26 جون 1957ء کو اردو کے نامور مزاح نگار‘ روزنامہ ’’جنگ ‘‘کے کالم نویس اور پندرہ روزہ نمکدان کے مدیر مجید لاہوری کا انتقال ہوا۔
مجید لاہوری کا اصل نام عبدالمجید چوہان تھا۔ وہ 1913 میں پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئے تھے۔
مجید لاہوری نے 1938ء میں روزنامہ انقلاب لاہور سے صحافت کا آغاز کیا اور اس کے بعد کئی اخبارات اور پھر محکمہ پبلسٹی سے وابستہ رہے۔
یہ بھ دیکھئے:
1947ء میں وہ کراچی آئے اور انصاف‘ انجام اور خورشید میں قلمی خدمات انجام دینے کے بعد روزنامہ جنگ کے ادارے سے وابستہ ہوئے اور اپنا مشہور معروف کالم حرف و حکایت لکھنا شروع کیا۔ جنگ سے ان کی وابستگی ان کی وفات تک جاری رہی۔
یہ بھی پڑھئے:
کشمیر میں بھارت کے انسانیت کشی اور ڈرامہ کرفیو
اثبات مشاعرہ نمبر، روایت، ثقافت اور تجارت
پنشنرز کی دہائیوں طویل خدمات کا صلہ کیا ملا؟
وفات سے چند روز پہلے وہ انفلوئنزا کے مہلک مرض میںمبتلا ہوئے۔ جس کا وائرس ان دنوں پورے پاکستان میں وبا کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ اس مہلک مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے قارئین سے غافل نہیں رہے۔ ان کے آخری دونوں کالموں کا عنوان تھا۔’’انفلوئنزا کی نذر‘‘ آخری سے پہلے کالم میں جو صرف چند سطروں پر مشتمل تھا، انہوں نے لکھا تھا ’’میں بھی انفلوئنزا کی لپیٹ میں آگیا ہوں اس لئے نہیں چاہتا کہ اس حالت میں کالم لکھ کر جراثیم آپ تک پہنچائوں‘‘ جبکہ آخری کالم میں جو ان کی وفات کے دن شائع ہوا، صرف اتنا تحریر تھا ’’آج دوسرا دن ہے‘‘۔
نمونہ کلام:
یہ فخر کم نہیں ہے کہ لیڈر بنیں گے ہم
اور ووٹ لے کے قوم کے ارکان بنیں گے ہم
جا کر اسمبلی میں منسٹر بنیں گے ہم
ملّت میں انتشار اگر ہے تو کیا ہوا
تنظیم بے وقار اگر ہے تو کیا ہوا
ہر سمت اِک ہجوم بلا ہے، ہوا کرے
قائد کی روح ہم سے خفا ہے، ہوا کرے
اپنوں کو ہم سے کوئی گِلا ہے، ہوا کرے
ملّت میں انتشار اگر ہے تو کیا ہوا
تنظیم بے وقار اگر ہے تو کیا ہوا
مرکز کو جس طرح بھی ہو نیچا دکھائیں گے
ہر روز ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائیں گے
راگ اپنا اور اپنی ہی ڈفلی بجائیں گے
ملّت میں انتشار اگر ہے تو کیا ہوا
تنظیم بے وقار اگر ہے تو کیا ہوا