پاکستان کے میدان سیاست میں یوسف رضا گیلانی تیر و تلوار سے مسلح ہوکر کشتے کے پشتے لگاتے چلے جارہے ہیں ، پی ڈی ایم کے گھوڑے پر سوار پہلے تو قومی اسمبلی کے زریعے سینٹ میں داخل ہوئے ، چیئرمین شپ کے الیکشن میں کچھ زخم بھی آئے لیکن گیلانی صاحب دیوانہ وار لڑتے ہوئے اگر چیئرمین کی نشست پر نہیں پہنچ سکے تو قائد حزب اختلاف کے منصب پر تو فائز ہوہی گئے ، ایسے شہ سوار پر یقینا سالار آصف زرداری کو ناز ہونا چاہیے،
پیپلزپارٹی آجکل بہت سے معاملات میں مصروف ہے اور انہیں تیزی سے نمٹانا چاہتی ہے۔ سینٹ کے انتخاب میں قومی اسمبلی میں پچاس سے بھی کم سینٹیں رکھنے کے باوجود ڈیڑھ سو سے زائد ووٹ حاصل کیے، اس کامیابی کے بعد سینٹ کی چیئرمین شپ پر نظر رکھی اور سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ کہ پنجاب کی بوزدارحکومت کا تختہ پلٹنے کیلیے آستینیں چڑھالیں،
سینٹ کے انتخابات تک تو ن لیگ نے انہیں فری ہینڈ دیا،لیکن جیسے ہی پیپلزپارٹی نے پنجاب کے معاملات میں مداخلت کی کوشش کی تو ن لیگ نے انہیں اپنا قد دیکھنے کیلیے کہا، اس پر معاملات تلخ ہوگئے،بات دراصل یہ ہے کہ زرداری صاحب موجودہ نظام میں رہ کر زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹنا چاہتے ہیں جبکہ ن لیگ اور اس کے ساتھ جمعیت العلمائے اسلام اس نظام سے ہی بیزار ہیں، انھوں نے عمران نیازی کے مقابل کچھ تماشے دکھانے اور اس سے محظوظ ہونے کیلیے پیپلزپارٹی کو کچھ چھوٹ دی تھی لیکن تمام پتے ان کے ہاتھ میں نہیں تھمادیئے تھے، سینٹ کی سیٹ کیلیے قومی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی چالیس پینتالیس سیٹوں سے دوگنا نشستیں رکھنے والی ن لیگ نے اپنا کاندھا پیش کیا تھا، لیکن پیپلزپارٹی اسے اپنی نشست سمجھ کر سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست کیلیے ن لیگ کیا پورے پی ڈی ایم کو قتل کرنے پر تلی ہے ،ن لیگ اس وقت اس نظام میں سیٹوں کی گنتی اور کسی عہدے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی ، وہ جلد ازجلد عوامی محاز پر لڑائی چاہتی ہے،اس نظام میں کوئی بھی عہدہ اور سیٹوں کی گنتی میں اسے دلچسپی نہیں ،ن لیگ کا نشہ وہی ہے جو مریم نواز نے قومی اسمبلی میں سینٹ کے انتخابات کے موقع پر کہا تھا کہ گیلانی صاحب کیلیے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کے ووٹ حاصل کرنے کیلیے پیسہ نہیں ن لیگ کا ٹکٹ چلاتھا، ن لیگ عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ سے مقابلہ چاہتی ہے تاکہ بڑی جنگ جیت سکے ،اسے یوسف رضا گیلانی کی اس شمشیر زنی سے کوئی سے دلچسپی نہیں جس میں وہ سلیکٹیڈ پتلوں کے سر شانوں سے اڑا رہے ہیں اورکھوپڑیوں کے مینار تعمیر کررہے ہیں۔
سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پالیسی سے آصف زرداری وقتی کامیابیاں سمیٹ سکتے ہیں جیسا کہ انھوں نے اپنے صدارت کے عہدے کی مدت پوری کی تھی لیکن اسکی قیمت پیپلزپارٹی کو عوامی میدان میں چکانی پڑی تھی اور پارٹی صرف سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھی ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اگلے جنرل الیکشن میں بھٹو خاندان بھی پاکستانی سیاست کی تاریخ میں دولتانہ اور ٹوانہ خاندان کی طرح عظمت کی پرچھائیں بن کر رہ جائے۔