آج اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقاداور براڈ کاسٹر عزیز حامد مدنی کا یوم وفات ہے ۔ عزیز حامد مدنی 15جون 1922ء کو رائے پور (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد نے 1898ء میں علی گڑھ سے گریجویشن کیا تھا اور وہ علامہ شبلی نعمانی کے شاگرد تھے۔ عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا۔ بعدازاں وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے اور پھر اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ عزیز حامد مدنی کا شمار اردو کے جدید ترین اور اہم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ ایک جداگانہ اسلوب کے مالک تھے اور ان کے موضوعات کی انفرادیت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ان کے شعری مجموعے چشم نگراں، دشت امکاں اور نخل گماں کے نام سے اور ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔
علاوہ ازیں ان کے کلام کی کلیات بھی شائع ہوچکی ہے۔
عزیز حامد مدنی 23 اپریل 1991ءکو وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں لیاقت آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
کچھ اب کے ہم بھی کہیں اس کی داستان وصال
مگر وہ زلف پریشاں کھلے تو بات چلے
خلل پذیر ہوا ربط مہر و ماہ میں وقت
بتا یہ تجھ سے جدائی کا وقت ہے کہ نہیں
خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات
رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا جاتا
الگ سیاست درباں سے دل میں ہے اک بات
یہ وقت میری رسائی کا وقت ہے کہ نہیں
مانا کہ زندگی میں ہے ضد کا بھی ایک مقام
تم آدمی ہو بات تو سن لو خدا نہیں