ماشاء اللہ ‘مولانا طارق جمیل نے 67 سال کی عمر میں چندے سے جان چھڑا کر تجارت سے حلال کمائی کا فیصلہ کرلیا ہے ‘ مولانا طارق جمیل نے اس سلسلے میں میڈیا کو بتایا کہ انھوں نے کچھ مدرسے قائم کیے تھے’جو احباب کے تعاون سے چلائے جاتے تھے’تاہم کورونا کی وبا میں مولانا کو احباب سے چندے کی اپیل کرنے میں شرم محسوس ہوئی کہ اس وبا میں اچھے اچھوں کے کاروبار متاثر ہوئے’ایسے میں ان سے عطیات یا چندہ مانگنا مناسب نہیں۔
مولانا طارق جمیل کا پس منظر تبلیغی جماعت سے ہے’وہ تبلیغی جماعت میں خواص کے طبقے کیلئے مخصوص تھے’انھوں نے خود کو کبھی” بیچارہ مولوی”نہیں کہلایا’وہ ہر گفتگو میں یہ جتلاتے تھے کہ وہ ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ‘انکی اہلیہ کے میک اپ کرانے اور لاکھوں روپے مالیت کے کنگن ڈاکووں کی جانب سے لوٹنے کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہیں۔
ہر مولوی کی طرح خطابت طارق جمیل صاحب کے گھر کی بھی لونڈی تھی”’مولانا نے اس ہنر کو خوب استعمال کیا۔ یہاں مولانا طارق جمیل صاحب کی بات کرنے کے بجائے ذرا سی بات خطابت کے متعلق ہوجائے تو بات واضح ہوجائیگی ‘خطابت دنیا وہ فن ہے جو کسی بھی عام آد۔ی سے جدا کرتا ہے،ایک خطیب کا منہ سینکڑوں، ہزاروں لاکھوں کی جانب ہوتا ہے اور ہزاروں لاکھوں انسانوں کا منہ ایک خطیب کی جانب،قدرتی طور پر خطیب ایک سورج کی مانند ہوتا ہے،اب ہر سورج کو اپنی دنیا کی تلاش ہوتی ہے، عام حالات میں کوئی بھی رہنما،مولوی بھی عام سا لگتا ہے لیکن کسی خاص وقت،خاص صورت حال میں عام سا خطیب بھی غیر معمولی ہوجاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں مولانا خادم رضوی اسکی بہترین مثال ہیں تحریک لبیک کے مولانا رضوی کسی سرکاری مسجد میں خطیب تھے۔ انہیں کوئی نہیں جانتا تھا،لیکن ممتاز قادری کی شہادت پر انکے جرآت مندانہ اقدام نے انہیں لوگوں کا ایسا محبوب بنایا کہ انکے منہ سے وہ الفاظ بھی پھول کی طرح جھڑتے محسوس ہوتے جنہیں ادا کرنا ثقہ لوگ نامناسب تصور کرتے تھے،،یہی حال مولانا طاہر القادری کا رہا،آ ھوں نے بریلوی مسلک کو باور کرایا کہ وہ اس مسلک کے ماڈریٹ اور جدید آہنگ سے مانوس عالم ہیں تو ہم نے ان کیلئے بھی عقیدت کے بے پناہ مظاہر کا مشاہدہ کیا، ،،
اب آتے ہیں مولانا طارق جمیل صاحب کی جانب، انھوں نے تبلیغی جماعت کی سادہ اجتماعیت کے توسط سے مسلک دیو بند میں جگہ بنائی،جب اس نگری کو فتح کرلیا تو اشرافیہ پر توجہ دی،وہ کیسٹ کا دور تھا،ہر تبلیغی اسٹال پر مولانا کا وعظ چل رہا ہوتا تھا،،،،،،مولانا نے فضائل اعمال سے خصائل حور و قصور تک عبادت اور چسکے کا ایسا آمیزہ تیار کیا کہ سب ان کے دیوانے ہوگئے ۔ مولانا ٹی وی چینلز پر بلائے جانے لگے، مولانا کی رقت انگیزیاں ریٹنگ لانے لگیں۔
ایسے میں سوشل میڈیا کی آمد نے تو مولانا کے کاروبار کو چار چاند لگا دیئے، یو ٹیوب کا دھندہ ایسا چلا کہ بس،،،،اللہ دے اور بندہ لے،،،،اب مولانا تبلیغی جماعت کے نظم سے بھی باہر ہوگئے، ،،مولانا سب کام فی سبیل اللہ کرتے ہو نگے،بلکہ اپنی زمینداری بیچ دی ہوگی، میٹ ون سے کچھ نہیں لیتے ہونگے، جنید جمشید کے برانڈ سے بھی کچھ نہیں لیتے ہونگے، لیکن یہ نہیں مانا جاسکتا کہ یو ٹیوب سے ملنے والی رقم یہود و نصاریٰ کو واپس کردیتے ہونگے، کورونا کی وبا میں یہ دھندہ مندا نہیں ہوا، بلکہ موت کے خوف سے مذہبی رجحان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ایسے میں مولانا کی آمدنی میں اضافہ ہی ہوا ہے، اس آمدنی کو وہ گارمنٹس کے کاروبار میں لگانا چاہتے ہیں، ضرور لگائیں اور خوب کمائیں،آپ کا شرعی اور انسانی حق ہے ،ہر شخص کو اپ ی دولت میں اضافے کا حق ہے،مولانا طارق جمیل صاحب کاروبار شروع کیجئے،میرٹ پر کیجئے لیکن اس کیلیے مدرسوں کی امداد کو آڑ نہیں بنانا چاہیے ،کیونکہ یہ بھی چندے اور خیرات کا ہی دوسرا انداز ہے۔