آج امریکا میں مقیم اردو، پنجابی اور انگریزی کے شاعر، ادیب اور حقوق انسانی کے علمبردار افتخار نسیم کی برسی ہے ۔افتخار نسیم 15 ستمبر 1946ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد خلیق قریشی معروف صحافی تھے اور روزنامہ عوام، فیصل آباد کے مالک مدیر تھے۔
یہ بھی پڑھئے:
اردو کے نامور شاعر ساغر صدیقی کی برسی آج ہے | عقیل عباس جعفری
افتخار نسیم 1971ء کے لگ بھگ ترک وطن کرکے امریکا چلے گئے تھے۔ امریکا میں انہوں نے ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے عملی جدوجہد کی۔ افتخار نسیم شکاگو میں پاکستانی کمیونٹی کے مقبول اور متحرک افراد میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے سنگت ریڈیو کے نام سے ایک ایف ایم چینل بھی قائم کیا تھا۔
یہ بھی دیکھئے:
افتخار نسیم ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کے شعری مجموعے، غزال، مختلف، ایک تھی لڑکی ،نرمان اور آب دوز کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے جبکہ افسانوں کا مجموعہ شبری کے نام سے چھپا۔ وہ مقامی اردو اخبار میں کالم نگاری بھی کرتے تھے۔ ان کے کالموں کے دو مجموعے افتی نامہ اور افتی نامہ 2 کے نام سے شائع ہوئے تھے۔
افتخار نسیم 22جولائی 2011ء کو شکاگو میں وفات پاگئے۔وہ شکاگوکے مقامی مسلم قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو،
طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دیئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں
ان کی ایک مقبول غزل
اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا
آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا
جس گھڑی آیا پلٹ کر اک مرا بچھڑا ہوا
عام سے کپڑوں میں تھا وہ پھر بھی شہزادہ لگا
ہر گھڑی تیار ہے دل جان دینے کے لیے
اس نے پوچھا بھی نہیں یہ پھر بھی آمادہ لگا
کارواں ہے یا سراب زندگی ہے کیا ہے یہ
ایک منزل کا نشاں اک اور ہی جادہ لگا
روشنی ایسی عجب تھی رنگ بھومی کی نسیمؔ
ہو گئے کردار مدغم کرشن بھی رادھا لگا