15اپریل 2017 ء کو سابق بیوروکریٹ اور ممتاز ادیب مختار مسعود لاہور میں انتقال کر گئے۔
مختار مسعود 15 دسمبر 1926 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی تھی جہاں ان کے والد بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ مختار مسعود نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔قیام پاکستان کے وقت وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ لاہور آ گئے۔ 1949ء میں انھوں نے مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور سول سروس سے منسلک ہو گئے۔دوران ملازمت وہ مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ وہ کئی اداروں کے سربراہ، کمشنر اور وفاقی سیکرٹری بھی رہے۔
یہ بھی دیکھئے:
60 کے عشرے میں جب لاہور میں مینار پاکستان کی تعمیر جاری تھی تو اسے “یادگار پاکستان” کا نام دیا گیا۔انہی دنوں وہ لاہور کے کمشنر مقرر ہوئے اور انھوں نے ” اسے مینار پاکستان” کا نام دیا۔
وہ 1978ء میں آر سی ڈی کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے اور تہران میں تعینات رہے۔ ان دنوں شہنشاہ ایران کے خلاف تحریک عروج پر تھی۔ ایران میں موجود ہونے کے سبب مختار مسعود نے ایران کے اسلامی انقلاب کا احوال اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انقلاب کے بعد بننے والی حکومت نے آر سی ڈی کو ختم کر دیا، اس طرح انھیں اس تنظیم کا آخری سیکرٹری جنرل بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان: جب صدر ممنون نے عمران خان سے وزارت عظمی کا حلف لیا
شہباز شریف: ذمہ داری اور چلینجز
تبدیلی کا سبق اور تحریک عدم اعتماد
ان کی زندگی میں ان کی تین کتب آواز دوست، سفر نصیب اور لوح ایام شائع ہوئیں۔ آواز دوست ان کی بہت مشہور تصنیف ہے جو تخلیق پاکستان سے متعلق ہے۔1981ء میں شائع ہونے والی ان کی دوسری کتاب ان کا سفر نامہ ہے جب کہ 1996ء میں منظر عام پر آنے والی کتاب لوح ایام انقلاب ایران سے متعلق ہے جس کے وہ عینی شاہد تھے۔ ان کی چوتھی کتاب حرف شوق ان کے انتقال کے تین ماہ بعد جولائی 2017ء میں شائع ہوئی جو ان کی علی گڑھ شہر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی یادوں پر محیط ہے۔
انھوں نے قائد اعظم کے نام لکھے گئے خطوطEye Witness of Historyکے نام سے مرتب کیے تھے۔ حکومت پاکستان نے انھیں ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا۔
وہ لاہور کے شادمان قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔