آج ممتاز ڈرامہ نگار اور اسٹیج ڈائریکٹر جناب علی احمد کی برسی ہے۔جناب علی احمد 2 فروری 1927ءکو کانپور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور آگرہ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر انڈین پیپلز تھیٹر اکیڈمی سے منسلک ہوگئے اور پوری زندگی موسیقی، رقص، اداکاری اور تھیٹر کی ترویج کے لئے وقف کردی۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پہلے لاہور میں سکونت اختیار کی اور وہاں تھیٹر آرٹس سینٹر کے نام سے تھیٹر آرٹ گروپ قائم کرکے متعدد اسٹیج ڈرامے پیش کئے۔
انیس سو ستاون میں وہ کراچی آگئے اور یہاں پہلے ایوانت گارڈی آرٹ تھیٹر اور پھر نیشنل اکیڈمی فار تھیٹر اینڈ آرٹس (ناٹک) کی بنیاد ڈالی۔ خواجہ معین الدین کی طرح وہ خود ڈرامہ لکھتے تھے اور خود پیش کرتے تھے، خود ڈائریکٹ کرتے تھے اور اس میں اداکاری بھی کرتے تھے۔ ان کے لکھے ہوئے مشہور ڈراموں میں ذاتِ شریف،صبح ہونے تک، آدھی روٹی ایک لنگوٹی، شیشے کے آدمی، شامت اعمال، قصہ جاگتے سوتے کا،سونے کی دیواریں، روشنی، کاغذی شیر، نیا بخار اور خوابوں کی کرچیاں شامل ہیں۔12 اگست 1996ءکو جناب علی احمد کراچی میں ایک ناگہانی حادثے میں وفات پاگئے اور کراچی ہی میں آسودہ خاک ہوئے۔