شفیع عقیل کا اصل نام محمد شفیع تھا اور وہ 1930 ءمیں لاہور چھاونی کے ایک گاوں تھینسہ میں پیدا ہوئے تھے ۔ 1950 میں وہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں وہ روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور پھر انھوں نے تمام عمر اسی ادارے میں گزاردی۔ وہ بچوں کے ماہنامے بھائی جان کے مدیر مقرر ہوئے جہاں انھوں نے آج کے بہت سے اہم لکھنے والوں کو متعارف کروایا۔
یہ بھی دیکھئے:
شفیع عقیل کی پہلی کتاب افسانوں کا مجموعہ بھوکے تھا ۔ اس کے علاوہ ان کی تصانیف میں طنز و مزاح کے مجموعے ایک آنسو ایک تبسم ،ڈھل گئی رات، تیغ ستم ، باقی سب خیریت ہے اور سرخ،سفید،سیاہ ، پنجابی شاعری کے مجموعے سوچاں دی زنجیر اور زہر پیالہ، عالمی اور پاکستانی لوک کہانیوں کے مجموعے جاپانی لوک حکایتیں ،جرمن لوک کہانیاں،ایرانی لوک کہانیاں ،پاکستانی لوک کہانیاں اور پنجابی لوک داستانیں ، سفر نامے سیر وسفر، پیرس تو پھر پیرس ہے اور زندگانی پھر کہاں کے نام شامل ہیں ۔
یہ بھی پڑھئے:
ہمارا انصاف اندھا نہیں، عمران خان
عمران خان اور پرویز الٰہی کی راہیں جدا ہونے کا اصل وقت
عمران خان اور پرویز الٰہی کی راہیں جدا ہونے کا اصل وقت
انہوں مجید لاہوری اور سلطان باہوکے شخصیت اور فن پر بھی کتابیں تحریر کیں اور مجید لاہوری کے کالم بھی حرف و حکایت کے نام سے مرتب کیے۔ انھوں نے سیف الملوک ،سسی پنوں از ہاشم شاہ اورپنجابی کے پانچ قدیم شاعرنامی کتابیں بھی مدون کیں اور ادب اور ادبی مکالمے،مشہور اہل قلم کی گم نام تحریریں اور نامور ادیبوں کا بچپن کے نام سے بھی کتابیں مرتب کیں ۔
شفیع عقیل مصوری کے اہم نقادوں میں شمار ہوتے تھے ۔ اس موضوع پر ان کی تصانیف میں تصویر اور مصور، دو مصور اور پاکستان کے سات مصور کے نام سرفہرست ہیں ۔ انھوں نے مرزا غالب کے کلام اور قائد اعظم کے فرمودات کو بھی پنجابی میں منتتقل کیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز عطا کیا تھا۔جبکہ انھوںنے داود ادبی انعام اور خوشحال خان خٹک ا یوارڈ بھی حاصل کیے تھے ۔
شفیع عقیل کا انتقال 6 ستمبر 2013 کو کراچی میں ہوا ۔