل حقائق سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
حیران اور پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ پاور پالیٹکس سے باہر آزادی کشمیر سے منسلک جماعت اسلامی اور قوم پرست جماعتوں کی قیادت بھی مفاد پرست سیاستدانوں کی طرح مزاحمت کے بجائے تماش بین کا کردار ادا کررہی ہے۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر اس موقع پر تقسیم کشمیر کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، مسلم کانفرنس اور مذہبی و قوم پرست جماعتوں کا اتحاد بناسکتی تھی۔ بدقسمتی سے وہ میدان میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے مراقبوں اور وسوسوں کا شکار رہے۔ اب انتخابی میدان میں تحریک آزادی کی پشتیبانوں، مذہبی جماعتوں اور قوم پرستوں کا کوئی کردار نہیں رہا۔ یہ دراصل قائدانہ صلاحیتوں سے عاری منصبداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
میں یہ سب کچھ اس لیے لکھنے پر مجبور ہوں کہ ان خدشات کا اظہار میں کئی ماہ سے کرتا آرہا ہوں اور متعلقہ ذمہ داران کو متوجہ کرتا رہا ہوں۔ ان کی خاموشی نے مجھے یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ تقسیم کشمیر کے لیے ماحول بنایا جارہا ہے۔ ہم نے شہداء کے خون کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے۔ ہم اس جدوجہد میں شامل رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شہداء کے خون کا سودا ہو رہا ہو اور ہم خاموش رہیں۔
مذہبی اور قوم پرست جماعتیں نااہل قیادت کی وجہ سے اپنا مقام کھو چکی ہیں۔ آج کے منظر نامے میں ان کا کوئی کردار نہیں رہا۔ میں آزاد کشمیر کے عوام کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو تبدیلی کا جھانسہ دے کر، برادریوں کی عصبیتوں اور چھوٹے چھوٹے مفادات میں الجھا کر ایسے لوگ منتخب کروانے کی سازش ہورہی ہے جو مودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے، ایل او سی کو مستقل سرحد بناکر تحریک آزادی کشمیر کو آزادکشمیر اسمبلی کے ذریعے دفن کرواکر سارا ملبہ کشمیری عوام پر لادا جائے گا۔ جیسے گلگت بلتستان اسمبلی کے ذریعے کروایا گیا ہے۔
میری آواز اور تحریر جن دوستوں تک پہنچ رہی ہے، ان میں سے جو اتفاق رکھتے ہوں وہ مزید دوستوں تک پہنچانے کے لیے کردار ادا کریں۔ مجھے خدشہ ہے کہ یہ آزاد ریاست جموں کشمیر کی آخری اسمبلی کا انتخاب ہوگا اگر عوام نے ہوش سے کام نہ لیا۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، مسلم کانفرنس،جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی قیادت نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کیا، اس کے باوجود اگر تحریک انصاف کو کشمیری عوام مسترد کردیں تو دیگر جماعتیں مشترک حکمت عملی سے ایسی حکومت بناسکتی ہیں جو تقسیم کشمیر کی سازش کا ایک بار پھر ناکام بنادے۔ سازشی عناصر نے اس سے پہلے ستر کی دھائی میں اور پھر مشرف کے ذریعے تقسیم کشمیر کی کوشش کی تھی جو اس وقت کی کشمیری قیادت نے ناکام کردی تھی۔ آج کی بانچھ قیادت ایسا تو نہیں کرسکی اب عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ تحریک ازادی کشمیر کو مکمل طور پر اپنے ووٹ سے دفن کرنا چاہتے ہیں یا اپنے شہداء کی قربانیوں کا تحفظ کریں گے، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔