ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925 کو انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اوراق نو‘ ہمایوں اور خیال کی مجلس ادارت میں شامل رہے اور پھر اپنی وفات تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔
1954ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ برگ نے شائع ہوا جس نے شائع ہوتے ہی انہیں اردو غزل کے صف اول کے شعرا میں لا کھڑا کیا۔ ان کے دیگر شعری مجموعے دیوان‘ پہلی بارش‘ نشاط خواب اور سُر کی چھایا اور مضامین کا مجموعہ خشک چشمے کے کنارے ہے۔ یہ مجموعے ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اردو کے چند بڑے شاعروں کے الگ الگ منتخبات بھی مرتب کئے جن میں میر، نظیر، ولی اور انشا سرفہرست ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
مرابطات ؛مسجد الاقصیٰ کی حفاظت کرنے والے شیردل فلسطینی خواتین کا گروپ
آثار ،بین الاقوامی معیارکے ادبی جریدے کانیاجنم
ناصر کاظمی کا شمار اردو کے صاحب اسلوب شعرا میں ہوتا ہے۔ انہوں نے میر تقی میر کے دبستان شاعری کو انتہائے کمال تک پہنچادیا۔
2 مارچ 1972ء کو ناصر کاظمی کا انتقال ہوگیا۔ وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں اور ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
چند مزید اشعار
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
کون اچھا ہے اس زمانے میں
کیوں کسی کو برا کہے کوئی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں