آج اردو اور پنجابی کے صف اوّل کے شاعر منیر نیازی کی سال گرہ ہے۔ منیر نیازی 9 اپریل 1928ء کو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔
یہ بھی دیکھئے:
انہوں نے اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے یادگار چھوڑے جن میں اس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا ‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انہوں متعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔
یہ بھی پڑھئے:
عمران خان: ”رہ اقتدار” قدم قدم تجھے یاد گار بنادیا
آٹھ اپریل: آج نامور کلاسیکل گلو کار اسد امانت علی خان کی برسی ہے
منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔
منیر نیازی 26 دسمبر 2006ء کو لاہور میں وفات پاگئے ۔ وہ لاہور میں قبرستان ماڈل ٹاﺅن کے بلاک میں آسودہ خاک ہیں۔
منیر نیازی کے چند نمائندہ اشعار
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا
چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیرؔ
اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا
مجھ میں ہی کچھ کمی تھی کہ بہتر میں ان سے تھا
میں شہر میں کسی کے برابر نہیں رہا
ان کی ایک نظم تو اردو دنیا کے حافظے میں محفوظ ہو چکی ہے
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے يہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں