16 دسمبر 1978ء کو اردو کے نامور افسانہ نگار، مترجم اور اسلامی تاریخ و ثقافت کے عالمی پروفیسر عزیز احمد کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ پروفیسر عزیز احمد 11 نومبر 1913ء کو عثمان آباد ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ نے جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد دکن) اور لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور وزارت اطلاعات سے منسلک رہے۔
یہ بھی پڑھئے:
آفتاب اقبال شماری اور پکوڑے کا نظریہ انفرادیت
انتخابی عمل سے عوام کی مایوسی، ووٹ کو عزت نہ دینے کا نتیجہ سامنے آنے لگا
پندرہ دسمبر: آج اردو کے ممتاز شاعر ذی شان ساحل کا یوم ولادت ہے
پروفیسرعزیزاحمدنے ابتدائی تعلیم ضلع عثمان آباد میں مکمل کی۔ جامعہ عثمانیہ سے ایف اے کیا۔1934ء میں اعزاز کے ساتھ بی اے (آنرز ) کیا۔ بعد ازاں انھیں اعلی تعلیم کے لیے وظیفہ ملا اوروہ انگلستان چلے گئے ۔1938ء میں لندن یونیورسٹی سے بی اے (آنرز ) کی ڈگری لی۔ وہ فرانس کے سوربون یونیورسٹی سے بھی منسلک رہے۔ شہزادی درشہوار کے سیکریٹری بھی رہے
1958ء میں وہ لندن چلے گئے اور اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ 1960ء میں وہ ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی علوم سے منسلک ہوئے اور آخر تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ پروفیسر عزیز احمد کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگار اور ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں رقص ناتمام، بیکار دن بیکار راتیں، ناولٹ خدنگ جستہ اور جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں اور ناول گریز، آگ، ایسی بلندی ایسی پستی، ہوس اور شبنم کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ اسلامی علوم اور ثقافت پر بھی کئی انگریزی کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے انگریزی کی کئی شاہکار کتابوں کو اردو میں بھی منتقل کیا تھا۔