ممتاز ادیبہ اور مشہور افسانہ نگار زاہدہ حنا 5 اکتوبر 1946ء کو صوبہ بہار کے شہر سہسرام میں پیدا ہوئیں۔ زاہدہ حنا کے والد اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کرانا چاہتے تھے مگر معاشی حالات کی تنگی کی وجہ سے وہ انہیں کسی اچھے سکول میں تعلیم نہ دلا سکے۔ زاہدہ حنا کی رسم بسم اللہ کے بعد زاہدہ کو گھر میں آپ کے والد نے پڑھانا شروع کیا۔ چھ سال کی عمر میں انہیں ’’مسدس حالی‘‘ ازبر کرا دی گئی۔ آٹھ سال کی عمر میں انہیں ’’شعر العجم‘‘ پڑھائی گئی۔ گھر میں تعلیم کے بعد اسکول کی تعلیم کے لیے ساتویں کلاس میں داخل کرا دیا گیا۔ کاسمو پولیٹن گرلز سیکنڈری سکول سے میٹرک کیا۔ کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ زاہدہ حنا کی شادی اکتوبر 1970ء میں مشہور و معروف شاعر جون ایلیا سے ہو گئی۔ 1990 ء میں دونوں کی علیحدگی ہو گئی۔
زاہدہ حنا کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ نو سال کی عمر میں انہوں نے کہانیاں اور چھوٹے چھوٹے مضامین لکھنے شروع کر دیئے۔ 1962 میں ان کا پہلا مضمون ماہنامہ ’’انشا‘‘ کراچی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد 1964ء میں ان کی پہلی کہانی ماہنامہ ’’ہم قلم‘‘ کراچی میں شائع ہوئی۔ 19 سال کی عمر میں وہ صحافت سے وابستہ ہو گئیں۔ زاہدہ حنا نے کچھ عرصہ بی بی سی اور وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں بھی کام کیا۔ انہوں نے پاکستان کی عالمی سروس کے لیے بھی ہفت روزہ پروگرام کئے۔ 1988ء سے 2006ء تک روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں کالم لکھتی رہیں۔ اس کے بعد سے ابت روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہیں ۔
زاہدہ حنا پاکستان‘ ہندوستان‘ انگلستان‘ امریکہ اور متحدہ عرب امارات میں مختلف موضوعات پر مقالے بھی پڑھ چکی ہیں۔ ان کے متعدد افسانوں کے ترجمے ہندی‘ گورمکھی‘ بنگلہ‘ انگریزی اور مراٹھی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں فیض ایوارڈ‘ لٹریری پرفارمنس ایوارڈ‘ ساغر صدیقی ایوارڈ‘ کے ایم پی ایوارڈ بہترین افسانہ نگار‘ سندھ اسپیکر ایوارڈ اور بھارت میں ملنے والا سارک ادبی ایوارڈ 2001ء شامل ہیں۔ 2006ء میں اُنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ دینے کا اعلان کیا گیا لیکن انہوں نے ملک میں ملٹری حکومت ہونے کی وجہ سے احتجاجاً یہ اعزاز لینے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد انہیں ستارہ امتیاز عطا کیا تو وہ انکار نہ کرسکیں ۔
زاہدہ حنا کے افسانوی مجموعے ’’قیدی سانس لیتا ہے‘‘، ’’راہ میں اجل ہے‘‘ ، ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘، ’’رقص بسمل ہے‘‘ اور ’’تتلیاں ڈھونڈنے والی‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو ناول ’’درد کا شجر‘‘ اور ’’درد آشوب‘‘ بھی تصنیف کئے ہیں۔ انہوں نے ٹیلیویژن کے لیے کئی ڈرامے بھی لکھے۔ ان کا طویل دورانیہ کا ڈرامہ ’’زرد پتوں کا بن‘‘ بہت مقبول ہوا ۔