صدر ممنون حسین رح پردہ فرما گئے وہ ایسے ولی کامل تھے جنہوں نے سب سے پہلے “پاناما لیکس” کی پیش گوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اس سکینڈل میں ملوث افراد اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے یہ سوچ سوچ کے حیرت ہوتی ہے کہ
ان جیسا مرنجان مرنج اور اکل کھرا دیانتدار بزرگ نواز شریف کو کیسے پسند آگیا جناب ممنون حسین برصغیر کی جنگ آزادی کا زندہ و جاوید استعارہ تھے تمام اہم تاریخی واقعات کی جزئیات تک انہیں ابر تھیں کمال کا حافظہ پایا تھا اللہ تعالی پر بے پایاں اور حد درجہ محکم ایمان رکھتے تھے جو کچھ فرمایا حرف بحرف پورا ہورہا ہے
“
یہ اللہ کا نظام ہے جو چوروں، لٹیروں ملک دشمنوں کے خلاف متحرک ہو چکا ہے” یہ کوئی اورنہیں جناب ممنون حسین برسوں پہلے کراچی میں تاجروں کی مجلس میں باکل غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے صدر ممنون حسین نے فرمایا!!!!۔
”یہ پانامہ لیکس کا معاملہ قدرت نے اٹھایا ہے۔آپ دیکھیں گے بہت سارے جو لوگ اطمینان سے بیٹھے ہیں، جوکہہ رہے ہم نے پکا انتظام کرلیا ہے، ان کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ دیکھئے گا کیسے کیسے لوگ پکڑ میں آئیں گے۔“ صدر ممنون حسین نے کرپشن کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ درجات ہیں کچھ زیادہ کچھ نارمل اور کچھ ایکسٹرا آرڈنری کرپٹ ہوتے ہیں کبھی آپ ان کے چہرے غور سے دیکھئے گا منحوس چہرے ہوتے ہیں، ان کے چہروں پر نحوست برس رہی ہوتی ہے۔ اللہ کی لعنت ان چہروں پر نمایاں ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی اس بات کو بار بار دہرایا تھا کہ یہ کرپٹ لوگ ایک دن لازمی پکڑے جائیں گے۔ ان میں بعض لوگ تو بڑے لوٹیا سردار سینہ تانے بڑے بنے پھرتے ہیں جنہوں نے کرپشن کے بڑے معرکے مارے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ان سے بڑا ملک کا ہمدرد کوئی نہیں ہے۔ انہوں نے تو کوئی غلط کام کبھی کیا ہی نہیں۔یہ جو وقت آرہا ہے میں یقین سے آپ کو کہتا ہوں کہ پاناما لیکس قدرت کی طرف سے اٹھا ہے نجانے کیسے کیسے لوگ پکڑ میں آئیں گے۔میری یہ بات یاد رکھئے گا کوئی واقعہ دوماہ کے بعد ہوگا کوئی چار ماہ کے بعد ہوگا کوئی چھ ماہ کے بعد ہوگا، کوئی ایک سال کے بعد ہوگا، یہ اللہ کا نظام ہے جو چوروں، لٹیروں اور ملک دشمنوں کے خلاف متحرک ہو چکا ہے۔جناب ممنون حسین کی پیش گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہورہی ہیں ان پیش گوئیوں کاہدف احباب تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ممنون حسین بذات خود نواز شریف کا حسنِ انتخاب تھے لیکن چونکہ جناب ممنون حسین کی تقریر روایتی خطاب کی بجائے الہام تھا واردات قلب تھی اس لئے وقت نے ثابت کردیا ہے اس روحانی گفتگو کا مخاطب جناب نوازشریف اور ان کے اہل خانہ ہی تھے جو مشکوک مئے فئیر شاہانہ اپارٹمنٹس کے بے نامی مالک ہیں جسے خالی کرانے کےلئے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل متحرک ہو چکی ہے۔صدرممنون حسین برصغیر کی زندہ جاوید تاریخ ہیں انہوں نے بلا کا حافظہ پایا ہے انہیں متحدہ ہندوستان کے واقعات پوری صحت سے مکمل تفصیلات سے یاد تھیں۔ آگرہ سے مسلم ریاست حیدرآباد دکن ہجرت ‘ اس کی بربادی کے بعد آگرہ واپسی اور پھر خاندان کی پاکستان دوسری ہجرت کی کہانی ایسے بیان کرتے ہیں کہ ساماں باندھ دیتے ہیں۔ ان کے دادا آگرہ سے دوستوں کے بلانے پر ڈھاکہ چلے گئے تھے انہیں 1971 میں تیسری ہجرت کراچی کرنا پڑی تھی
جناب ممنون حسین سے اس کالم نگار کی پہلی ملاقات 17 جنوری 2014 کو ظہرانے پر ہوئی تھی ون آن ون ہونے والی ملاقات میں جناب صدر کے علم و فضل خاص طور برصغیر کے فہمِ تاریخ نے ششدر کرکے رکھ دیا تھا۔ “صدر مملکت ممنون حسین بھی ہجرت کا استعارہ بنے آگرہ اور اس سے جڑی ہوئی داستانیں سنارہے تھے اور یہ طالب علم گم سم بیٹھا سن رہا ہے ”تحریک پاکستان کے آغاز پر دادا مرحوم نے میرے والد گرامی کوبتایا تھا کہ اب ہندوستان کامتحد رہناممکن نہیں رہے گا۔ تقسیم ناگزیر ہوچکی ہے“ جس کے بعد والد محترم نے فیصلہ کیا کہ آگرہ سے کسی مسلمان ریاست کوہجرت کرلی جائے اور ہم نے اپنا کاروبار حیدرآباد دکن منتقل کرلیا۔آزادی کے فوراًبعد وہاں پربھارت نے پولیس ایکشن کردیا تو ہمارا خاندان واپس آگرہ آگیا تھا کہ مسلم ریاست کے سقوط کے بعد وہاں رہنے کاکوئی جواز نہیں تھا۔”صدر ممنون حسین محوگفتگو تھے لیکن اب وہ پہلے والا آگرہ نہیں تھا، وہاں بھی دنیا بدل چکی تھی ”دادا مرحوم نے والد صاحب کو مال واسباب سمیٹنے اورپاکستان ہجرت کاحکم دیا کہ صدیوں سے ایک ہی جگہ بسے رہنے والوں کے تیوربدل چکے تھے۔“دادامرحوم کاخیال تھا کہ ایسے ماحول میں رہنا مناسب نہیں ہے کہ اپنے پرکھوں کی زمین اجنبی ہوتی جارہی تھی۔
” آگرہ کے مسلمانوں کی اکثریت چمڑے اوراس کی مصنوعات کے کاروبار سے منسلک تھی “صدرممنون حسین کے دادا اوروالد مرحوم کے جفت سازی کے دوالگ الگ کارخانے تھے کہ دانش مندبزرگ نے اپنے بیٹے کو الگ کاروبار اورکارخانہ بنادیا تھا “صدرممنون حسین کی جنوبی ایشیا کی سیاست پر گہری نگاہ تھی،“انہیں بنگلہ دیش ، بھارت اورسری لنکا کے اہم واقعات پوری صحت اور جزئیات کے ساتھ ازبر تھے“بنگلہ دیش میں جاری سیاسی ہنگامہ آرائی کاذکر کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے پاکستان کے بارے میں رویوں کاذکر کرتے ہوئے بتارہے تھے کہ ڈھاکہ میں ہونے والے کرکٹ کے فائنل میچ میں پاکستان اوربھارت مدمقابل تھے، آخری لمحوں میں پاکستان کی فتح پر حسینہ واجد کا تمام اخلاقیات کوپس پشت ڈال کر چلے جانا اورمہمان خصوصی کی حیثیت سے پاکستان ٹیم کوٹرافی دینے کی تقریب سے غیر حاضر ہونا بھی یاد تھا،“شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے عوامل اور پس پردہ محرکات پر وہ تاریخ کے استاد کی طرح مربوط اورمبسوط گفتگو کررہے تھے،“سری لنکا کے تاملوں کی تحریک ہویاپھر ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکیں جناب ممنوں حسین کومکمل طورپر اپ ٹو ڈیٹ پایا۔
دوپہر کے کھانے کے بعد یہ طالب علم اپنے بزرگ میزبان صدرمملکت جناب ممنون حسین سے اذن رخصت چاہ رہا تھا کہ آج دوپہر برصغیر کی زندہ تاریخ سے مکالمہ قلب ونظر آسودہ کرگیا تھا۔ برصغیر کوتقسیم ہوئے مدتیں بیت چکیں، کامل 70برس بعد بھی ہجرت کے المیے سے جنم لینے والی کہانیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں
جناب ممنون حسین خوش قسمت تھے کہ اعزاز کے ساتھ ایوان صدر سے رخصت ہوئے تھے انہیں مکمل پروٹوکول کے ساتھ الوداع کیا گیا پاکستان کی تاریخ میں جناب ممنون حسین کو “زندہ تاریخ” کا درجہ حاصل تھا وہ کاروبار ی علوم میں درجہ تخصص رکھتے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جناب نواز شریف سے سیاسی وفاداری نے ان کے علم و فضل اور شخصی وجاہت کو دھندلا کر رکھ دیا تھا ۔وہ برصغیر کی جنگ آزادی کا ایسااستعارہ تھے کہ جن کے سامنے یہ تاریخ مرتب ہو ئی تھی اسی طرح وہ پاکستان کی بنیادیں استوار کرنے والی معزز اور معتبرنسل سے تعلق رکھتے تھے لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ سیاسی عمل کی بجائے شخصی وفاداری کی بنیاد پر صدر مملکت کے عالی شان منصب کے لئے چنے گئے تھے جس سے وہ آخری لمحوں تک جان نہ چھڑا سکے جس کی وجہ سے انہیں عالی مقام آئینی منصب دار کی بجائے شخصی وفادار سیاسی کارکن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا
جناب نواز شریف کا کمال تھا کہ وہ سیاست کے بے رحم کھیل میں اہلیت سے زیادہ وفاداری کو تر جیح دیتے تھے، سرور محل میں مدتو ں پہلے جلاوطنی کے دوران، عشائیے پر ہو نے والی بلا تکلف اور کھلی ڈلی گپ شپ کے دوران انہو ں نے اس کالم نگار کو بتایا تھا کہ گا ہے گا ہے چھکے مارنے کا مشورہ دینے والے اور کڑاکے نکالنے والے لطیفہ گو مزاج شناس مصاحب مشاہد حسین سید فوجی بوٹو ں کی آواز سنتے ہی گدھے کے سر سینگوں کی طرح غائب ہو گئے تھے لیکن موقع ملتے اسی نواز شریف نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس بھگوڑے کو دوبارہ ووٹ کی عزت کے پراجیکٹ پر لگا دیا عجیب وغریب اور ناقابل فہم ذہنی ساخت کی وجہ سے جناب نوازشریف نے ممبون رح کے سیاسی قدوقامت کو کم کرنے کے لئے انہیں”دودھ ربڑی والا“ مشہور کرایا ویسے اگر واقعی جناب نواز شریف کو ممنون حسین صاحب کے گھر کا دودھ ربڑی پسند تھا تو خا ص موقعے پر ایسی خبریں نمایاں کرنے کے کیا مقاصد ہو سکتے تھے ، اس معاملے میں جناب نواز شریف کی”نگاہ التفات“کو داد دینی چاہیے کہ ان کے حسن انتخاب کا معیار کیسا مزے دار اور خوش ذائقہ تھا۔ پہلے گورنر سندھ کے عہدہ جلیلہ پر بٹھاتے ہیں اور
مو قع پاتے ہی صدرمملکت کے عہد ے کے لیے نامزد فرماتے ہیں۔ حقائق جو بھی ہوں لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ جناب ممنون حسین شرافت اور نجابت میں کسی طرح بھی فاروق لغاری اور عقل و دانش میں جناب غلام اسحق خان سے کم نہیں تھے۔
جناب ممنون حسین نے کراچی یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا تھا۔ جناب نوازشریف اپنے ہی تجویز کردہ آئینی منصب داروں سے اس طرح کے سلوک کی طویل تاریخ رکھتے ہیں بزرگ دانشمند صدر غلام اسحق’ جنرل آصف نواز ‘ جنرل وحید کاکڑ’ اپنے محسن فاروق لغاری اورجنرل پرویز مشرف سے
سلوک تاریخ کا حصہ بن چکا ہے
جناب ممنون حسین نے ملزم نوازشریف سے ملاقات میں ناکامی کے بعد
حوصلہ نہیں ہارا
جناب ممنون حسین لندن جاپہنچے جہاں انہوں نے پاکستان کو سنگین جرائم میں مطلوب ملزمان سے ملاقاتیں کیں جو ان کے منصب صدارت سے منسلک آئینی تقاضوں کے منافی تھیں لیکن یہ سرکاری خرچ پر شریف خاندان سے ان کا اظہار وفاداری تھاجس نے ان کو سیاسی کارکن کے مقام پر لا کھڑا کیا تھا۔
مدتوں پہلے جناب ممنون حسین سے ایوان صدر میں ہونے والی خصوصی ملاقات کے بارے میں اس کالم نگار نے کچھ یوں اپنے تاثرات بیان کئے تھے۔
صدر مملکت ممنون حسین سے ملاقات نہیں برصغیر پاک و ہند کی زندہ تاریخ سے معانقہ اور مکالمہ تھا۔صدر مملکت ممنون حسین بھی ہجرت کا استعارہ بنے آگرہ اور اس سے جڑی ہوئی داستانیں سنارہے تھے اور یہ کالم نگار گم سم بیٹھا سن رہا ہے۔ تحریک پاکستان کے آغاز پر دادا مرحوم نے میرے والد گرامی کوبتایا تھا کہ اب ہندوستان کامتحد رہناممکن نہیں رہے گا تقسیم ناگزیر ہوچکی ہے جس کے بعد والد محترم نے فیصلہ کیا کہ آگرہ سے کسی مسلمان ریاست کوہجرت کرلی جائے اور ہم نے اپنا کاروبار حیدرآباد دکن منتقل کرلیا۔ آزادی کے فوراًبعد وہاں پربھارت نے پولیس ایکشن کردیا تو ہمارا خاندان واپس آگرہ آگیا تھا کہ مسلم ریاست’حیدرآباد دکن کے سقوط کے بعد وہاں رہنے کاکوئی جواز نہیں تھا”صدر ممنون حسین محوگفتگو تھے لیکن اب وہ پہلے والا آگرہ نہیں تھا، وہاں بھی دنیا بدل چکی تھی۔دادا ابا نے والد صاحب کو مال واسباب سمیٹنے اورپاکستان ہجرت کاحکم دیا کہ صدیوں سے ایک ہی جگہ بسے رہنے والوں کے تیوربدل چکے تھے دادامرحوم کاخیال تھا کہ ایسے ماحول میں رہنا مناسب نہیں ہے کہ اپنے پُرکھوں کی زمین اجنبی ہوتی جارہی تھی۔ آگرہ کے مسلمانوں کی اکثریت چمڑے اوراس کی مصنوعات کے کاروبار سے منسلک تھی
صدرممنون حسین کی جنوبی ایشیا کی سیاست پر گہری نگاہ ہے، انہیں بنگلہ دیش ، بھارت اورسری لنکا کے اہم واقعات پوری صحت اور جزئیات کے ساتھ ازبر تھے بنگلہ دیش میں جاری سیاسی ہنگامہ آرائی کاذکر کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے پاکستان کے بارے میں منفی رویوں کاذکر ہوئے بتارہے تھے کہ ڈھاکہ میں ہونے والے کرکٹ کے فائنل میچ میں پاکستان اوربھارت مدمقابل تھے، آخری لمحوں میں پاکستان کی فتح پر حسینہ واجد کا تمام اخلاقیات کوپس پشت ڈال کر چلے جانا اورمہمان خصوصی کی حیثیت سے پاکستان ٹیم کوٹرافی دینے کی تقریب سے غیر حاضر ہونا بھی یاد تھا، شیخ مجیب الرحمن کے قتل کے عوامل اور پس پردہ محرکات پر وہ تاریخ کے استاد کی طرح مربوط اورمسبوط گفتگو کررہے تھے، سری لنکا کے تاملوں کی ناکام بغاوت ہویاپھر بھارت کی مختلف ریاستوں میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکیں جناب ممنوں حسین کومکمل طورپر اپ ٹو ڈیٹ پایا۔
ڈیڑھ گھنٹہ بیت چکا تھا، دوپہر کے کھانے کے بعد یہ طالب علم اپنے بزرگ میزبان صدرمملکت جناب ممنون حسین سے اذن رخصت چاہ رہا تھا کہ آج دوپہر برصغیر کی زندہ تاریخ سے مکالمہ قلب ونظر آسودہ کررہا تھا۔ برصغیر کوتقسیم ہوئے مدتوں بیت چکیں، کامل 70برس بعد بھی ہجرت کے المیے سے جنم لینے والی کہانیاں ختم ہونے کانام نہیں لے رہیں”ہجرت اورمہاجر”سندھ کی شہری سیاست اور کراچی کے پس منظرمیں خونین استعارہ بن چکے ہیں۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ کامل 5 برس اپنے علم و فضل سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے وہ پاک بھارت تعلقات کو قومی امنگوں کے مطابق استوار کرانے کی بجائے گونگے پہلوان کا کردار ادا کرتے رہے۔ مودی نواز شریف اور جندال نوازشریف عشق کی پینگ ہلارے کھاتی رہی۔ اس سب کے باوجود لیکن یہ بھی تاریخ میں لکھا جائے گا کہ آصف زرداری کے بعد یہ ممنون حسین ہی تھے جنہوں نے سویلین صدر کی حیثیت سے اپنی آئینی مدت صدارت مکمل کی تھی
وہ اجلے دامن کے ساتھ اپنے مالک و خالق کے ہا ن پیش ہوئے وہ ایسی پاکیزہ روح کے مالک تھے مہکتا ہوا معطر کنول تھے کہ شریف خاندان کے گدلے اور آلودہ تالاب میں رہنے کے باوجود اپنے دامن کو ہر طرح کی آلودگیوں سے بچائے رکھا اب شاید دوسری مثال برادرم پرویز رشید ہی ہو سکتے ہیں
خدائے مہربان ممنون حسین رح کی بدعنوانوں ، لٹیرے سیاستدانوں اور
“ہر قسم“کی افسر شاہی کو منطقی انجام تک پہنچائے اور ممنون حسین جنت کے باغات یہ سب دیکھ رہے ہوں گے