آج اردو کے ممتاز شاعر ذی شان ساحل کا یوم وفات ہے . ذی شان ساحل 15 دسمبر 1961ءکو حیدرآباد میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن میں پولیو سے پیر خراب ہوجانے اور کائی فوسکو لیوسیس نامی بیماری کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کرپائے۔ اس بیماری کی وجہ سے زندگی کا بڑا حصہ انہوں نے وہیل چیئر پر گزارا۔
یہ بھی دیکھئے:
1977ءمیں انہوں نے شاعری کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ شروع شروع میں انہوں نے کچھ غزلیں بھی لکھیں مگر پھر نثری نظم ان کی پہچان بن گئی۔ ان کی شاعری کے مجموعے ایرینا، چڑیوں کا شور، کہرآلود آسمان کے ستارے، جنگ کے دنوں میں، کراچی اور دوسری نظمیں، ای میل اور دوسری نظمیں، شب نامہ اور دوسری نظمیں اور نیم تاریک محبت کے نام سے شائع ہوئیں۔ ان کی نظموں کا تہمینہ احمد نے انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ۔
یہ بھی پڑھئے:
شہباز شریف: ذمہ داری اور چلینجز
تبدیلی کا سبق اور تحریک عدم اعتماد
عمران خان: ”رہ اقتدار” قدم قدم تجھے یاد گار بنادیا
آخری دنوں میں وہ ایک ناول لکھنے کی تیاری کررہے تھے کہ سانس کی دقت کی وجہ سے 12 اپریل 2008ءکواپنے خالق حقیقی جاملے۔ وہ کراچی میں وادی حسین کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں .
ذی شان ساحل کی شاعری
کسی کی دین ہے لیکن مری ضرورت ہے
جنوں کمال نہیں ہے کمال وحشت ہے
میں زندگی کے سبھی غم بھلائے بیٹھا ہوں
تمہارے عشق سے کتنی مجھے سہولت ہے
زمانے والے تو شاید نہیں کسی قابل
جو ملتا رہتا ہوں ان سے مری مروت ہے
ہوا بہار کی آئے گی اور میں چوموں گا
وہ سارے پھول کہ جن میں تری شباہت ہے
خدا رکھے تری آنکھوں کی دل نوازی کو
تری نگاہ مری عمر بھر کی دولت ہے
ترے بغیر بجھا جا رہا ہوں اندر سے
جو ٹھیک ٹھاک ہوں باہر سے تو یہ عادت ہے
جو ہو سکے تو مجھے اپنے پاس رکھ لینا
ترا وصال تو اک ثانوی سعادت ہے
ترے بغیر کوئی کیسے زندہ رہتا ہے
مگر میں ہوں کہ یہی عشق کی روایت ہے