آج اردو کے نامور غزل گو ، مرثیہ گو اور منقبت نگار شاعر جناب قمر جلالوی کی برسی ہے۔ استاد قمر جلالوی 19 اگست 1884 میں قصبہ جلالی ضلع علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید محمد حسین عابدی تھا۔ بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا۔ انہوں نے بہت کم عمری میں شاعری میں دسترس حاصل کی اور 22 سال کی عمر میں شاگردوں کے کلام کی اصلاح کرنے لگے۔ یہیں سے لفظ استاد ان کے نام کا سابقہ بن گیا اور چھوٹے بڑے سبھی ان کو استاد کہنے لگے۔
قیام پاکستان کے بعد استاد قمر جلالوی نے کراچی میں رہائش اختیار کی اور بہت جلد ہر مشاعرے کا جزو لازمی بن گئے۔ وہ اپنے مخصوص ترنم اور سلاست کلام کی وجہ سے ہر مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کے کلام میں دہلی اور لکھنو دونوں مکاتب شاعری کی چاشنی، شوخی اور لطافت نظر آتی تھی۔ غزلیات کے علاوہ وہ مرثیے، سلام، منقبت اور رباعیات بھی کہتے تھے اور ان میں بھی ان کے کلام کے سبھی خوبیاں موجود ہوتی تھیں۔ ان کے کلام کے مجموعے اوج قمر، رشک قمر، غم جاوداں اور عقیدت جاوداں کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔
استاد قمر جلالوی کا انتقال 24 اکتوبر 1968 کو ہوا۔ حفیظ ہوشیار پوری اور راغب مراد آبادی نے ان کی تاریخ وفات ”استاد قمر جلالوی کا ماتم“ سے نکالی‘ اس مصرعے کے اعداد کا مجموعہ 1388 بنتا ہے جو استاد قمر جلالوی کا ہجری سن وفات ہے۔
استاد قمر جلالوی‘ کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے:
ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں
یہ وہ تاریخ ہے‘ بجلی گری تھی جب گلستاں پر
نمونہ کلام ؎
پوچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں