سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے گوجرنوالہ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پہلے باقاعدہ جلسہ میں ایک بار پھر اسی پرانی حکمت عملی کو بروکار لاتے ہوئے مقتدر اداروں کی کمانڈ کو ہدف تنقید بنایا،جیسے چند دن قبل پیپلزپارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس سے ویڈیو لنک سے خطاب میں انہوں نے بعض سابق فوجی افسران کو آڑے ہاتھوں لیکر ملک کی سیاسی صورت حال کو زیادہ پیچیدہ بنا دیا تھا،لگتا ہے۔
میاں نوازشریف نے اپنے خاندانی مفادات اور پارٹی پالیٹیکس کے تقاضوں کو ایک طرف رکھ کر کسی فیصلہ کن لڑائی لڑنے کا تہیہ کر لیا ہے۔بلاشبہ میاں نوازشریف صاحب زندگی کی 69 بہاریں دیکھ چکے ہیں،وہ اچھی طرح جانتے ہیں ان کے پاس مہلت عمر کم رہ گئی ہے، ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں،دل کے جان لیوا روگ کے علاوہ ان کے وجود میں کئی مہلک بیماریوں نے سرایت کر لی ہے،وہ کسی بھی وقت اپنی جان،جان آفرین کے حوالے کر سکتے ہیں چنانچہ وہ دنیا کے آلام سے خوفزدہ کسی بزدل کنواری بڑھیا کی طرح دل میں حسرتیں لیکر مرنے کی بجائے اپنی زندگی کے آخری لمحات کو کارآمد بنانا چاہتے ہیں اوربادی النظری میں انہیں ٹکراو کی راہ عمل درست دیکھائی دیتی ہے۔

امر واقعہ بھی یہی ہے کہ وہ منہ میں سونا کا چمچہ لیکر پیدا ہو ئے،تمام عمر خوش نصیبی ان کا طواف کرتی رہی،آغاز شباب میں ہی پچھلے دروازے سے نہایت آسانی کے ساتھ وہ اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچ گئے،دو بار پنجاب جیسے بڑے صوبہ کے وزیراعلی اور تین بار اس ملک کے وزیراعظم رہے ہیں اور اب اس آخری عمر میں بھی وہ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کے تاحیات قائد ہیں،الغرض انہوں نے زندگی کے گرم و سرد سے خوف لطف اٹھایا،انہیں اس بات کا ادراک بھی ہے کہ اب صرف عزت کی موت کے علاوہ اور کسی چیز کی انہیں ضرورت نہیں رہی،لہذا، مرنے سے پہلے وہ اس حتمی تصادم کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں جسمیں انہیں کامیابی ملے نہ ملے عزت کی موت اور تاریخ میں ایک منفرد مقام ضرور مل سکتا ہے۔
ایک زیرک سیاستدان کی طرح وہ یہ بھی جانتے ہیں کامیابی کے لئے انہیں کیا کرنا ہے،کسی”خودکش“ حملہ میں خود کو ضائع کرنے کی بجائے انتہائی حکمت سے کام لیتے ہوئے زندگی کی اس آخری اننگ میں بھی انہوں نے نسبتاً بہتر حکمت عملی اپنائی اور اس حتمی لڑائی کے سیاسی میدان کی طرف تنہا آگے بڑھنے کے الرغم تقریباً ساری اپوزیشن کو کھینچ کے اُسی نامطلوب کشمکش کا ایندھن بنا ڈالہ،جسے ٹالنے کی خاطر ماضی کے کئی عظیم سیاستدانوں نے پھانسیوں کے پھندو کو چوما اور اذیتناک جلاوطنیاں قبول کر لیں.
بلاشبہ علم ایک طاقت ہے لیکن حکمت ہی ہمیں آزادی کی نعمت سے مالا مال کرتی ہے۔ابھی پی ڈی ایم کے اغراض و مقاصد طے ہوئے نہ تنظیمی ڈھانچہ مکمل ہوا ان کے اتحادیوں کو یہ سوچنے کا مہلت بھی نہیں ملی کہ اس جنگ کو کس طرح لڑنا اور کس حد تک لے جانا ہے لیکن نوازشریف نے اپنی افتاد طبع کے ذریعے تحریک کے سیاسی اہداف بلکہ انجام کا تعین بھی کر لیا ہے۔انہوں نے گوجرانوالہ کے جلسہ عام میں جو کچھ کہا اس کا انکے بچوں، قریبی رفقاءاور خود مسلم لیگ کی ملکی قیادت سمیت کسی کو علم نہیں تھا یہ ایک ایسی ناگہانی یلغار تھی جس نے مخالفین کے علاوہ اتحادی جماعتوں کو بھی ششدر کر دیا۔
ان کے اندر بھڑکنے والے خود اختیاری کے شعلوں کی تپش نے گوجرانوالہ میں انہیں وہ آخری بات کہنے پہ مجبور کر دیا،جسے کہہ گزرنے کی آرزو مدت سے ان کے دل و دماغ میں مچل رہی تھی۔ اس طرح انہوں نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے لئے واپسی کی تمام راہیں مسدود کر دیں،جو لوگ اس جدلیات کا حصہ بنیں گے شاید انہیں کچھ قیمت بھی چکانا پڑے اور جو سیاستدان اس کارزار سے نکل کے پیچھے پلٹنے کی کوشش کریں گے وہ عوام میں غیر مقبول ہو جائیں گے کیونکہ اس وقت کا مقبول بیانیہ یہی ہے۔
یہ بجا کہ سیاستدان زیادہ دیر تک اپنی حقیر حیثیت پہ قانع نہیں رہ سکتے تھے اور نوازشریف نے جن باتوں کا تذکرہ اپنے معرکتہ الآرا خطاب میں کیا اس کا ادراک بھی سب کو تھا تاہم ان باتوں کو اس طرح آن دی ریکارڈ اور برملا کہنے کی جرات کوئی نہیں کر سکا مگر اس کہن سال پنجابی لیڈر نے جسارت کر کے اپنے بیانیہ کو آواز خلق بنا کے جمہوریت پسند سیاستدانوں کو خوفزدہ کر دیا۔بلاشبہ ایک اچھا جرنیل اپنی پسند کے میدان اور مرضی کے وقت پہ جنگ چھیڑنے کو ترجیح دیتا ہے،اس لحاظ سے نوازشریف نے درست ٹائم پہ پہل کاری کر کے ایک طرف اپنی سیاسی بقاءکو یقینی بنا لیا اور دوسری جانب انہوں نے غیر شخصی قوتوں کو ایسے دو راہے پہ لا کھڑا کیا،جہاں ان کے پاس پیچھے ہٹ کے سیاستدانوں کے لئے میدان کھلا چھوڑنے یا پھر آگے بڑھ کے اقتدار پہ براہ راست تصرف پانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں بچا لیکن دونوں صورتوں میں ہمیں خیر و بھلائی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
اس وقت سیکورٹی ایجنسیسز کوخیبر پختون خوا کے ضم شدہ اضلاع اور بلوچستان کے علاوہ مشرقی سرحدات پہ جس قسم کی مشکل صورت حال درپیش ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ عساکر کی قیادت براہ راست مسند اقتدار پہ جلوہ افروز ہونے کی جسارت کرے گی نہ پنجاب کی مقبول سیاسی جماعت سے تصادم کا خطرہ مول لے گی۔ اس لئے قوی امکان یہی ہے کہ وقتی طور پہ ہی سہی معتوب سیاستدانوں کو سیاسی نظام میں اتنی گنجائش ضرور مل جائے گی جس میں وہ کچھ عرصہ کے لئے سکھ کی سانس لے پائیں گے۔ موجودہ جدلیات نے یہ بھی ثابت کر دیاکہ ہماری آزادی کوئی ہائیبرڈ رجیم نہیں چھین رہی بلکہ ہمارے اذہان کا بے ضرر تساہل اس کا ذمہ دار تھا،جس نے ہمیں قسمت پرستانہ فلسفہ حیات کا غلام بنا دیا ہے۔
علی ہذالقیاس،ہماری سیاست کی ان محوری گردشوں میں اب تو یہی محسوس ہونے لگا ہے کہ ملکی مقتدرہ کی یہ خواہش ہو گی کہ عمران خان کے بعد بلاول بھٹو زرداری جیسا نرم خو اورصلح جو سیاستدان ہی منصہ شہود پہ نمودار ہو لیکن اس کشمکش کی حرکیات نے قومی سیاست میں پی پی پی کے کردار کو زیادہ محدود کر دیا،حتی کہ پنجاب کے میدانوں میں اب مولانا فضل الرحمن بھی بلاول بھٹو زرداری سے زیادہ مقبول دکھائی دیتے ہیں،ان دنوں پنجاب میں جے یو آئی کو جس قدر پذیرائی ملی،ماضی میں کسی مذہبی جماعت کو یہاں اتنی وسیع مقبولیت نہیں مل سکی ۔بلاشبہ ان ہنگامی حالات میں محتاط سیاسی رویوں نے ہی بلاول بھٹوزرداری کو پابہ زنجیر کر رکھا ہے،اگرچہ عمران خان کی طرح اسے بھی وہ سب کہنے کی اجازت ملی ہوئی تھی جس سے بائیں بازو کے ووٹرز میں انکی مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا تھا لیکن حد سے بڑھی ہوئی احتیاط اور کوئینادیدہ خوف بار بار انہیں ایسی لن ترانیوں سے روکتا ہے،چنانچہ ٹھیک ٹائم پہ وہ درست بات کرنے کی اہلیت کھو رہے ہیں۔
ان کے برعکس نوازشریف نے درست وقت پہ ایک ہی حملہ میں اُس روایتی سیاسی جدوجہد کو فیصلہ کن جنگ کی طرف دھکیل دیا،جو خوف اور تذبذب کی وجہ سے سیاستدانوں کے لئے گلے کی چھچھوندر بنی ہوئی تھی،بیشک دنیا میں تبدیلیوں ارادی نہیں بلکہ اچانک آتی ہیں،تاریخ بتاتی ہے کوئی ایک ایجاد،کوئی ایک غیر معمولی واقعہ یا ناگہانی حادثہ تاریخ کے دھارے کو بدل کے رکھ دیتا ہے،جس طرح صرف پیہہ کی ایجاد نے انسانی تہذیب کو پَر لگا دیئے۔ پانی پت کی دوسری جنگ میں اگر ہیموبقال کو آنکھ میں تیر نہ لگتا تو آج مغلیہ خاندان کی داستان بلکہ ہندوستان کی پوری تاریخ مختلف ہوتی۔جس طرح امیر تیمور، اگر یوروپ کی طرف طوفان کی طرح بڑھتے ہوئے عثمانی سلطان بایزید یلدرم کو شکست نہ دیتے تو یوروپ کی صورت ایسی نہ ہوتی جیسی آج ہمیں نظر آتی ہے۔اسی طرح نوازشریف کی اس فیصلہ کن پیش دستی نے قومی سیاست کے پورے تناظر کو بدل ڈالا ہے،اب مسلم لیگ تحلیل ہو جائے یا نوازشریف زندہ نہ رہے لیکن قومی سیاست کے رجحان میں وارد ہونے والے تغیرات کی راہ کوئی نہیں روک پائے گا۔