سجاول خان رانجھا زندگی کی حقیقتوں کو کھوجتے کھوجتے مابعد حیات کی جستجو کے ساتھ موت کی وادیوں کو چل دیے، وہ بھی خاموشی سے۔ قلم اور کردار دونوں حوالوں سے معتبر میرے انتہائی پسندیدہ افسانہ نگار، ادیب حمید شاہد ( میرے لیے اعزاز کی بات کہ وہ مجھے اپنے دوستوں اور پیاروں میں شامل رکھتے ہیں) نے رانجھا صاحب پر بہت خوبصورت اورمفصل مضمون لکھا ہے جو رانجھا صاحب کی علمیت، ان کی جستجو اور ان کے میلان کے اعتبار سے بہت کچھ واضح کر دیتا ہے۔ مضمون میں آپ نے فکری تحریک، مرحوم ڈاکٹر اعجاز حنیف، حلقہ ارباب ذوق کا ذکر پڑھا، یہ وہ اکائیاں ہیں جو میری زندگی کا بھی اہم حصہ رہی ہیں۔ اور یہ وہ حوالے ہیں جو مجھے سجاول خان رانجھا کے “دربار” میں شرف قبولیت دلوانے میں کارگر رہے۔ سال دو ہزار ایک میں جب صحافت میں آئے ابھی تین ہی سال ہوئے تھے لیکن اخبارات میں تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے فاقوں کا سامنا تھا اور کرائے کے ایک کمرے پرمیرے تالے پر مالک مکان کا تالا، پتھروں کے شہر اسلام آباد میں بے گھری سے دوچار کر رہا تھا، میں نے سوچ لیا تھا کہ یہ شعبہ ہی چھوڑ دیتا ہوں۔ پھر اچانک خیال آیا اخبار تنخواہ نہیں دیتے شاید میگزین دیتے ہوں؟ اتنا باخبر نہیں تھا کہ میگزین چلانے والوں کی مالی حیثیت کا مجھے ادراک ہوتا، لیکن میگزینز کی پرنٹنگ سے کچھ اندازہ لگانے کے لیے کتاب گھر کا رخ کیا، رسالوں پر نظر ڈالتے ڈالتے شفانیوز انٹرنیشنل سامنے ایا۔ کھول کر دیکھا، اچھا لگا، طبی معلومات کو عام فہم زبان میں بیان کرنا اور صحت سے متعلق شعور اجاگر کرنا میگزین کا مقصد لگا۔ پرنٹنگ اچھی اوپر سے میگزین میں جگہ جگہ اشتہارات۔ اندازہ ہوا میگزین کی انتظامیہ اپنے سٹاف کو تنخواہ دیتی ہو گی۔ اس امید کے ساتھ ایڈٹیر کا نام نوٹ کیا، سجاول خان رانجھا، نام سنا سنا لگا، خیال آیا رانجھا صاحب تو کالم نگار کی حیثیت سے معروف ہیں، ان دنوں اساس اخبارمیں لکھ رہے تھے، سوچ رہا تھا کہ یہ نام کہیں اور بھی سنا ہے۔۔۔ یاد آیا، وہ فکری تحریک کے جنرل سیکریٹری بھی تھے، جس کے سرپرست ڈاکٹر اعجاز حینف تھے اور وہ فکری تحریک جس کا میں طالبعلم اسد حسن بھی جنرل سیکریٹری رہا، غالبا ان کے دستبردار ہونے کے فورا بعد۔۔۔ یہ حوالہ بنا اور اگلے دن رانجھا صاحب کو ان کے آفس کے نمبر پر ٹیلی فون کیا۔ سلام دعا کے بعد سیدھا مدعے پر آیا، صحافی ہوں، ادب سے بھی شغف ہے اور فکری تحریک کا جنرل سیکریٹری بھی رہا ہوں، جاننا چاہ رہا ہوں کہ آیا آپ کی ٹیم میں کوئی گنجائش ہے۔۔ ارے واہ، صحافی بھی اور ادب سے بھی لگاو۔۔ کیا آپ نے ہمارا اشتہار دیکھ کر کال لی ہے؟ عرض کیا نہیں۔ کہنے لگے آپ کل ٹیسٹ دینے آ جائیں، ہمھیں ایک سب ایڈیٹر درکار ہے، اگرآپ معیار پر پورا اترے تو آپ کو کسی سفارش کی ضرورت نہ ہوگی۔ اگلے دن گیا، رانجھا صاحب سے پہلی ملاقات، دبلے پتلے، اونچے لمبے۔ پہلی ملاقات میں ان کی شخصیت میں عجز اور ملنساری لیکن ساتھ ساتھ شخصیت کے اپنے شیل میں ہونے کا احساس بھی ہوا۔ خیر انہوں نے عامر فاروق، جو آج میرے بہترین دوست ہیں اور شفا پبلی کیشن کے ایڈیٹر بھی ہیں، ان کی طرف بھیج دیا کہ میرا ٹیسٹ لیں۔ امتحان سر کر لیا، عامر فاروق کی جانب سے گرین سگنل کے بعد رانجھا صاحب نے مجھے اپنی ٹیم کا حصہ بنا لیا اور میں تین سال پانچ مہنیے ان کی ادارت میں کام کرتا رہا۔ ان کی شخصیت ، کتاب اور قلم کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ کے کئی پرتیں کھلیں۔ سب سے بڑا جو تاثربنا وہ تھا کہ ان تھک آدمی ہیں۔ کم خوراک اور لمبی واک، ان کی صحت کا راز ہے۔۔ کام کام کام اور کام۔ یہ ان کا کردار ہے۔۔ سادگی ان کا لباس،بودوباش، دکھاوے سے دور فقیر منش۔۔ اپنے کمرے میں دروازہ بند کیے کام میں مصروف رہتے۔ پھر جیسا کہ حمید شاہد نے لکھا ہے، وہ ادب سے صحافت اور صحافت سے تصوف اور تصوف سے ریسرچ کی طرف چلے گئے۔ مجھے اعتراف کرنا ہے کہ مجھے اور میرے کچھ دوستوں کو میگزین میں جس طرح وہ نئے موضوعات اور دفتر کے اوقات میں اپنے شوق اور جستجو کا جس طرح ادغام کر رہے تھے، وہ بہت کنفیوز کر دیتا تھا۔۔ مثلا صبح کی میٹنگ میں قرآن پاک کی تلاوت اور پھر ترجمے کے بعد اس پر گفتگو، ہم لاعلموں کو یہ مباحث بہت ڈرائے رکھتے کہ ایک لفظ ادھر سے ادھر ہو گیا تو۔۔ لیکن رانجھا صاحب کہتے، ہم انسان ہیں، انسانوں کے لیے جو کتاب آئی ہے وہ اس کو عام فہم میں کیسے قبول کرتے ہیں، یہ جاننا ضروری ہے، اور کوئی کسی پر اہانت کا شک بھی نہیں کر رہا۔۔ اسی طرح دفتر کے اندر، درحقیقت ان کے دراز میں ’’ ہنگامی امداد کے فنڈ کا قیام، کمیٹی سسٹم۔۔ یہ سب کچھ عجیب لگتا تھا۔۔پھر ہر موضوع پراپنے نظریات کو کسی تھیوری سے جوڑتا جیسے دوستی کی بات ہو تو اس کو ’’ تھیری آف فرینڈشپ ’’ کہنا یہ سب بے محل لگتا اور گدگدی بھی کرتا۔۔ پھر ہمھیں ایک خالصتا معلوماتی میگزین میں کھرپے کی آمد بھی بری لگی تھی۔ لیکن رانجھا صاحب کنفیوز نہیں تھے، وہ کھرپے کو ’’ شفا فیملی‘ بنانے کا ذریعہ سمجھ رہے تھے اور پروفیسر احمد رفیق اختر کے لیکچرز پر کتابوں کی تالیف کو میگزین کی ڈسٹری بیوشن اور شفا پبلی کیشنز کو دو میگزینوں سے آگے کا ایک ادارہ بنانے کے حوالے سے اپنے پلان چیف ایڈیٹر ڈاکٹر ظہر احمد مرحوم سے منظور کروا چکے تھے۔۔ صحت کے میگزین کے لیے کام کرنا، ڈاکٹروں سے بیماریوں کے اسباب، علامات و علاج پر تفصیلی انٹرویوز نے ہمھیں زعم میں مبتلا کر رکھا تھا کہ ہم تو بھائی ڈاکٹر ہو گئے، لیکن ہمارے ایڈیٹر سجاول رانجھا صاحب تو اس سے بھی اگلی منزلوں کو کھوج رہے تھے۔۔ وہ طب اور اس کی اساس کو کھوج رہے تھے۔ انہوں نے میڈیکل انسائکلوپیڈیا جیسے پروجیکٹ کی ٹھان رکھی تھی۔ کمپوٹر اورعام صارف کے لیے پاکستان میں نئے نئے وارد ہوئے انٹرنیٹ سے زیادہ واقف نہ ہونے کے باوجود، سرچ انجنز کے الگارتھم کو سمجھے بنا وہ ایک تیقن کے ساتھ جو اس جہان میں اترے تو ’ ایم ایس این کسی بھی لیڈ سٹوری سے وہ کتاب کا مواد تلاش کر لیتے، میں ازراہ تفنن کہا کرتا کہ رانجھا صاحب ایم ایس این کی وادیوں میں اترتے ہیں اور واپسی کا راستہ بھی بھول جاتے ہیں۔ مگر آج اعتراف کرتا ہوں کہ بھولتے وہ نہیں تھے، ہم بھولے بادشاہ تھے، وہ اسی ایم ایس این کی گھٹاٹوپ وادیوں سے جوہر مقصود لے کر واپس آتے۔ وہ نامعلوم کے پانیوں میں اترتے تو کئی لاعلم لوگوں کے لیے معلوم کی حقیقیتیں کھوج لاتے۔۔ آج جب وہ ہم میں نہیں رہے تو احساس ہوا ہے وہ ایمرجنسی ہنگامی فنڈ کیسے ہر ماہ کے آخر میں کام آتا تھا، سفید پوشی کا بھرم ٹوٹے بنا ڈنگ گزر جاتا، اسی فنڈ سے میرے جیسوں کو ’’ شادی کے لیے پندرہ ہزار بھی ملے جو پندرہ لاکھ سے کم نہیں تھے۔ حساس موضوعات پر گفتگو کا حصہ رہنے آج اگرگفتگو کے اہل نہیں تو کم ازکم پیجیدہ و حساس معاملات پر سوال کرنے کا ہنر ضرور آ گیا ہے، رانجھا صاحب کی تھیری آف فرینڈشپ آج بیس سال بعد بھی مجھ کو عامر فاروق، زاہد ایوبی، طارق ضیا، حسنین رضا، نسیم اعوان، افسرمغل، مبشرگلزار اور خالد محمود سے جوڑے ہوئے ہے۔۔ اور ہم جیسے ٹیم ممبر جو کھرپے کے سیگمنٹ پر ناک چڑھاتے تھے، رانجھا صاحب کے پہلے ادارے سے جانے، اور آج دنیا سے چلے جانے کے باوجود ’’ شفا فیملی‘‘ کا حصہ ہیں۔ اور رانجھا صاحب کے انتقال پر ہزاروں میل دور بیٹھے بھی آنسو بہا رہے، ایسے جیسے فمیلی کا سربراہ چلا گیا۔۔ وہ نہیں ہیں لیکن ان کی تھیریز ہمھیں گدگداتی رہیں گی، جوڑے رکھیں گی۔۔ کاش رانجھا صاحب جاتے جاتے یہ بھی بیان کر جاتے کہ ا ایسے اچانک بوریا بستر باندھ لینا، دل والے کا دل کے ہاتھوں بے بس ہو جانا، اس پر کون سی “تھیری” صادرآتی ہے؟