آج پاکستان کے انقلابی رہنما نذیر عباسی کا یوم شہادت ہے. نذیر عباسی شہید 1950ء میں ٹنڈوالٰہ یار کے ایک غریب عرائض نویس جان محمد عباسی کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ جنرل محمد یحییٰ خان کے دور حکومت میں وہ طالب علموں کی مقبول تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رکن کی حیثیت سے گرفتار ہوئے، جیل میں ان کی ملاقات ڈاکٹر اعزاز نذیر سے ہوئی جن کی تربیت کے نتیجے میں وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی جانب راغب ہوئے اور رہائی کے بعد اس تنظیم کے فعال رکن بن گئے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں انہوں نے کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبت برداشت کی۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل ضیا کے دور میں 1978ءمیں جام ساقی کی گرفتاری کے بعد انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا۔
30 جولائی 1980ءکو کراچی کے ایک مکان پر چھاپہ مار کر کمیونسٹ پارٹی کے چھ رہنماﺅں پروفیسر جمال نقوی، احمد کمال وارثی، غلام شبیر شر، بدر ابڑو، سہیل سانگی اور نذیر عباسی کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان افراد پر الزام تھا کہ وہ ملک کے خلاف تخریبی لٹریچر چھاپ کر تقسیم کررہے ہیں۔
ان افراد کو خفیہ فوجی ٹارچر سیلوں میں شدید ذہن و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان سے پارٹی کے پورے سلسلہ عمل کی تفصیلات جاننے کی کوشش کی گئی مگر نذیر عباسی نے اپنی زبان سختی سے بند رکھی۔ اس تشدد کے نتیجے میں 9 اگست 1980ءکو وہ جان کی بازی ہار بیٹھے۔
نذیر عباسی کی شہادت کے بعد29 اگست 1980ءکو حکومت نے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کا اعلان کیا اور کہاکہ یہ افراد ملک دشمن افراد کا خفیہ سیل چلا رہے تھے۔ یہ حکومتی تشدد کی انتہا تھی کیونکہ اس وقت تک نذیر عباسی کو اپنی جان سے گزرے 20 دن گزر چکے تھے۔