ظرافت کے پردے میں قوم کو جھنجھوڑنے والے اکبر الٰہ آبادی کی آج سوویں برسی ہے۔ ان کی تاریخ پیدائش 16 نومبر1846ء ہے۔
اکبر الٰہ آبادی کا اصل نام اکبر حسین تھا۔ 1866ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا اس کے بعد نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1881ء میں منصف، 1888ء میں سب جج اور 1894ء میں سیشن جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ شعر گوئی شوق بچپن سے تھا۔ وہ اردو شاعری میں ایک نئی طرز کے موجب بھی تھے اور اس کے خاتم بھی۔ انہوں نے ہندوستان میں مغربی تہذیب کے اولین اثرات کی تنقید میں اپنی طنزیہ شاعری سے خوب کام لیا۔ ان کے متعدد اشعار اردو شاعری میں ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔
یہ بھی دیکھئے:
مثلاً:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
یہ بھی پڑھئے:
ہمارا انصاف اندھا نہیں، عمران خان
عمران خان اور پرویز الٰہی کی راہیں جدا ہونے کا اصل وقت
آزاد دائرۃ المعارف کے مطابق اکبر الہ آبادی نے اپنا الگ رنگ پیدا کیا۔ ان کی شہرت ظرافت آمیز اور طنزیہ اشعار پر مبنی ہے۔ مشرقیت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے سخت خلاف تھے۔ مغرب زدہ طبقے کو طنز و مزاح کی چٹکیاں لے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ کلام میں مس، سید، اونٹ، کالج، گانے، کلیسا، برہمن، جمن، بدھو میاں مخصوص اصطلاحیں اور علامتیں ہیں۔ مخزن لاہور نے انھیں لسان العصر خطاب دیا۔ مبطوعہ کلام تین کلیات پر مشتمل ہے۔ دو ان کی زندگی میں شائع ہو گئے تھے۔ تیسرا انتقال کے بعد شائع ہوا۔
اکبر الٰہ آبادی کی تصانیف میں چار جلدوں پر مشتمل کلیاتِ اکبر ، گاندھی نامہ، بزمِ اکبر اور گنج پنہاں کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کا انتقال 9 ستمبر 1921ء کو ہوا۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنے ظریفانہ کلام سے وہی کام لیا جو اقبال نے اپنے سنجیدہ کلام کے ذریعے قوم کو جھنجھوڑ کر کیا تھا۔